اگر آپ اِس بات پر یقین رکھتے
ہیں کہ اللہ نے کوئی بھی چیز نِکمّی پیدا نہیں کی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے
گا کہ مہنگائی کے بھی کچھ نہ کچھ فوائد ضرور ہوں گے۔ مہنگائی کا فائدہ
سرمایہ داروں اور کاروباری، بالخصوص تجارتی برادری کو تو پہنچتا ہی ہے جو
کسی بھی چیز کے نرخوں میں راتوں رات ہونے والے اِضافے سے اپنی تجوری خوب
اور بر وقت بھرتی ہے۔ آپ سوچیں گے یہ کون سی انوکھی بات ہے؟ مہنگائی کا
فائدہ تاجر برادری کو تو پہنچتا ہی ہے۔ ٹھیک ہے، مگر حالات اور غربت کے
ستائے ہوئے لوگ بھی مہنگائی کے فوائد سے محروم نہیں رہتے۔
بھارت کے ایک وزیر فرماتے ہیں کہ مہنگائی کے بھی چند فوائد ہیں۔ ایک بڑا
فائدہ یہ ہے کہ جن کی اپنی بظاہر کوئی قیمت اور وقعت نہیں ہوتی ان کسانوں
کو ان کی پیداوار کی بہت اچھی قیمت مل جاتی ہے! موصوف یہ وضاحت نہیں کی کہ
اگر مہنگائی بڑھنے سے پیداوار کے دام اچھے ملتے ہیں تو بھارت میں ہر سال
کسان خود کشی کی فصل کیوں اگاتے ہیں!
کسانوں کو اچھی قیمت ملنے یا نہ ملنے کا ہمیں تو کچھ پتہ نہیں مگر ہاں
اِتنا ہمیں ضرور معلوم ہے کہ مہنگائی سے غریب کی زندگی میں چند ایک مثبت
تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں۔
قیمتیں جب تک زمین پر ہوتی ہیں، غریبوں سے الجھتی رہتی ہیں اور رات دن اس
کا ناک میں دم کرتی رہتی ہیں۔ جب وہ آسمان سے باتیںکرنے لگتی ہیں تو غریبوں
کو اپنے آپ سے ”بتیانے“ کا تھوڑا بہت موقع ملتا ہے! ویسے ہم آج تک یہ نہیں
سمجھ پائے کہ قیمتیں آسمان ہی سے باتیں کیوں کرتی ہیں اور کیا باتیں کرتی
ہیں!
مہنگائی اگر وقفے وقفے سے یعنی تواتر کے ساتھ بڑھتی رہے تو غریب آدمی رات
دن غور و فکر میں غرق رہتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے یعنی تقریباً ہر
وقت وہ مراقبے کی سی حالت میں پایا جاتا ہے اور آمدنی کا گراف گرنے کے ساتھ
ساتھ اس میں عِجز و اِنکسار کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے! کِس طرح گزارا ہوگا
یہ سوچ سوچ کر غریب کا ذہن رفتہ رفتہ دانِش وری کی حدوں کو چھونے لگتا ہے!
یعنی اگر حکومت چاہے تو ملک میں دانِش وری کی سطح قابل رشک حد تک بلند
کرسکتی ہے۔ اور بے فکر رہیے، وہ ایسا ہی کر رہی ہے!
