بچھڑنے والا ساتھی خواہ
مختصرگھڑی کاہویاپوری صدی کا، اچانک ساتھ چھوڑنے پر دل خون کے آنسو روتاہے،
موت کی خبر پر یقین نہیں آتا، طرح طرح کے سوالات کرکے خبر کوغلط فہمی پر
محمول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خداہوتاہے ،دنیا
میں ہر آنے والا اپنے ساتھ جانے کاوقت بھی تقدیرکاتب سے لکھواکر لاتا
ہے۔لیکن کچھ جانے والے اس انداز سے جاتے ہیں کہ ان کی ہر ادا دلربا ہوتی ہے،
جانے پر ہر آنکھ اشک بار ہوتی ہے، زندگی بھی قابل رشک اور موت بھی ۔
صبح فجر کی نماز سے قبل مولانا انعام الرحمن حجازی کامیسج آیاـ’’میرے والد
محترم انتقال کرگئے‘‘۔ذہن میں ان کانورانی چہرہ گھومنے لگا، ان کی محبت
بھری باتیں ،مسکراتی آنکھیں یاد آنے لگیں۔ یقین کرنے کو جی نہیں چاہ
رہاتھاکہ وہ اچانک داغ مفارقت دے جائیں گے۔
مولانا بحرالنعم حجازی نے ابتدائی کتب دارالعلوم دیوبند میں پڑھیں، مجبوری
کی بناپر بادل نخواستہ تکمیل پاکستان آکر کی۔ گزشتہ پچیس سال سے مسجد اﷲ
والی بڑا بورڈ کراچی میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ مسجد کی
تنخواہ کو کبھی وسیلۂ روزگار نہیں بنایا، اپنا احتیاج کسی پر ظاہر ہونے
نہیں دیتے، ہمیشہ اپنا کام خود کرتے،آخری وقت ضعف بڑھنے کے باوجود بغیر
سہارے آمدورفت رہتی، نماز باجماعت مسجد میں پڑھنے کو ترجیح دیتے۔ کوئی
سہارا دینے کی ، گلاس یا پیالا منہ تک لیجانے کی کوشش کرتا وہ منع کردیتے۔
رب نے بھی ان خودداری کی لاج رکھی، آخری وقت تک کسی کے محتاج نہ ہوئے، ایک
نماز تک نہ فوت ہوئی بلکہ تہجد کی نیت سے شب کے آخری پہر اٹھے جب رب کی
رحمت آسمان دنیا پراتر آئی تھی اور وہ اسی بابرکت ساعات میں رحمت سے فیضیاب
ہونے اس کے جلو میں چلے گئے۔ وہ غریبوں کی مالی معاونت کرتے تھے۔ مدارس میں
کئی طلبہ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس کپڑے دھونے کے لیے صابن کے پیسے تک نہیں
ہوتے۔ ایسے طلبہ کی وہ خبر گیری کیاکرتے، ان کی پریشانی دورکرتے۔ یتیموں کے
سر پر دست شفقت رکھ کر انہیں اپنے بیٹوں کی طرح پالتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی
وفات پر اسی قسم کے لوگ سب سے زیادہ غمگین نظر آئے جن کی انہوں نے مدد کی۔
ایک مرتبہ اپنے گاؤں کالاڈھاکہ کے علاقے ’’زیزاری‘‘گئے ۔ وہاں بھی اپنی
زندگی کامقصد دین کی سرفرازی کوجاری رکھا۔ جہاں بھی جاتے اتّباع سنت کی
تبلیغ اور بدعات سے بچنے کی ترغیب دیتے ۔ اپنے نظام الاوقات کی پابندی وہاں
بھی ترک نہیں کی۔ ان کی بزرگی، ﷲیت اور نورانی چہرے کو دیکھتے ہوئے گاؤں کے
پٹھانوں نے اپنے انداز میں انہیں’’فرشتہ مولی صیب‘‘کے لقب سے نوازا، یوں وہ
گاؤں اسے نام سے پہچانے جانے لگیں۔ انہوں نے پٹھان ہونے کے باوجود شادیپختہ
عمر میں کی۔ ان کے صاحبزادے مولاناانعام الرحمن حجازی نے اپنا واقعہ
سنایا’’والد محترم نے حفظ قرآن کے لیے مدرسہ میں داخل کروایا، طلبہ کے
والدین اپنے بچوں سے ملنے مدرسہ آتے، سب کے والدین کی داڑھیاں کالی ہوتیں
جبکہ میرے والد کی سفید۔میں یہ سوچ کر غمزدہ ہوجاتا کہ معلوم نہیں میری حفظ
قرآن کی تکمیل کے وقت والدصاحب زندہ بھی ہوں گے یانہیں۔ ایک دن اسی غم نے
مجھ پر بسیرا کیا ہواتھا، ایک کونے میں ناراض بیٹھاتھاکہ اتنے میں استاذ
محترم تشریف لائے، ان کی نظر مجھ پرپڑی تو اداسی کا سبب دریافت کیا، میں نے
روتے ہوئے جب وجہ بتائی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا انعام بیٹا!یہ آپ کو
کس نے بتایاکہ موت کا تعلّق عمر سے جڑاہے،کیا آپ نے کبھی نہیں سنایانومولود
دنیا میں آتے ہی ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرکے چلاجاتاہے، تندرست وتوانا
نوجوان اچانک راہی ملک بقاہوجاتاہے۔آپ دیکھیں گے ضرور آپ کے والد آپ کی
دستار بندی کے وقت موجود ہوں گے۔ استاذ محترم کی باتوں میں نہ جانے کیا
تاثیر تھی مجھے یقین ساہوگیااب میرے والد درمیان میں چھوڑ کر نہیں جائیں گے
اور میں نے اداس رہنابھی چھوڑدیا۔ آج الحمدﷲ درس نظامی کی تکمیل
کرچکاہوں،ایک مدرسہ کی تمام ذمہ داریاں میرے ناتواں کاندھوں پر ہیں۔ میرا
بیٹاحفظ قرآن کے بعد درس نظامی کے آخری مراحل میں ہیں، بھانجے حافظ قرآن
اور عالم دین بن کر اعلائے کلمۃ اﷲ کافریضہ انجام دے رہے ہیں،بلکہ اب تو ان
کی اولاد یعنی والد مرحوم کی تیسری نسل بھی حفّاظ قرآن بن رہی ہیں جو رہتی
دنیا تک ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگا۔
ان کی وفات والے دن حکومتی سطح پر حضرت حسینؓ کاچہلم منایاجارہاتھا، عام
تعطیل تھی، موبائل نیٹ ورک اور سی این جی بند تھی۔ اس سب کے باوجودان کے
جنازے میں ایک جم غفیر تھا، جنازے کو کندھا دینے کاموقع نہیں مل رہاتھا،
آخری آرام گاہ کی طرف گاڑیوں کاقافلہ روانہ دکھائی دے رہاتھا ۔ جامعۃ
العلوم الاسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کے استاذالحدیث مولانا محمد زیب نے ان
کی وفات کے موقع پرتعزیت پر آنے والے حضرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاہم ایک
سرپرست سے محروم ہوگئے، جب بھی کوئی مشکل یا پریشانی آن پڑتی رب ذوالجلال
کے بعد حضرت کی ذات کی طرف ہی نگاہ متوجہ ہوتی، ان کے مشورے اور دعائیہ
کلمات ٹھارس بندھاتے۔مولانا بحرالنعم حجازی کی وصیت کے مطابق ان کی نماز
جنازہ معروف روحانی شخصیت مولاناشمس الرحمن عباسی نے پڑھائی۔حجازی رحمۃ اﷲ
امر ہوگئے لیکن پیچھے رہنے والوں کے لیے جینے کا قرینہ، آخری وقت کی تیاری
اور اپنے نصیحت آموز زندگی مشعل راہ کے طور پر چھوڑ گئے۔ |