قصور وار کون۔۔۔حکمران یا عوام؟

میرے عزت مند اور غیرت مند پاکستانیوں سنتے چلے آئے ہیں کہ جس طرح کی قوم ہو گی اسی طرح کہ حکمران اس قوم پر مسلط کیئے جا ئیں گے اور میرے بزرگو اور دوستو! اس میں کوئی شک والی بات بھی نہیں ہے تاریخ گوا ہے اس بات کی،میں نے تو جب سے ہوش سنھبالہ اچھی طرح سے تجزیہ کر چکاہوں ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہا ہے ۔جبکہ میں نے اکثر یہ کہتے ہوئے سنا بھی ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے سب خدا کی مرضی سے ہو رہا ہے،لوڈ شڈنگ ہے تو اللہ کی مرضی سے ہے مہنگائی ،بیروزگاری ،تنگدستی ،غربت،جہالت اور یہاں تک لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ غیروں یعنی غیر مسلموں کی غلامی یہ سب اللہ کی مرضی سے ہورہا ہے۔

لیکن میرے خیال میں ایسا ہر گز ایسا نہیں ہے ہا ں مگر ،اللہ کہ فرمان کہ مطابق ضرور ہے بے شک اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کہ خلاف ہر گز نہیں کرتا ،اسی لیئے تو کہتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہا ہے ،ہر ایک شخص جب اپنے اپنے گریبان میں جھانکے گا تو سب کچھ صاف صاف دیکھائی دے گا اور وہ شخص کہے گا کہ ہاں جو ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہا ہے۔اور میرے بزرگو اور دوستو! ہر وہ شخص جسے چھ کلمے تک پورے پڑھنے نہیں آتے اور وہ شخص ایک مسلم ریاست پر حکمرانی کر رہا ہے۔وہ شخص جسے سورہ اخلاص تک پڑھنی نہیں آتی اور وہ شخص وزیر داخلہ کہ عہدہ پر فائز ہے،وہ شخص جس نے کبھی پانچ وقت کی نماز کی پابندی نہ کی وہ مسلم ریاست پر حکمرانی کر رہا ہے نماز کی پابندی تو دور کی بات ہے میر ے دوستو ! ہمارے پاکستان میں تو کچھ ایسا سسٹم ہے کہ ملک پر حکمرانی کرنے والوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ نماز کی رکعتیں کتنی ہیں۔اس حوالے سے باتیں تو دماغ میں بہت سی جنم لے رہی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کہ لیئے اتنا اشارہ کافی ہے۔مزید یہ کہ جس نے کبھی کسی یتیم کہ سر پر شفقت سے ہاتھ نہ رکھا ،جس نے رشوت لی،جس نے قتل کیا ،جس نے قاتل کا ساتھ دیا ،جس نے حرام کھایا اور حرام کھانے والے کا ساتھ دیا جس نے سود لیا اور سود کا کا روبار کیا جس نے سود کی رقم سے کروڑوں عوام ۔۔۔۔۔۔۔اور ہر وہ شخص جس نے ظلم ہوتے دیکھا اور ظالم کا ہاتھ نہ روکا بلکہ ظا لم کی پشت پناہی کی ،اور ہر وہ شخص جس سے اس کے والدین ناراض ہیں ،جس کے بیوی بچے بھوکے ہیں اور خود عیاشیوں میں مصروف ہے،ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے اور اس نے اختیار کا ناجائز استعمال کیا ۔ایسے تما م لوگ جن کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں کیا گیا ہے ان لوگوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں کتنی ہے اس بات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ۔تو پھر حکمرانو ں کو ہی الزام دینے کی کیا ضرورت ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کہ خلاف نہیں کرتا ۔جب عین نماز کے وقت بھی مسجدیں ویران ،اسمبلیاں ،قانون ساز ادارے اور تعلیمی اور تجارتی مراکز آباد ہو ں ،اور اذان کے وقت ہمارے گھروں میں ناچ گانے ہو رہے ہو ں تو ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کے سروں پر چادر نا م کی کوئی چیز تک نہ ہو جب بے حیائی عام ہو ،جب انڈیا کہ چینل گھر گھر میں بے حیائی کا پیغام لمحہ بہ لمحہ پہنچا رہے ہوں ،جب والدین بچوں کے ڈانس پر خوش ہو کر تالیاں بجا رہے ہوں ،جب مرد اتنے بے غیرت ہو جائیں کہ وہ اپنی بہین ،بیٹیوں کو عالمی مقابلہ حُسن کے انتخاب کے لیئے ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو اپنا مہمان بناتے ہوں تو چند ڈالروں کی خاطر اپنے ایمان کو بیچ دیتے ہو ں اور میرے دوستو جب دین کا سودا کر دیا جائے اور جب اسلام دشمنوں کے ساتھ مل کر اسلام کے مخالف پالیسیوں پر دستخط کئے جاتے ہوں تو پھر عوام پریشان کیوں ہے؟پھر تو سب کچھ ٹھیک ہی ہو رہا ہے ۔کیوں کہ یہ جو سب کچھ بُرا ہو رہا ہے تو اس بُرائی میں میرا اور آپکا برابر کا قصور ہے ۔کیوں کہ ان لوگوں کا انتخاب بھی تو آپ نے اور میں نے کیا ہے ،انہیں قطاروں میں دھکے کھاتے ،بھوکے پیاسے ووٹ تو ہم نے ہی دیا ہے نہ۔ہم نے اس وقت کیوں نہ سوچا تھا کہ ہم لوگ کس کا انتخاب کر رہے ہیں ۔کیا ہم نے اس ٹائم یہ سوچا ہے کہ کیا یہ شخص ایسا ہے جس سے اللہ راضی ہو ؟ارے نادان لوگو!کچھ تو عقل کے ناخن لو ،صرف اتنا ہی سوچ لیتے کہ آیا جس شخص کو ہم ووٹ دینے جا رہے ہیں کبھی کسی نے اس کو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتے دیکھا ہے۔جب پانچ وقت کی نماز کا واحد مقصد ہی یہی ہے کہ جب تم لوگ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہو تو تمہیں پتا چلتا ہے کہ تمہا رے ساتھ محلے کا پڑوس کا کون کون ہے،رکوع کرنے والا کون کون ہے،سجدے میں جانے والاکون کون ہے ۔سلام پھیرنے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے صرف اور صرف اس لئے کہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کی پہچان ہو جائے اور اچھے بُرے کی تمیز کر سکو۔لیکن میرے سمیت جو کبھی مسجد میں داخل ہی نہ ہوا ہو سوائے نمازعیدین یا نماز جمع کہ تو بھلا اس کو کیا خبر ہو گی کہ جس کو میں ووٹ دینے جا رہا ہوں وہ کون ہے ؟کیا اس میں اتنی عاجزی و انکساری ہے کہ کل اس کے منتخب ہو نے کہ بعد اگر میں بوقت ِ ضرورت اپنی عاجزی اور انکساری لے کر اس کہ پاس جاؤں تو کیا یہ میرے کام آسکے ،ہر گز نہیں ہمیں ان چیزوں کی فہم و فراست ہی نہیں ہم تو بس لکیر کے فقیر لوگ ہیں ،جس نے جب چاہا جیسے چاہا ہمیں ہنکار لیا ۔میرے دوستوں! زمانہ کچھ بھی کہے کہتا رہے میں تو وہ کہوں گا جو
حقیقت ہے جبکہ میں جانتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔

ارے بس کر دو خدا کے لیئے ،بند کر دو لائٹ بند کر دو کمپیوٹر اور اپنا یہ کالم والم کسی کہ پاس فرصت ہی نہیں آج کل ایسی فضولیات پڑھنے کی،ارے شعیب تم جیسے نہ جانے کتنے لکھنے والے روزانہ کیا کیا لکھتے رہتے ہیں لیکن میری بھی عمر بائیس (22)سال ہو چکی ہے میں نے تو آج تک کسی کالم نگار کا کسی پر اثر ہوتے نہیں دیکھا ،نہ تو حکمرانوں پر اور نہ ہی عوام پر خواہ مخواہ راتیں کالی کرنے سے بہتر ہے کہ جیسے کروڑوں لوگ مزے کی نیند سو رہے ہیں ایسے تم بھی سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دوصبح ڈیوٹی پر بھی جانا ہے میں نے ۔

ارے میرے بھائی جیسے تمہاری مرضی میں تو وہی کروں گا جو میرا دل کرے گا مجھے تو مجھے تو لکھے بغیر چین نہیں آتا۔معاشرے کی ستم ظریفیاں مجھ سے تو کم از کم دیکھی نہیں جاتی۔اور رہی بات پڑھنے اور نہ پڑھنے والوں کی تو تم اپنے آپ کو ہی دیکھ لو ،خود تو سو رہے ہو لیکن تمہارے کمرے کا ٹی وی مسلسل چل رہا ہے،خبریں پڑھنے والے کو تمہاری قطعی پروا نہیں ہے کہ تم جاگ رہے ہو یا سو رہے ہو ،کمرے میں کوئی ہے کہ کمرہ خالی ہے جب ٹی وی آن ہے تو اس نے اپنا کام کرنا ہے چاہے جو بھی پروگرام چل رہا ہو وہ تمہاری آنکھیں بند کرنے سے رُک نہیں جائے گااور۔۔۔۔

اچھا بابا غلطی ہو گئی مجھ سے اب خدا کے لئیے بند کرو اپنی تقریر اور مجھے ایک بات تو بتاؤ کل تاریخ کیا ہے ؟یار راشد تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا چلو اٹھو مسجد چلتے ہیں آج بڑی رات ہے کم از کم اپنے گناہوں کی معافی تو مانگ لیں ۔اور ملک کی سلامتی کہ لیئے دعا بھی کر لیں ۔۔۔اور شاید اللہ تعالیٰ اس بڑی رات کے صدقے ہی ہمیں معاف فرما دے اور ملک میں تو ہر طرح کی آفات آئی ہوئی ہیں انہیں ختم کر دے،اب اُٹھو بھی ۔۔۔۔دوسروں کو تو نصیحت کرتے رہنا اور خود اس پر عمل نہ کرنا میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔جبکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم نے کھانا بھی نہیں کھایا ابھی تک۔۔۔۔

