اگر کوئی زندگی کو نعمت نہیں
سمجھتا تو یہ اُس کی کوتاہ نظری، قدر ناشناسی اور ناشکرے پن کے سِوا کچھ
نہیں۔ لیکن صاحب! جنہیں زندگی ایسی نعمت کا خراج مرتے دم تک ادا کرنا پڑتا
ہے کچھ اُن سے بھی تو پوچھیے کہ اُن پر کیا گزرتی ہے! طرح طرح کی آسانیاں
میسر ہوں تو زندگی حلوے جیسی ہو جاتی ہے۔ مگر یہی حلوہ اُس وقت لوہے کے
چبانے کی منزل تک لے جاتا ہے جب وسائل کم اور مسائل زیادہ ہوں، قدم قدم پر
رکاوٹیں ہوں، ارادے بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہوں۔
ماڑی پور کی امینہ بی بی کا بھی کچھ ایسا ہی قصہ ہے۔ اُن کی زندگی جھاڑو
بناتے اور بیچتے گزری ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے میں کیسی اور کتنی زندگی
گزاری جاسکی ہوگی؟ امینہ بی بی کی زندگی بھی مشکلات اور پریشانیوں سے عبارت
رہی ہے۔ اُنہوں نے دس بارہ کی عمر سے اپنی چچی کے ساتھ یہ کام شروع کیا۔
جھاڑو بناکر وہ شہر کے مختلف بازاروں میں بیچا کرتی تھیں۔ شادی کے بعد بھی
یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ اللہ کی رضا تھی کہ اُن کی مشکلات کم ہونے کے بجائے
بڑھتی گئیں۔ دو بیٹے ہیں۔ ایک جسمانی طور پر اور دوسرا ذہنی طور پر معذور
ہے۔ جن کے حوصلے کمزور ہوں اُن کے فکر و عمل پر ایسے حالات بہت تیزی سے
جھاڑو پھیر دیتے ہیں۔ امینہ روزانہ ماڑی پور سے لیاقت آباد کی مارکیٹ میں
آکر جھاڑو بیچتی ہیں جو اس بات کا توانا ثبوت ہے کہ اُن کے حوصلے نے حالات
کی کوکھ سے جنم لینے والی تمام مشکلات اور مایوسی پر جھاڑ پھیر دی ہے!
ہمارے معاشرے میں جن خواتین کے جوان کماؤ پوت ہوں وہ بھی سُکون سے جی نہیں
پاتیں۔ ایسے میں امینہ بی بی کے حوصلے کو داد دیجیے کہ وہ اب تک صرف اپنے
جسم و جاں ہی کا رشتہ برقرار نہیں رکھے ہوئے بلکہ اپنی اولاد کا بوجھ بھی
سہار رہی ہیں۔
|
|
ستم یہ ہے کہ شہر کے ایک سِرے سے دوسرے سِرے پر آکر رزق کے حصول کی کوشش
کرنے والی امینہ بی بی کو ”سودے بازی“ کی منزل سے بھی گزرنا پڑتا ہے! دیکھا
گیا ہے عیدین یا شادی کے موقع پر صرف کپڑوں کی مد میں ہزاروں روپے اڑا دینے
والی خواتین بیس پچیس روپے کی جھاڑو خریدنے کے معاملے ایسی سودے بازی کر
رہی ہوتی ہیں جیسے مذاکرات کی میز پر پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات
طے کئے جارہے ہوں! امینہ بی بی کا کہنا ہے کہ وہ کھجور کے پتوں اور چھال سے
جو جھاڑو بناتی ہیں وہ پچیس روپے میں فروخت ہو جائے تو معقول منافع ملتا ہے۔
خریدار آتی ہیں اور اُن سے دام گرانے کی فرمائش کرتی ہیں۔ پچیس والی چیز
کبھی پندرہ اور کبھی دس روپے میں بھی دینی پڑتی ہے! امینہ بی بی بھی کیا
کریں؟ کسی نہ کسی طور گھر کے لیے بھی کچھ لیکر جانا ہے۔ غریب کا بنیادی
مسئلہ یہ ہے کہ وہ آج کا کام اور آج کی کمائی کل پر نہیں ٹال سکتا۔ امینہ
بی بی کو بھی ”سودے بازی“ کی بازی ہرانی پڑتی ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی
جو مل گیا اُسی کو مقدر سمجھ لیا
جو چھن گیا میں اُس کو بھلاتا چلا گیا!
جنہیں اللہ نے نوازا ہے وہ روزانہ ایسی خریداری بھی کرتے ہیں جس میں صرف
خسارہ ہوتا ہے اور دولت کے اِس ضیاع کا اُنہیں کچھ خاص رنج بھی نہیں ہوتا۔
ایسے میں اگر امینہ بی بی جیسے لوگوں کو ہم چند روپے زیادہ دے دیں تو کیا
ہے؟ جھاڑو جیسی چیز ویسے بھی اِس قابل تو نہیں کہ اُسے خریدنے کے لیے سودے
بازی کی جائے۔ کیا یہی بہت نہیں کہ امینہ بی بی کسی کے آگے ہاتھ نہیں
پھیلاتیں بلکہ محنت کرکے کھاتی اور کھلاتی ہیں؟ امینہ بی بی عمر کی چھ
دہائیاں مکمل کرچکی ہیں۔ جھاڑو بناتے بناتے اب اُن کی آنکھوں میں موتیا
اُتر آیا ہے۔ وہ کسی سے کچھ مانگتی تو نہیں مگر ہاں اِس قدر التماس ضرور ہے
کہ کوئی موتیے کا آپریشن کرادے۔
ہم زندگی بھر طرح طرح کی خریداریوں میں بہت کچھ لٹاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو
کہ ہم اپنے ماحول میں غریبوں کو تلاش کریں اور ذرا سے زیادہ یا اُنہی کے
بتائے نرخ پر مال خرید لیں۔ ہاتھ پھیلانے سے گریز کرنے والوں کی حوصلہ
افزائی ہم سب پر فرض ہے۔ جو لوگ محنت کرنے والوں پر بھیک مانگنے والوں کو
ترجیح دیتے ہیں وہ در پردہ معاشرے کی بنیادی اقدار پر جھاڑو پھیر رہے ہوتے
ہیں۔ محنت کرنے والے غریبوں کو زندگی کی دوڑ میں حصہ لینے کے قابل بنانے
میں ہمیں اپنا کردار پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ اگر کوئی
زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے تو یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ا ±سے زندہ
رہنے کا حق ہی حاصل نہیں۔ جن کے حصے میں آسانیاں آئی ہیں اُنہیں دوسروں کی
مشکلات دور کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ یہ زندگی اور انسانیت کا ایک بنیادی
تقاضا ہے۔
(فوٹو گرافی : سید رضوان علی) |