کھلونا ہتھیار

 مستقبل کے معمار مغرب کے بھیانک منصوبے کا شکار
بچوں کے ذہنوں میں تخریب کاری پیدا کر نے والے کھلونا نما جدید ہتھیار
بچے کھیلنے کے لئے اب چاند نہیں پستول اور بندوق مانگتے ہیں۔
اسلحے سے اپنے حریفوں کو زیر کرنے کا یہ کھیل بچوں کی شخصیت کا حصہ بننے کی صورت میں معاشرے سے برداشت اور تحمل ختم کردے گا جس کی روک تھام کے لیے والدین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا
مستقبل کے معمار معصوم بچّوں کے ہاتھوں میں کھلونا نما ایئر گن، کلاشنکوف اور پستول نظر آنا ایک خطرناک رجحان

کھلونے دنیا بھر میں بچوں کو بہلانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ بچوں اور کھلونوں کا رشتہ صدیوں پرانا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بچوں کے لئے کہا جاتا تھا کہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند، لیکن اب بچے کھیلنے کے لئے چاند نہیں مانگتے ہیں۔ اب انہیں پستول اور بندوقوں سے کھیلنے کا شوق ہو گیا ہے یہی وجہ ہے اب کھلونوں کی دکان اسلحے کے کھلونوں سے بھری پڑی ہیں۔ کھلونوں کی دکانوں پر مختلف چھوٹی بڑی بندوقوں کو واضح طور پر آویزاں کیا جا تا ہے۔ بہت دن پہلے کلفٹن کی ایک دکان پر سجے ہوئی ایک گن میرے بچے کو بھا گئی، میں نے اسے ایک دوسرا کھلونا لے دے دیا۔ لیکن گھر آنے تک اس کی ضد اسی گن کے بارے میں تھی، اور تین دن کی مسلسل ضد کے آگے مجھے اسوقت ہتھیار ڈالتے بنی ۔ جب میں دوبارہ اس دکاندار کے سامنے تھا۔ بچے تو انگارے سے بھی کھیلنے کی ضد کرتے ہیں مگر نقصان کے پیش نظر والدین انہیں متبادل کھلونوں سے بہلاتے ہیں۔ مستقبل کے معماروں کے ہاتھوں میں موجود یہ کھلونے معاشرے کے تربیتی اداروں کی زوال پذیری کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ ماردھاڑ سے بھرپور فلموں اور ویڈیو گیمز نے بچوں کی نفسیات کو اتنا متاثر کیا ہے کہ وہ اب صرف ہتھیار نما کھلونوں سے کھیلنے کی ضد کرتے ہیں اور اپنے پسندیدہ فلمی ہیرو کی طرح کسی کو مارنے اور مرنے کے انداز اپناتے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ہتھیاروں سے لیس افراد کی تصاویر بچوں میں اسلحے سے رغبت کا ایک اور سبب ہیں۔ امجد اسلام امجد نے ایک نظم میں کہا ہے۔
یہ دنیا ایسی منڈی ہے
بلا قیمت جہاں انسان بیچے جا تو سکتے ہیں
کھلونوں کا مگر سودا خسارے میں نہیں ہوتا
زمانے بھر کے بچوں کا یہ مشترکہ وتیرہ ہے
کھلونے جب ملیں انکو تو وہ خوش ہو کے ہنستے ہیں
مگر جب ان کھلونوں سے بھری اونچی دکانوں سے
پلٹتے پھول سے بچے ، تہی دامان آتے ہیں
نم آنکھوں میں ، بھرے آنسو، بہ صد مشکل چھپاتے ہیں
تو لگتا ہے
کہ بچے اب نہیں ہنستے
کھلونے ان پہ ہنستے ہیں۔ کھلونے مہنگے اور سستے کا زمانہ اب گذر گیا، چین کی کھلونا ساز فیکٹریوں نے اب ہر قیمت کے کھلونے بنا کر ڈھیر کر دیئے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی فلیمیں ہیں۔ جس سے متاثر ہوکر شہر کے بچوں نے بھی کھلونا ہتھیار اٹھالیے ہیں، آتشیں اسلحے کی ہوبہونقل پسٹل، شاٹ گن، پمپ گن اور جدید رائفلوں کی بڑی کھیپ اب ہر تہوار پر فروخت کے لیے کراچی پہنچ جاتی ہے۔