الحمداللہ،میں کھانا بھی کھا چکا ہوں اور نماز بھی پڑھ چکا ہوں اور اب تم لوگ یہ مت کہہ دینا کہ نماز پڑھنے کے بعد کمپیوٹر پر کام کرنے سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے اس لیئے کہ کمپیوٹر یہودیوں کی ایجاد ہے یا غیر مسلموں کی ۔۔۔۔

ارے ارے او بھائی اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے میں نے کوئی لطیفہ تو سنایا نہیں ؟

بھائی خدا کے لیئے سمجھنے کی کوشش کرو یا ر،یہ تم لوگوں! نے اسلام اور دین کو کیا سے کیا بنا دیا ہے، کہاں کی بات کہاں سے کہاں لے جاتے ہو یار۔۔۔

کچھ دن پہلے مجھے ایک مولوی صاحب نے ٹائی پہننے سے منع کیا کہ یہ مسلمانو ں کی ایجاد نہیں ہے تو میں اُن مولوی صاحت سے پوچھتا ہوں کہ ارے جو ٹی وی آپ نے گھر پر رکھا ہے بے شک آپ نے اسلامی پروگرام دیکھنے کے لیئے رکھا ہے کیا وہ کسی مسلمان کی ایجاد ہے کیا ۔یہ جو موبائیل فون تم لوگ میرے سمیت دن میں کئی بار استعمال کرتے ہو اور ایس ایم ایس کرتے ہو کیا یہ کسی مسلمان کی ایجاد ہے کیا ۔

تمہارے بیٹے کی پیدائش پر تم نے دو دن اسے ڈبے کا دودھ نہیں پینے دیا تھا کہ یہ انگریز کی ایجاد ہے لیکن بالاآخر ڈھائی سال تک تمہارے بچے نے یہی دودھ پیا ۔عجیب ڈرامہ ہے یار آپ لوگو ں کا کم از کم مجھے تو تم لوگوں کی کچھ سمجھ نہیں کہ آخر تم لوگ ایسا کیوں کر رہے ہو۔جن چیزوں اور جن کاموں سے اسلام نے ہمیں منع کیا وہ تو صبح شام ہماری زندگی میں دستک دے رہی ہیں اور ہم ہیں کہ بغیر کسی ڈر کے اسلام کی خلاف ورزیا ں کرتے جا رہے ہیں او میرے دوستو!اسلام میں ٹیلی ویثرن دیکھنا کون سا جائز ہے لیکن افسوس کہ آج کل ٹیلی ویثرن ہمارے گھروں کی زینت بن چکا ہے ۔ہم لوگ اپنے اعمال کہ بارے میں تو سوچتے ہی نہیں ہم سب نے اپنے مال خزانے بنکوں میں رکھے ہوئے ہیں ۔بڑے بڑے عالم دین بھی میں نے انہیں بنکوں سے اندر باہر جاتے دیکھے ہیں ،بڑے بڑے علماءکو موبائیل فون کا استعمال کرتے ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔بڑے بڑے نمازی پرہیزگار اور نامی گرامی سیاستدانوں کی اولادیں انگریزی سکولوں ،کالجوں بلکہ انٹرنیشنل یونیورسٹیوں میں آج بھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں ،یہ سب کیا ہے میٹھا میٹھا ،ہپ ہپ ،کڑوا کڑوا تھو تھو آخر کیو ں یار کیوں ؟اجتہاد کہاں ؟کون لے اُڑا اُسے؟کون بتائے گا قوم کو اس کے بارے میں ؟کیا اسلام یہی ہے کہ مسجدوں ،امام بارگاہوں ،مندروں،گرجہ گھروں اور بازاروں میں خود کش حملے کرتے پھرو،بے گناہو ں کا نا حق خون کرتے پھرو،اور پھر ساتھ یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ جنت کی حوریں تمہارا انتظار کر رہی ہیں کہ ہمارا اللہ ہم سے راضی ہو ،ہم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے ،صرف اور صرف امریکہ کو راضی کرنے کہ لیئے ،اب بھی وقت ہے اپنے اللہ کو راضی کر لیں ورنہ ہمارا
ٹھکانا (اللہ معاف کرے)جہنم ہو گا۔

جو زندگی نے وفا کی اور آپ نے پسند کیا تو مزید کالموں میں ملاقات رہے گی۔انشاءاللہ۔ آپ اپنی پسند اور نا پسند سے مجھے 03135078227یا [email protected]پر اگاہ کر سکتے ہیں ۔آپ کے تعاون کا شکریہ۔
Sardar Muhammad Shoaib
About the Author: Sardar Muhammad Shoaib Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.