میرے شہر میں سردی آئی ہے

سردی کے آتے ہی لنڈا بازارسج گئے
طویل انتظار کے بعد کراچی والوں نے گرم کپڑے نکا لے ہیں

سستے داموں گرم کپڑوں کی خریداری ایک زمانے میں غریب اور متوسط گھرانے کے افراد ہی کیا کرتے تھے مگر اب امیر اور ایلیٹ کلاس طبقہ بھی لنڈابازار کا رخ کرتا ہے، جس کا سبب مہنگائی میں اضافہ ہے۔نوجوانوں میں اس کا رجحان زیادہ ہے جسکی وجہ نوجوان طبقہ میں ویسٹرن ڈیزائنز کے کپڑوں کی مقبولیت ہے-

سردی کا موسم چھوٹے بچوں‘ نحیف الجسم افراد اور عمر رسیدہ آدمیوں کیلئے بطور خاص خطرناک ہوتا ہے اور وہ لوگ جو اپنی قوت برداشت اور موسمی شدائد کو برداشت کرنے کی صلاحیت پر انحصار کرتے ہیں۔ انھیں اسپتال اور ڈاکٹروں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ سو آپ بھی ذرا احتیاط کر لیں، کہیں سردی آپ کے مزاج نہ پوچھ لے۔

میرے شہر میں سردی آئی ہے۔ طویل انتظار کے بعد کراچی والوں نے گرم کپڑے نکا لے ہیں۔ سردی کی آمد نے موسم کو بدل دیا ہے، کراچی ہی نہیں ،ملک بھر کے بیشتر علاقے اس وقت شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں اور اب شہرکراچی کا موسم بھی تبدیل ہوا ہے اور یہاں بھی سردی کی آمد ہوہی گئی۔ کراچی میں درجہ حرارت تو گر رہا ہے۔ لیکن سیاست کی گرمی بڑھ رہی ہے۔ مار دھاڑ قتل وغارت گری ویسے ہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ووٹر لسٹوں کی فوج اور ایف ایس سی کے جوانوں کے ذریعے تصدیق کا حکم دیا ہے، اس بھی درجہ حرارت بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ملک کے شمالی اور بالائی علاقے بھی شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں۔سردی کا موسم شروع ہوتے ہی شہریوں کو گرم کپڑوں کی فکر ستانے لگتی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے باعث بہت سے شہری گرم کپڑوں کی خریداری کیلئے نئے کپڑوں کے بجائے پرانے کپڑوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔مہنگائی میں اضافے کے باعث جہاں نئے گرم کپڑے خریدنا عام آدمی کی دسترس سے باہرہوگیا ہے، وہیں پرانے کپڑوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔کراچی میں صدر کے ٹھیلوں پر گرم کپڑوں کے ڈھیر ہیں اور جوں جوں سر دی لہر چلتی ہے، ان ٹھیلوں پر ہجوم کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یوں توکراچی شہر میں پرانے کپڑے فروخت کرنے کا سب سے بڑا بازار شہر کے وسط ایم اے جناح روڈ پر قائم ہے۔ جو "لائٹ ہاو ¿س لنڈا بازار" کے نام سے مشہور ہے، کبھی یہاں لائٹ ہاوس سینما ہوا کرتا تھا۔ یہاں پر فلم کی تقسیم کاروں کے دفاتر تھے۔ اب یہاں پرانے کپڑے بکتے ہیں۔ پرانے استعمال شدہ کپڑے فروخت کرنےوالا یہ"لنڈا بازار" کراچی شہر کا سب سے قدیم اور وسیع بازار ہے جہاں ہر قسم کے چھوٹے بڑے استعمال شدہ پرانے گرم کپڑے،سوئیٹرز،گرم شالیں، جوتے،کمبل، لحاف،پردے،مفلرز،لیدر جیکٹس،گرم کوٹ دستیاب ہوتے ہیں۔

