عالم ہے فقط مومن ِ جانباز کی
میراث
مومن نہیں جو صاحب ِ لولاک نہیں
نبی کریم ﷺ کے وصال مبارک کے بعد سلسلہ نبوت تو ختم ہوا لیکن راہ گم کردہ
انسانیت کو سلامتی کی راہ دکھانے کےلیے اس عالم فنا میں اللہ کے برگزیدہ
بندوں کی آمد کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا اور قیامت تک جاری رہے گا۔14 اگست
1947 بمطابق 27 رمضان المبارک 1366 ھ بروز جمعتہ المبارک گلوب پر تاریخ کی
دوسری اسلامی نظریاتی مملکت اُبھری اور اُسی دِن حضرت سلطان باہوؒ کی نویں
پُشت میں ایک روح مُقدّسہ کا ظہور ہوا جنہیں دنیا سلطان الفقر حضرت سلطان
محمد اصغر علیؒ کے نام سے جانتی ہے۔آپ کو آپ کے والد و مرشد حضرت سلطان
محمد عبدالعزیز صاحب ؒ نے تعلیماتِ فقر اور باطنی رموز کی تعلیم کے لیے
اپنے ساتھ رکھا۔آپ جہاں بھی تشریف لے جاتے سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ کو
ساتھ اپنا ہم سفر رکھتے خصوصََاتبلیغ کےلیے کیے گئے ہر سفر کے آپؒ ساتھی
رہے۔حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کا بچپن اور جوانی پاکیزگی میں اپنی مثال آپ
تھی۔آپ خوبصورت ،تندرست وتوانا،خوش اخلاق اورمنزہ سیرت کے مالک تھے ۔ابتدائی
عمر میں بھی آپ کی فہم و فراست لاجواب تھی ۔والد گرامی و مرشد(ولی اکمل) کی
صحبت میں رہ کرآپ ذکر وتفکر میں محو ہوتے گئے ۔بطور طالبِ مولا اپنے مرشدکی
خدمت شروع کر دی اور بحیثیت خادم چوبیس گھنٹے خدمت کے لیے مستعد رہے۔پھر
اپنے مرشد کے لنگر خانہ میں بھی خدمات انجام دیں۔مرشد کی محبت اور رضا
کاجذبہ اس قدر موجزن تھاکی انتہائی نازک مزاجی اور شگفتہ طبیعت کے باوجود
مشکل اور محنت طلب کاموں کو خوش دلی سے کرتے اور خوشی کا اظہار
فرماتے۔مثالََا پیر سید بہادر علی شاہ صاحب ؒ جو کہ حضرت سلطان باہوؒ کے
محبوب خلیفہ تھے کا مزار مبارک اور مسجد پتھر کے بلاک سے تیار کی گئی جو آپ
کے مرشد نے تعمیر کروائی آپ اس کا کام بنفس نفیس کرتے رہے نہ صرف اس وقت
بلکہ آخر تک وہی محبت و جذبہ موجود رہا۔آپ نے اپنے والد محترم مرشداکمل کا
مزار مبارک کا کمرہ اور مسجد پتھر کے بلاکوں سے تیار کروائی اور اس کی
تعمیر میں بھی آپ نے عملی حصہ لیا۔بچپن سے ہی آپ کا رجحان مذہب ،روحانیت ،بزرگوں
کی خدمات،مرشد کی خدمت،رضا الٰہی،ذکر وتصور اسم اللہ ذات اور معرفت و حقیقت
کی تعلیمات کی طرف رہاہے۔آپ کا معاشرتی و سماجی کردار انتہائی سنجیدہ ،بامقصد
اور باوقار رہا ہے۔آپ نے مرشد ِ اکمل کے زیر ِفرمان کاشت کاری و ٹھیکے داری
بھی کی۔اسرارورموز باطنیہ،علوم روحانی اور وارداتِ غیبی کے حصول کے لیے
کامل یکسوئی کے ساتھ راہِ طریقت پر گامزن ہو گئے۔1979ءمیں شہبازِ عارفاں
سلطان الاولیاءحضرت سخی سلطان عبد العزیز صاحب ؒ نے اپنے بیٹوں حضرت سلطان
محمد صفدر علی صاحبؒ اورحضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒ کو بیعت
فرمایااور خلافت عطا فرمائی لیکن اپنے بیٹے سلطان محمد اصغر علیؒ کے متعلق
اس شناسائے حقیقت نے فرمایا :