شہر کے گنجان آبادی اور کم آمدن والے علاقوں میں کھلونا ہتھیاروں کی فروخت عروج پر پہنچ چکی ہے، تاجروں نے چین سے کھلونا بندوقوں کے درجنوں کنٹینرز درآمد کیے گئے ہیں جو شہر میں کھلونے کے دکانوں کے علاوہ عارضی اسٹالز اور پتھاروں پر فروخت کی جارہی ہیں، شہر کے گنجان آبادی والے علاقوں اورنگی، لانڈھی، ملیر، کورنگی، لیاقت آباد، لائنز ایریا، اولڈ سٹی ایریا، بلدیہ ٹاﺅن سمیت مختلف علاقوں میں کھلونا بندوقوں کی بھرمار ہے۔ بچے پلاسٹک کے چھروں کو ان کھلونا بندوقوں کے میگزین میں بھر کر اصلی اسلحے کی طرح لوڈ کرکے دوسرے بچوں پر فائر کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ شرارتی کھیل سنگین نقصان کا سبب بھی بنتا ہے اور آنکھ یا جسم کے کسی دوسرے نازک حصے میں لگنے والے چھرے گہرے زخم ساری عمر کا روگ بن جاتے ہیں۔ کھلونوں کی زیادہ تر فروخت تہواروں پر ہوتی ہے اور بچے اپنی جیب خرچی سے یہ کھلونے خرید تے ہیں۔ گذشتہ چند سال سے شہر میں کھلونا بندوقوں کی فروخت کا رجحان بڑھ رہا ہے، ساتھ ہی ہر سال نت نئے ڈیزائن اور نمونوں کی کھلونا بندوقیں مارکیٹ میں لائی جارہی ہیں، زیادہ تر کھلونا بندوقیں چین سے درآمد کی جاتی ہیں جن کی قیمت 50روپے سے 1200روپے تک ہے، چھوٹے سائز کے پسٹل 70سے 200روپے، شاٹ گن اور پمپ گن کی نقل250سے500روپے جبکہ خودکار رائفلوں کی نقل 600سے 1200روپے میں فروخت کی جارہی ہیں، بچوں میں کھلونا بندوقوں کے بڑھتے ہوئے شوق پر سنجیدہ حلقوں میں تنقید کی جاتی ہے لیکن اس کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت سے دوستی اور ہر طرح کی بھارتی فلموں کی ملک میں آزادانہ نمائش اور انڈرورلڈ اور غنڈہ گردی کے موضوعات پر بنائی جانے والی بھارتی فلموں میں آتشیں اسلحے کی بے دریغ نمائش سے پاکستانی معاشرے پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، بے روزگار نوجوان راتوں رات امیر بننے اور طاقت کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کے لیے بھارتی فلموں جیسے ہی انداز اختیار کررہے ہیں جس سے معاشرے میں محنت کرکے اپنا مقام بنانے کے بجائے جرائم کی راہ اختیار کرکے پیسہ کمانے کا منفی رجحان فروغ پارہا ہے۔

اس رجحان کی ایک جھلک کراچی شہر کی گلیوں میں کھیلنے والے بچوں کے مشاغل سے بھی ملتی ہے، اسلحے سے اپنے حریفوں کو زیر کرنے کا یہ کھیل بچوں کی شخصیت کا حصہ بننے کی صورت میں معاشرے سے برداشت اور تحمل ختم کردے گا جس کی روک تھام کے لیے والدین کو اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔

چائنا کے پلاسٹک کے کھلونا نما جدید ہتھیار بچوں کے ذہنوں میں تخریب کاری کے عناصر پیدا کر رہے ہیں۔ بہت سے والدین نے حکومتسے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے دوسری طرف ایسے کھلونوں سے ننھے معصوم پھولوں کے ذہنوں کو تخریب کاری کی جانب مائل کیا جارہا ہے۔ اسپر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ زندہ قومیں ہمیشہ اپنی حیات کی بقا کے لیے پیش بندی کرتی ہیں تاکہ ان کا مستقبل تابناک ہو اور ترقی و کامرانی کی راہیں ان کا استقبال کرسکیں۔ لیکن ہم اس شعور سے محروم ہیں۔ کراچی میں اسلحے کی پابندی سے پہلے ہم افریقی ملک پیرو کی تقلید تو کر سکتے ہیں، جہاں بچّوں اور ان کے کھلونا نما ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے باقاعدہ مہم چلائی گئی ۔ اسکولوں میں بچوں کو ان کھلونوں سے دور رہنے کی تلقین کی گئی۔ کھلونا اسلحے کے خلاف مہم کے دوران اسکول کے بچوں کواپنی نقلی بندوقیں ڈبّے میں ڈال پر بدلے میں انھیں دیگر کھلونے دیئے گئے۔ لیکن امریکہ اس کو رجحان کو فروغ دے رہا ہے۔ امریکی ریاست ایری زونا میں تو ہزاروں افراد (بچّوں) نے ایک دوسرے پر پانی کی پستولیں تان کر ایک ریکارڈ بنایا ہے۔ ایری زونا کے شہر ماریکوپا میں 3 ہزار 804 افراد (بچّوں) نے کھیل ہی کھیل میں کھلونا واٹر پستولوں سے ایک دوسرے پر فائر کرکے دنیا کی سب سے بڑی واٹر پسٹل فائٹ کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔

کچھ لوگ اسے اقدار کی تیز رفتار تبدیلی بھی کہتے ہیں۔ لیکن یہ سب معاشرے میں انواع و اقسام کے اسلحے کی بے جا نمود و نمایش، معاشرے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے میں حکومتی ناکامی ہے جس کے باعث بچّے نہ صرف اے کے 47، کلاشنکوف، رپیٹر، ٹی ٹی کے ناموں سے بخوبی واقف ہیں بلکہ کھیل کے لیے والدین سے ان ہی ”ہتھیاروں“ کی فرمایش کرتے ہیں، مستقبل کے معمار معصوم بچّوں کے ہاتھوں میں کھلونا نما ایئر گن، کلاشنکوف اور پستول نظر آنا بالکل نیا رجحان ہے۔ اگرچہ پہلے بھی یہ کھلونے بازاروں میں بکتے تھے اور محدود پیمانے پر چند بچّوں کے ہاتھوں میں دیکھے جاتے تھے لیکن شدّت کے ساتھ یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ جیسے بڑے پیمانے پر بیوپاری حضرات بازاروں میں جان لیوا نہ سہی لیکن نقصان دہ کردار پر مبنی کھلونوں کا انبار لگایا جارہا ہے اور ان کی قیمت انتہائی کم رکھی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے بھی ان تک رسائی آسان ہے۔

سماج میں تشدد کے فروغ میں اسلحہ نے جو منفی اور ہولناک کردار ادا کیا ہے اس پر مغرب نے کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے انبار لگا دیے ہیں مگر ایشیائی ممالک اور خاص طور پر انڈو پاک کلچر اور فلم انڈسٹری میں تشدد اور اسلحہ کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو تشویش ناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ نوجوان نسل ہتھیاروں کے استعمال میں ایک قسم کی رومانویت میں مبتلا ہے،اسلحہ کے گلیمر نے اس کی معصومیت اور رحم دلی کے سر چشمے خشک کردیے ہیں، معاشرے میں ضد ،ہٹ دھرمی، اضطراب، اشتعال ،غصہ اور غضبناکی نے قتل وغارت گری اور ٹارگٹ کلنگ کا ایسا جنون پیدا کیا ہے کہ شہر کراچی میں انسانی جان لینا اب معمول بن چکا ہے۔ہر غربت زدہ نوجوان اس سوچ میں گم ہے کہ اس بے سمت معاشرے میں اس کے ہاتھ میں ایک گن اور کچھ مسلح ساتھی ہوں تو وہ ریمبو اور ٹرمینیٹر بن کر ہنگامہ برپا کرسکتا ہے۔

یہ سوچ معاشرے میں گینگ وار اور بھتہ خوری کے ناسور کی صورت پھیل چکی ہے اور درجنوں دہشت گرد اور تشدد پسند گروپ اور مافیائیں منی پاکستان کو تاراج کررہی ہیں۔اس لیے یہ امر باعثِ فکر ہے کہ ایسے کھلونے نہ صرف سماجی طور پر بچّوں کے معصوم ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ بچّوں کو زخمی کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ شہر کراچی کے اکثر اسپتالوں میں ایسے کیسز سامنے آئے کہ جن میں کھلونا ایئرگن اور پستول کے چھروں سے بچّوں کی آنکھیں ضایع ہوگئیں یا جسم کے دیگر حصّوں میں چوٹ لگ گئی تھی۔یہ ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے جسے مشترکہ طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں عوامی نمایندے، سماجی ادارے، حکومتی حلقے اور سب سے بڑھ کر والدین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ رائے عامہ کے نمایندے اس منفی رجحان کو آگے بڑھنے سے روکیں، شعوروآگہی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ حکومتی حلقے ایسے خطرناک کھلونے کی خرید و فروخت پر پابندی عاید کریں۔ والدین بچّوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں کہ بنیادی طور پر یہ مسئلہ والدین کی لاپروائی سے شروع ہوتا ہے جو آگے چل کر علاقائی و قومی مسئلہ بن جاتا ہے۔خیال رہے کہ بچپن زندگی کا سب سے خوبصورت حصّہ ہوتا ہے، اسی میں بچّے سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں اور اس میں کردار سازی ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے شرح خواندگی میں کمی ہونے کے باعث ہم اپنے مستقبل کے معماروں کے ذہن میں کچھ ایسی تلخ یادیں چھوڑ دیتے ہیں جو تمام عمر آسیب کی طرح انسان کا پیچھا کرتی ہیں اور اسے ایک کامیاب انسان بننے سے روکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین بچّوں کو ایک قابل اعتماد اور سلجھا ہوا بچپن دیں اور انھیں نقصانات سے بچاﺅ کے اقدامات کریں تاکہ یہی بچّے بڑے ہو کر کہہ سکیں کہ:میرے بچپن کے دن۔کتنے اچھے تھے دن معاشرے میں عدم برداشت کے باعث جنم لینے والے پرتشدد واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ میڈیا بھی اس میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ ماہرین نفسیات نے بچوں میں بڑھتے ہوئے اس رجحان کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق مختلف ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں پرتشدد واقعات کی بدولت بچوں میں کھلونا ہتھیاروں میں دلچسپی بڑھنے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے‘ جبکہ کھلونا ہتھیاروں کی مانگ میں بڑھتے ہوئے اضافے کے پیش نظر کھلونا تیار کرنے والی فیکٹریوں نے بھی اپنی پیداوار میں اضافہ کردیا ہے۔ ماہرین نفسیات بچوں کی پرتشدد واقعات پر مبنی ڈراموں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ بچے ماحول سے جلد اثر قبول کرتے ہیں اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اس قسم کی ٹی وی ڈراموں سے دور رکھیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کیلئے موثر اقدام کرے تاکہ بچوں پر پڑنے والے منفی اثرات کو زائل کیا جا سکے۔باشعور والدین اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کی سیاسی فضاءخون سے رنگین ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے شہر کا کوئی گلی محلہ ایسا نہیں جہاں قتل کا انسانیت سوز واقعہ اخبار کی شہ سرخی نہ بنا ہو۔دوسری طرف لائسنس اور غیر لائسنس یافتہ اسلحہ ساتھ رکھنے کا کلچر بھی روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔استعمار جہاں معاشرے میں سازشوں کو پنپنے کے موقعے تلاش کرتا ہے وہیںاس کی نظریں مستقبل پر بھی مرکوز ہوتی ہے۔استعمار ہماری نسل کوبے راہ رو کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔بچوں میں اسلحہ کے مشابہہ کھلونوں کی طلب میں اضافہ ،ان کے اندرغیر مرئی خونی جذبہ کو تحرک دینے کا باعث ہے۔جسے ان اسلحہ کھلونوں کے استعمال کے وقت بچوں میں مقابلے کے دوران مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔برتری کے حصول کے لئے ان اسلحہ کھلونوں سے چھرے چھوڑے جاتے ہیں۔