پورے کراچی سے شہریوں کی بڑی تعداد اس بازار سے سردیوں کی خریداری کرنے آتی ہے۔استعمال شدہ کپڑوں کی قیت نئے کپڑوں کی نسبت کافی کم ہوتی ہے اس لئے شہری اس بازار کا رخ کرتے ہیں۔نئے گرم کپڑوں کی قیمت تو ہزاروں میں ہوتی ہے مگر پرانے گرم کپڑے چند سو روپوں میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔
سستے داموں گرم کپڑوں کی خریداری ایک زمانے میں غریب اور متوسط گھرانے کے افراد ہی کیا کرتے تھے مگر اب امیر اور ایلیٹ کلاس طبقہ بھی لنڈابازار کا رخ کرتا ہے، جس کا سبب مہنگائی میں اضافہ ہے۔نوجوانوں میں اس کا رجحان زیادہ ہے جسکی وجہ نوجوان طبقہ میں ویسٹرن ڈیزائنز کے کپڑوں کی مقبولیت ہے، اکثر نوجوان لڑکیوں سمیت لڑکے بھی فیشن کی مناسبت سے لنڈابازاروں سے خریداری کرتے ہیں، کیوں کہ یہ پرانے کپڑے سستے ہوتے ہیں اور کوالٹی کے حساب سے بھی معیاری ہوتے ہیں۔
مگر جیسے جیسے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، مہنگائی کے اثرات لنڈابازار کے پرانے کپڑوں کی قیمتوں پر بھی پڑے ہیں۔