میرا یہ بیٹا فقر کو جس طریقہ سے سنبھالے گا ایسا قیامت تک کوئی نہیں
سنبھال سکے گا۔
آپ ؒ ہر وقت دینی و روحانی خدمات کے جذبہ سے سرشار رہے اور ہمہ وقت اولیائے
کاملین اور عارفین کی تعلیمات کے مطالعہ میں رہنا اور اسی ذکر وفکر میں وقت
گزارنا آپ کا معمول اور شغل رہا ہے۔آپ نے قرآن و حدیث سے اصلاح قلب وباطن ،تجلیہ
روح و تزکیہ نفس کے متعلق آیات و احادیث اور سلطان العارفین سلطان باہوؒ کے
اقوال و تعلیمات کو اس قدر جمع کیا کہ گھنٹوں تک آپ اصلاح قلب اور اسرارِ
رموزباطنیہ پر گفتگو فرماتے۔آپ کے باطنی مقامات اور گواہر بار تعلیمات کے
اثر سے لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے۔رفتہ رفتہ ان مریدین و عقیدت مندوں کا
ہجوم بڑھتا گیا۔آپ نے روایتی طریقہ ارشاد سے ہٹ کر اُس اصل طریقہ ارشاد کو
اپنایا جو تمام انبیاءکرام بالخصوص امام الانبیا حضرت محمد ﷺ اور آپ کے
خلفائے راشدین نے اپنایاتھایعنی دین کو صرف ایک نظام ِ فکر ہی نہیں بلکہ
ایک ضابطہ حیات کے طور پر انسانیت کے سامنے پیش کیا اور نفاذِ دین کے لیے
قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں ۔ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر
علیؒ نے سنت نبوی میں اپنی زندگی کا چالیس سالہ دورانیہ علم و عرفان کے
روحانی تجربہ کے حصول کے لیے وقف کیا۔پھر اپنے علو مرتبت تجربہ کو معاشرتی
سطح پر تخلیقی عمل میں ڈھالنے اور تعلیماتِ اولیاءکو قرآن و حدیث کی روشنی
میں عام کرنے کےلیے آپ نے 1986ءمیں ایک انجمن کی بنیا رکھ کر رجسٹریشن
کرائی۔یہ انجمن غیر سیاسی ،فرقہ وارانہ اور شرانگیزی سے پاک انتہائی پاکیزہ
اور اولیائے کاملین کے پاکیزہ مشن کی بنیادوں پر " انجمن غوثیہ عزیزیہ حضرت
حق باہو سلطان پاکستان وعالم اسلام " کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی۔آپ چاہتے تو
روایتی خانقاہی نظام کو جاری رکھ سکتے تھے ۔لیکن آپ کے اس روحانی تجربہ کی
نوعیت انفرادی نہیں تھی کہ آپ صرف خود کو ہی روحانی لذات میں گم رکھتے
اورنوع ِانسان کو اس سے مستفید نہ کرتے۔سلسلہ سروریہ قادریہ کی امامت و
خلافت کے منصب پر فائز ہوتے ہی آپ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ علماءصرف ظاہر
پر توجہ دے رہے ہیں جبکہ اسلام کی عبادات روح سے خالی ہو چکی ہیں یعنی بندے
اللہ کے ذکر میں مشغول بھی ہیں اور پریشان و غیر مطمئن بھی حالانکہ فرمانِ
حق تعالیٰ ہے:دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہو تا ہے۔ ( القرآن)
اسلام کی حقیقی تعلیمات فرقہ پرستی کے اندھیروں میں گم ہوتی جا رہی
ہیں۔لہٰذا ایک جماعت ہو جو ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن میں بھی لوگوں کی تربیت
کرے یعنی وہ جماعت اللہ تعالیٰ کے اس آفاقی حکم کے تحت کام کرے۔
ترجمہ": اور تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف
متوجہ کرے انہیں معرفت حق تعالیٰ کی تلقین کرے اور انہیں برائی سے روکے اور