جو کہ بچوں میں اس عادت کے رسوخ کا باعث بن رہے ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ ہمارے مستقبل کے معمار ہمارے ہاتھ سے نکل کر مغرب کے بھیانک منصوبے کا شکار ہونے جارہے ہیں،بلکہ اس سے قبل کارٹونز چینلز،فیملی پروگراموں،ویڈیو گیمز اور بعض دلچسپ مگر انتہائی خطرناک مغربی طرز فکر کے حامل منصوبے ہماری نسلوں کی ذہنی اور فکری تباہی ثابت ہوئے۔بین ٹین ، بے بلییٹ نامی کارٹونزاوران کے نام پرملنے والی اشیاءبچوں کے زبان زد عام ہیں۔جو ناپختہ اذہان پر مغربی بالادستی کا بین ثبوت ہے۔والدین کا فریضہ ہے کہ وہ اس طرح کے استعماری منصوبوں پر گہری نظر رکھیں اور ایسے کھلونوں کا بائیکاٹ کریں جوبچوں کی سرشت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت اس سلسلے میں بے بس ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں چین کے بنائے ہوئے لگ بھگ ایک ملین کھلونے دکانوں سے واپس منگوائے گئے ہیں۔ ان کھلونوں کے لئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان کے پینٹ میں ضرورت سے زیادہ لیڈ شامل ہے۔ لیڈ بچوں کی صحت کے لیے خطرناک بتایا جاتا ہے۔ٹوائے میکر فیشر پرائیس کا کہنا ہے کہ اس کی ایک تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ کھلونے بنانے والی چینی کمپنی نے رنگ کے کچھ ایسے عناصر ان کھلونوں میں شامل کیے ہیں جن کی اجازت نہیں ہے۔گزشتہ جون میں آر سی ٹو نامی کمپنی نے چین میں بنائی گئی ڈیڑھ ملین ’ٹوائے ٹرینز‘ امریکی دکانوں سے ہٹالی تھیں کیونکہ ان کے پینٹ میں بھی لیڈ پایا گیا تھا۔اب ہماری حکومت کو اس بارے میں ہوش آیا ہے۔ لیکن اس میں بھی وفاقی حکومت کی طرف سے نئی تجارتی پالیسی میں بچوں کیلیے خطرناک کھلونوں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے اور کھلونوں کی درآمد کیلیے کھلونے برآمد کرنے والے ممالک سے خطرے سے پاک کھلونوں کے سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔اس ضمن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ہدایات کی گئی ہیں کہ کھلونوں کی درآمد کو سختی سے مانیٹر کیا جائے اور ایسے کھلونے جو خطرناک ہیں ان کی درآمد کو روکا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شیر خوار بچوں کیلیے صرف وہی کھلونے ملک میں درآمد ہوسکیں جو خطرناک نہ ہوں اور اس سے بچوں کو نقصان نہ پہنچتا ہو جبکہ وزارت تجارت کے حکام کے مطابق وفاقی حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ امپورٹ پالیسی آرڈر میں ترمیم کی جائے اور نئی تجارتی پالیسی میں ترمیمی امپورٹ پالیسی آرڈر کے تحت پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے حامل کھلونے درآمد کرنے کی اجازت دی جائے اور جن ممالک کی طرف سے پاکستان کو کھلونے برآمد کیے جاتے ہیں ان ممالک کیلیے کھلونوں کے خطرے سے پاک ہونے کے سرٹیفکیٹس کو لازمی قرار دیا جائے۔ لیکن اس سے اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ آیا حکومت نے کھلونا نما ہتھیاروں پر بھی کوئی پابندی لگائی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں ہمارے حکمرانوں کو ضرور سوچنا ہوگا-
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387728 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More