مزار قائد سے ٹاور کی جانب آتے ہوئے۔کا ایم سی بلڈنگ سے پہلے ہی آپ کو ٹھیلے نظر آئیں گے، جن پرسوئیٹر، موزے، جیکٹ، کوٹ، پرانے جوتے، نظر آتے ہیں۔ لائٹ ہاؤس سینما کی پرانی عمارت کے ساتھ کی گلیوں میں لنڈا بازار ہے۔ یہاں لوگوں کا رش نظر آئے گا۔ بہت سی خواتین قیمت میں کمی کرنے کے لیے بحث و تکرار کرتی دکھائی دیں گی۔اور کہیں دکانداروں اور گاہکوں کے درمیان قیمت پر ہی بحث و مباحثہ ہوتا دکھائی دے گا۔ بہت سی خواتین یہاں کی مستقل گاہک ہیں، جو پردے،قالین، گھریلو آرائش کا سامان یہاں سے خریدتی ہیں۔ ایک خاتون جو یہاں اکثر آتی ہیں۔ انکا شکوہ تھا کہ" مہنگائی میں اضافہ کے سبب ہی تو ہم جیسا متوسط طبقہ یہاں سے خریداری کرنے آتا ہے مگر اس سال تو حد ہی ہوگئی قیمت بہت بڑھ گئی ہے ، پرانے کپڑے خریدنا بھی مشکل ہوگیا ہے"۔ایک اور خاتون نےبڑے کام کی بات بتائی اور کہا "گرم کپڑے خریدنا بھی ضروری ہے سردی بڑھ جائے گی تو ان کی قیمتیں اور بھی بڑھ جائینگی اس لئے شروع میں ہی گرم کپڑے خریدلیں تو اچھا ہے" میں نے کمبل فروخت کرنےوالے ایک دکاندارسے پوچھاکہ اب اس قدر مہنگا مال کیوں فروخت کیا جا رہا ہے۔ تو اس نے کہا کہ " ہم جو مال مارکیٹ فروخت کیلئے لاتے ہیں وہ تین گنا مہنگا ہوگیا ہے، اس لیے ہم مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں"۔گرم جیکٹس فروخت کرنے والے ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ' یہ مال دوسرے ملکوں سے آتا ہے تو ہمیں اس کی کسٹم اور ٹیکس ڈیوٹی بھی دینی ہوتی ہے، حکومت کی جانب سے ڈیوٹی ٹیکس میں بھی اضافہ ہوگیا ہے تو مال بھی اسی حساب سے مہنگا بک رہا ہے"۔خریداری کے دوران ایک صاحب کا کہنا تھا کہ اس سال کم کپڑے خریدے ہیں کیوں کہ جیب اجازت نہیں دے رہی ہے کہ پرانے کپڑے ہی کھل کر خرید سکیں، پچھلے سال کی نسبت دگنی مہنگائی ہوگئی ہے۔"بازار میں رش ہونے کے باوجود مہنگائی میں اضافے کے سبب خریداروں کی جانب سے گرم کپڑوں کی خریداری میں کمی دیکھنے میں آئی، بچوں کے گرم کپڑوں پر ذرا زیادہ رش ہوتا ہے۔ لیکن وہاں بھی قیمت پر بحث چلتی ہے۔کچھ خریدار تو قیمت پوچھ کر ہی آگے بڑھ جاتے اور کچھ خریدار قیمت میں کمی کروانے پر اصرار کرتے اور مجبورا ً مہنگے کپڑے اور جوتے خریدتے ہیں۔ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گرم ملبوسات کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے لنڈا بازاروں میں لوگوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔عوام جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں مہنگائی میں اضافہ کی وجہ سے خاصے پریشان نظر آتے ہیں وہیں سرد موسم کے آغاز کے ساتھ گرم ملبوسات کی ضرورت ان کی پریشانی بھی بڑھ جاتی ہے۔لیکن شہر میں قائم لنڈا بازار غریب اور متوسط طبقے کے لئے اس مہنگائی کے دور میں کسی نعمت سے کم نہیں، سردی کی آمد کے ساتھ ہی لائٹ ہاوس، ایمپریس مارکیٹ اور لیاقت آباد میں واقع مراکز پرانے گرم ملبوسات اور جوتوں سے سج جاتے ہیں،عوام کا کہنا ہے مہنگائی کے اس دور میں ان بازاروں سے ہمیں مناسب قیمت پر معیاری جوتے اور کپڑے مل جاتے ہیں اسی لئے وہ ان بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔شہر قائد میں سردی کی آمد آمد ہے،اسی لئے یہاں کے لنڈا بازار آباد ہونا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ یہاں لوگوں کو کم قیمت پر گرم کپڑے جو مل جاتے ہیں۔کپڑوں کا تو گذا را ہو جاتا ہے۔ لیکن سردی میں لوگوں کو لحاف اور کمبل کی بھی ضرورت ہوتی ہے،شدید سردی نے غریب اور مزدور پیشہ طبقہ کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہے، اور ان کے پاس ٹھٹھرتی راتیں پرسکون انداز میں گزارنے کے لیے گرم لحاف اوربستر موجود نہیں ہیں۔ اب روئی پچاس روپے کلو ہے، اور ایک عام لحاف میں پانچ چھ کلو روئی بھری جاتی ہے۔ لحاف کی بھرائی، سلائی، اور دھاگے ڈلوائی بھی دو سو روپے کا خرچ ہے۔یوں اب لحاف کی قیمت آٹھ سو سے ہزار روپے ہوگئی ہے۔ شہر میں بہت سے مخیر افراد اور ادارے غریبوں کو سردی سے بچنے کے لئے لحاف مہیا کرتے ہیں۔ چند دن پہلے الخدمت نے سردی کے ستائے شہر کے سفید پوش افراد میں 3ہزارلحاف اورگدے تقسیم کیئے ہیں۔ الخدمت کے ونٹر منصوبے کے تحت ہرسال مستحق اور سفید پوش افراد میں لحاف اور گدے تقسیم کیے جاتے ہیں ، اس سال بھی الخدمت شہر کے پانچوں اضلاع میں مستحق افراد کو سردیوں سے بچانے کے لیے اب تک3 ہزارلحاف اور گدے تقسیم کرچکی ہے، جبکہ مزید لحاف اور گدوں کی تیاری جاری ہے۔الخدمت کراچی کے سیکرٹری انجینئرعبدالعزیز نے مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ شدید سردی سے پریشان سفید پوش لوگوں کی مدد کے لیے الخدمت سے تعاون کریں۔غربت اور مجبوری نے بہت سے سفید پوش افراد کو بھی لحافوں کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ شہر میں سفید پوش افراد کی بڑی تعداد شدید سردی سے متاثر ہے، الخدمت تو اپنے مجبور اور بے سہار ابھائیوں کی مدد کے لیے کوشاں ہے ہی۔ اس سلسلے میں افراد کو اپنے آس پاس دیکھ کر لوگوں کی مدد کرنی چاہیئے۔ دوسری جانب سرد موسم اپنے دامن میں بہت سی رنگینیاں بھی لایا ہے۔ مہنگے ہونے کے باوجود لوگ میوہ کھانے کا شوق مونگ بھلی سے پورا کرتے ہیں۔دسمبرکا دامان ایک نہایت ہی خوشگوار مگر سرد ماحولی رنگینیوں اور رعنائیوں سے معمور ہونے لگا ہے۔ معاشرتی سرگرمیوں میں شدت وبرق رفتاری آ رہی ہے۔ ماحول میں ایک عجیب سی خنک تاب تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔ دفتر اور کاروباری اوقات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس موسم میں وقت کی رفتار کے انداز بدلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ہوٹلوں‘ ماڈرن ریسٹورنٹوں‘ طعام گاہوں اور تفریحی مقامات کا ماحول گویا ایک نیا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ قہوہ خانوں کی رونقیں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ ٹھنڈی فضاﺅں کے جھونکے اور ہلکورے انسان کو یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتے کہ دن کب طلوع ہوا اور کب ختم ہوا۔