ایسے لوگ فلاح پائیں گے۔" انجمن کی رجسٹریشن کے بعدآپ نے چند آدمیوں کو
اپنی صحبت میں رکھ کر ان کی ظاہری و باطنی تربیت شروع کر دی۔سلطان الفقر
ششم نے 1987ءمیں شہباز عارفاں حضرت سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ ؒ کے
مزار پر انوار پر تجدید ِ احیائے دین کے لیے جن افراد کو منتخب فرمایا ان
کی تعداد صرف ۹ تھی اور ۹ راتوں میں ان کی تربیت فرمائی اور بظاہر چند
افراد پر مشتمل تحریک کانام اصلاحی جماعت رکھا۔تین جماعتیں دعوت و تبلیغ و
اصلاح کے لیے روانہ فرمائیں۔تصور اسم اللہ ذات،تزکیہ نفس،اصلاح و باطن اور
مقصد حیات کا حصول یعنی معرفت حق تعالیٰ و قرب و حضوری کی دعوت ان کی تبلیغ
کا خالص حصہ تھا۔آپ نے اصلاحی جماعت کے مبلغ کو صدر سے موسوم فرمایایعنی جس
کا سینہ رموز معرفت سے بھر دیا گیا ہو۔دعوت الی اللہ خالصتََا انبیاءکرام ؑ
کا فریضہ تھااس لیے انبیاءکرامؑ فطرتََا معرفت حق تعالیٰ میں حق الیقین کے
مرتبہ پر فائز تھے اور وہ طمع،لالچ،حسد،بغض،کینہ،تکبر،غرور،غصہ ،شہوت،حرص و
ہوس،حب دنیااور خیانت جیسے خصائل رذیلہ سے پاک و منزہ تھے۔وہ منجانب اللہ
ہر دو علوم ظاہری و باطنی کے حامل تھے اور لوگوں کی اصلاح و تربیت تعلیم
اور تلقین سے کرتے تھے۔ان پاکیزہ اور طیب لوگوں کے دل ہر وقت اور ہر دم ذکر
اللہ اور تصور اسم اللہ ذات سے زندہ تھے اور زندہ دلوں کو زندہ کرنے والے
اور زندگی بخشنے والے تھے۔جب تک دل زندہ نہ ہو جائے انسان نفس امارہ کی قید
میں رہتا ہے اور عبادت و ریاضت کے باوجود انسان اللہ کی معرفت سے محروم
رہتا ہے۔دل کی زندگی کا دارومدار دائمی ذکر اللہ پر ہے۔ان پاکیزہ نفوس کے
اجتماع کو آپ ؒ نے اصلاحی جماعت کا نام دیاجو آج تک لاکھوں فرزندانِ توحید
کو اولیائے کرام کی تعلیمات سے روشناس اور ان کے قلوب کو تصور اسم اللہ ذات
سے منور کر چکی ہے اور کر رہی ہے۔وقت گرزنے کے ساتھ آپ نے جب جماعتی
بنیادوں پر ملتِ اسلامیہ کا جائزہ لیاتو آپ نے محسوس کیاکہ مسلمانوں کی
حالت دنیا بھر میں دگر گوں ہے عالمی طاقتیں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل
رہی ہیں ۔آپ نے اپنی جماعتی شوریٰ سے مشورہ طلب کیااور اصلاحی جماعت کی
بنیاد رکھنے کے تقریبََاتیرہ سال بعد یعنی چودھویں سال 1999ءکے اواخر میں
ایک نئی جماعت عالمی تنظیم العارفین کے نام سے قائم کی جس کا مقصد دنیا میں
پستے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی آواز اآٹھانا ہے اور سعی پہیم کر کے
مسلماناںِ عالم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔سلسلہ نبوت بند ہو جانے کے
بعد رشد و ہدایت اور ذکرو فکر کی تعلیمات اولیائے کرام کے سپرد کر دی گئیں
جو اپنے اپنے دور میں کُشتگانِ خنجر تسلیم و رضاکی راہنمائی فرماتے رہے مگر
سلطان العارفین حضرت سلطان باھو ؒ وہ واحد ہستی ہیں جنہوں نے بِلا امتیاز
مسلم یا غیر مسلم ،بانصیب یا بے نصیب ،مردہ یا زندہ سب کو ایک نگاہ سے منزل
مقصود پر پہنچا دیا۔اپ دورِ حاضر میں خانوادہ سلطان العارفین حضرت سخی