جن معاشروں میں مہنگائی نہ ہو ان میں زیادہ ہلچل نہیں پائی جاتی۔ ہمیں تو
اِس بات پر حیرت ہے کہ کئی معاشروں میں کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی
اشیا کی قیمتیں
زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد
کے مصداق کئی کئی سال یکساں رہتی ہیں۔ قیمتیں ایک جگہ بیٹھے بیٹھے تھک نہیں
جاتیں؟ یہ تو بہت ہی بیزار کردینے والی حالت ہوئی! ہم سمجھنے سے قاصر ہیں
کہ ایسے معاشرے ”ترقی“ کِس طرح کرلیتے ہیں! یہ مہنگائی ہی کا کرشمہ ہے کہ
اِس کے بڑھتے رہنے سے بہت کچھ ہلتا جلتا رہتا ہے اور رونق میلہ لگا رہتا ہے۔
اب اِسی بات کو لیجیے کہ مہنگائی بڑھنے سے اِنسان زیادہ کمانے کا سوچتا ہے۔
اگر غریب کی زندگی میں مہنگائی نہ ہو تو وہ زیادہ کمانے کے بارے میں سوچنا
ہی چھوڑ دے گا! جب چیزیں مہنگی ہوتی جاتی ہیں تب ہی تو غریبوں کو بھی خیال
آتا ہے کہ کچھ اِضافی کمایا جائے ورنہ بھاگتا چور لنگوٹی بھی ہاتھ نہ آنے
دے گا! اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، مہنگائی کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی
ہے کہ بہت سے لوگوں کو کمانے کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے! پس ثابت ہوا کہ
حکومتی مشینری کی بھرپور مشقت کے نتیجے میں جو مہنگائی جنم لیتی ہے وہ
ناکارہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو کام پر لگاتی ہے! حکومت روزگار کے ذرائع پیدا
کرکے لوگوں میں تقسیم کرے تب بھی ان میں کام کرنے کی وہ تحریک پیدا نہیں
ہوتی جو اشیائے ضرورت کے نرخوں میں غیر معمولی اِضافے سے پیدا ہوتی ہے۔
یعنی مہنگائی قوم کی رگوں میں لہو گرم رکھنے کا ایک انتہائی خوبصورت بہانہ
ہے!
بیشتر دکاندار خواتین کو 100 کی چیز کے دام 400 بتاکر 50 فیصد ڈسکاؤنٹ دیتے
ہوئے سودا 200 میں done کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف خواتین کا دِل یہ سوچ کر
خوش ہو رہتا ہے کہ انہوں نے دکاندار کو ٹھگ لیا! حکومت بھی اپنی دکانداری
مضبوط کرنے کے لیے بس کچھ ایسی ہی کیفیت مہنگائی کے ذریعے پیدا کرتی ہے!
پہلے تو دام بڑھائے جاتے ہیں اور جب شور شرابہ ہوتا ہے تو نرخ کچھ کم
کردیئے جاتے ہیں۔ عوام کے دِل یہ سوچ کر خوش ہو رہتے ہیں کہ چلو، حکومت سے
اپنی بات منوالی!
اب آپ ہی بتائیے کیا عوام کو خوش ہونے کا موقع دینا کوئی بری بات ہے؟ حکومت
کو تو اِس کا کریڈٹ دینا چاہیے۔ مگر بعض عاقبت نا اندیش قسم کے لوگ مہنگائی
کا رونا روکر حکومت کو خواہ مخواہ کوستے رہتے ہیں! یقین کیجیے یہ ناشکرا پن
ہی ہمارے معاشرے کو ”ترقی“ کی راہوں پر آگے بڑھنے سے روک رہا ہے!
ہم نے بعض اوقات مہنگائی کے انتہائی روح پرور اثرات کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔
بیشتر غریب جب مہنگائی کے ریلے کے سامنے بند باندھنے میں سراسر ناکام ہو
جاتے ہیں تب ان کی طرز عمل میں غایت درجے کی نرمی، ٹھنڈک اور مٹھاس پیدا ہو
جاتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام تو قوم کو تبدیل نہ کرسکا مگر مہنگائی میں قدرت
نے یہ خوبی رکھی ہے کہ جب یہ اپنی منطقی حد سے گزرتی ہے تو اِنسان کو
”ٹھنڈا ٹھار“ کردیتی ہے! یاد رکھیے، اِنسان کے مزاج کی ساری غیر ضروری شورش
اور تیزی ختم کرکے شرافت، نرمی اور اِخلاص پیدا کرنے والی صرف دو ہی چیزیں
پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ ایک ہیروئن کا نشہ اور دوسرے اولمپک کی ریس میں
حصہ لینے والوں کی طرح بے لگام ہوکر دوڑتی ہوئی مہنگائی!
ہم تو پاکستان کی اولمپک کمیٹی کے حکام کو یہ مشورہ دیں گے کہ اگلے اولمپکس
کے لیے ایتھلیٹس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کو بھی قومی دستے کا حصہ بنایا جائے۔
مہنگائی میں اِضافے کی رفتار دیکھتے ہوئے ہمیں امید ہے کہ یہ بھاگ دوڑ والے
چار چھ ایونٹس میں تو پاکستان کو وکٹری اسٹینڈ پر سب سے بلند کھڑا کرکے
قومی ترانہ بجوا ہی دے گی! اور کیوں نہ بجوائے گی، فقید المثال مستقل مزاجی
کے ساتھ مہنگائی آخر ہمارا بینڈ بھی تو بجاتی آئی ہے! |