دسمبر کے بعد کا حصہ موسم سرما کے عنفوان شباب کا زمانہ ہوگا۔ گرم مشروبات اور گرم غذاوں کا زور بڑھ جائے گا۔۔ نحیف سے نحیف معدہ بھی شدت اشتہا کا اشتہار بن جاتا ہے اور جسمانی نظام قوت پذیری کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔

اس مہینے میں جہاں ایک اوسط درجہ کی صحت رکھنے والا آدمی زندگی کے تمام تر مادی تقاضوں میں ایک غیرمعمولی انقلاب محسوس کرتا ہے وہاں اس کی صحت کا معیار بھی روبہ تغیر ہونے لگتاہے۔ یخ بستگی اور ٹھٹھرا ﺅکا دہانہ کسی وقت بھی کھل سکتا ہے اور موسمی تقاضوں کے مطابق نہ چلنے والے افراد اچانک اور غیرمتوقع طور پر سردی کی لپیٹ میں آکر زکام‘ سردرد‘ اعصابی ٹھٹھرا ﺅ پسلیوں کے سکیڑپن‘ سرسام دماغی‘ نخاع دماغی کے جمود‘ نمونیہ ایسے عوارض میں مبتلا ہوجایا کرتے ہیں۔

امراءوصاحب حیثیت افراد تو موسم سرما کے اس شدید زمانے میں حسب ضرورت گرم ملبوسات‘ حفاظتی تدابیر اور انڈہ‘ مچھلی‘ مرغ اور میوہ جات پر مشتمل اعلیٰ غذاﺅں سے اپنے نظام صحت کے گرد مناسب حفاظتی حصار استوار کئے رہتے ہیں لیکن غریب اور مزدور پیشہ افراد اپنی اقتصادی و معاشی ناہمواریوں کے تحت شدید سردی کے ان ایام میں موسم کے برفیلے تھپیڑے سہنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ ناکافی لباس اور مطلوبہ لوازم میسر نہ آسکنے کی وجہ سے ایسے افراد موسمیامراض میں گھرے رہتے ہیں اور سوائے جسمانی قوت مدافعت‘ محنت و مشقت کے کام اور گلابی دھوپ سینکنے اور رات کو کمبل یا لحاف میں منہ لپیٹ کر سو رہنے کے ان کو اور کوئی اطمینان بخش لازمہ حیات اور ذریعہ سکون نہیں ہوتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس مہینے میں موسمی اثرات کا باعث بیمار ہونے والوں میں باحیثیت اور متمول افراد کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہوتی۔سردی کا موسم چھوٹے بچوں‘ نحیف الجسم افراد اور عمر رسیدہ آدمیوں کیلئے بطور خاص خطرناک ہوتا ہے اور وہ لوگ جو اپنی قوت برداشت اور موسمی شدائد کو برداشت کرنے کی صلاحیت پر انحصار کرتے ہیں۔ انھیں اسپتال اور ڈاکٹروں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ سو آپ بھی ذرا احتیاط کر لیں، کہیں سردی آپ کے مزاج نہ پوچھ لے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418906 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More