سلطان محمد اصغر علی ؒ نے تلقین وارشاد کی دینا میں انقلاب برپاکر دیا جو
آپ کے سامنے آیااُس کی دنیا بدل دی،جس نے ہاتھ ملایا اُسے اسم اللہ ذات
تھما دیا ،جس نے نظریں ملائیں اُس کے قلب پر اسم اعظم نقش کر دیااور اس
کارِ عظیم کو جاری وساری رکھنے کے لیے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین
کا قیام عمل میں لایاتاکہ یہ سلسلہ رکنے نہ پائے۔تمام غیر انسانی ،غیر
اخلاقی اور بے امن و بدامن سرگرمیوں کی روک تھام اور انسانیت کے اشرف
المخلوقات ہونے کے منصب ِ اعلیٰ کے شرف کو قائم رکھنے کے لیے آج بہت سے
خطوں میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظینم العارفین اپنی خدمات پیش کر رہی
ہے۔نگاہِ سلطان الفقر کے فیض سے جماعت کے کارکنان و مبلغین آج نہ صرف
پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں انسانیت پر ڈھائے جانے والے جاگیرانہ
،سرمایہ دارانہ ،اشتراکانہ و استعمارانہ مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہے
ہیں ۔حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ کی تحریک کامقصد بھی اللہ کی زمین پر اللہ
کا دین نافذ کرنا ہے ۔جس کے لیے آپ نے مریدین کو روایتی مرید کی بجائے ایک
تحریکی کارکن بنایا ہے۔یہ جماعت علامہ کی اس فکر " نکل کر خانقاہوں سے ادا
کر رسم ِ شبیریؓ"کو لے چلی ہے۔ایمان باللہ کے قیام کے لیے آپ نے تصور اسم
اللہ ذات کا نقش عطا فرما کر خود شناسی اور خداشناسی کا درس دیاجس سے تسخیر
ِ ذات اور تسخیر کائنات کا حصول ممکن ہے۔آج تمام خانقاہوں میں حضرت سلطان
باھوؒ کی خانقاہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ کے مسند نشینا ن مریدین کی
خوشامدیںسننے کی بجائے میدانِ عمل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور دنیا
کے کئی خطوں میں نوجوانوں کی فکری تربیت میں مگن ہیں۔
حجتہ الاسلام امام محمد غزالی ؒ انہی ہستیوں کے متعلق فرماتے ہیں:
"میں نے یقین کے ساتھ جان لیا اللہ تعالیٰ کی راہ میں چلنے والے صرف اور
صرف صوفیاءہیں ان کی سیرت تمام سیرتوں سے خوبصورت ہے ان کا راستہ تمام
راستوں سے بہتر ہے،ان کا اخلاق سب اخلاقوں سے اعلیٰ ہے ا ور حکمت والوں کی
تمام حکمتیں اور عقل والوں کی تمام دانائیاں جمع کر لی جائیں اور یہ خیال
کر لیا جائے کہ ان سب کو جمع کر کے صوفیاءسے بہتر شے پیدا کر لی جائے گی یا
معمولی سا جزو بشر پیدا کر لیا جائے گا تو ناممکن ہے اس لیے کہ ان صوفیا
ءکے سینوں کا تعلق سینہ مصطفےٰ ﷺ سے ہوتا ہے اس سے وہ روشنی پھوٹتی ہے جو
ہر طرف اُجالا کر تی ہے اس کا انعکاس سینہ با سینہ ہو نے لگتا
ہے۔"(المنعقدمن الضلال)
آپ کی زندگی مبارک کا اکثر حصہ سفر کی حالت میں گزرا مقصود فقط یہ تھا کہ
مخلوق ِ خدا کا فائدہ ہو اآنہیں معرفت االہٰی اور تصور اسم اللہ ذات نصیب
ہو۔جو بھی جس غرض سے حاضر ِ خدمت ہوتا تواُسے آپ ؒ تصور اسم اللہ ذات عطا
کرتے ،شب و روز اسی دعوت و تلقین کو حرز ِجاں سمجھا تو اس سعی مسلسل کا ما
حصل یہ ہو ا کہ 41 سال کے مختصر عرصہ میں لاکھوں فرزندانِ اسلام کے سنیے
تصور اسم اللہ ذات اور معرفت الٰہی کے نور سے منور ہوئے۔جب ہم آپ کی حیاتِ
طیبہ کا جائزہ لیتے ہیں تو کوئی پہلو بھی احیائے سنت سے خالی نہیں نظر
آتا۔حتٰی کہ حضور الصلوٰة والسلام کی سنتِ مطہرہ کے عین مطابق اپنے وصال سے
قبل اپنا جانشین اپنے بڑے صاحبزادے حضرت سلطان محمد علی صاحب کو منتخب
فرمایا اور امانت ِ فقر عطا فرمائی۔اس تحریک اور تجدید احیائے دین کی تمام
تر ذمہ داریاں بھی آپ کے سپرد فرمائیں۔26 دسمبر 2003 ءکو علی الصبح سلطان
الفقر کا یہ مقدس نور کسی اور روپ میں منتقل ہوتے ہوئے اس جہاں سے روپوش ہو
گیا۔آپ کا مزار مبارک حضرت سلطان باہوؒ کے دربار ضلع جھنگ میں ہے۔ سلطان
الفقر ششم کے وصال کے بعد بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ شکوک و شبہات ظاہر
کیے گئے کہ شائد اب یہ نظام پہلے کی طرح آگے نہ بڑھ سکے مگر سلطان الفقر کے
جانشین صاحبزادہ حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب نے جس کم عمری میں اس قافلے
کی قیادت کی اور جس طرح یہ مشن آگے بڑھایا وہ قابل تحسین ہے ا ور زمانہ یہ
ماننے پر مجبور ہوا کہ اس مشن میں کسی بھی پہلو سے جمود نہیں ملتا اور ہر
آنے والے دور میں حالات کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسان کو انسانیت کی
پہچان کرانے کے لیے کو ئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی۔نگاةِ فقر نے جماعت کے
اراکین کو ایک اجتماعی سو چ سے نوازااور آج یہ جماعت فرد کے روحانی استخلاص
سے لے کر کائنات کی روحانی تعبیر تک ہر شعبے میں کام کر رہی ہے۔تمام مکاتب
فکر کے لوگوں کو فرقہ واریت سے چھڑا کر لا اِلہ الا اللہ کے جھنڈے تلے جمع
کرنے کا کام پورے خلوص اور جذبے سے جاری ہے۔جماعت کے مرکزی سیکریٹری جنرل ،
ماھنامہ مراة العارفین کے چیف ایڈیٹراورمسلم انسٹیٹیوٹ آرگنائزیشن کے
چیرمین صاحبزادہ سلطا ن احمد علی صاحب کی دن رات محنت اور لگن سے نوجواناںِ
ملت روحانی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور یہ عالمگیر پیغام دنیا کے کو نے کو
نے تک پہنچ رہا ہے۔آج پورے پاکستان میں ضلعی سطح پر جماعت کے دفاتر قائم
ہیں جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں صوفیاءکرام کی تعلیمات پر مبنی درس ہوتا
ہے۔ہر سال جماعت کے زیر اہتمام ضلعی سطح پر پورے پاکستان میں میلاد ِمصطفٰی
ﷺکے پروگراموں کا سلسلہ دسمبر سے مئی تک لگاتار جاری رہتا ہے جس میں
جانشینِ سلطان الفقر خود صدارت فرماتے ہیں۔ جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے
تعلق رکھنے والی سیاسی و سماجی شخصیات اور عوام الناس پھرپور شرکت کریں
گی۔عارفوں کا یہ قافلہ توحید کی امانت کو اپنے سینوں میں سجا کر فقر کی
تلوار اپنے ہاتھوں میں لیے جانشینِ سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی
صاحب کے زیرِ سایہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔ |