کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا
جاتا ہے جبکہ لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے ، پشاور کے چپلی کباب مشہور ہے تو
پھر ہمارے کوئٹہ کی کیا خصوصیت ہے؟ بیٹے نے اپنے والد سے سوال کیا۔ والد نے
جواب دیا یہ تازے تازے خربوزے، انگور، آلوچے، تربوز، زرد آلو، آڑو، سیب اور
یہ بادام، اخروٹ، چلغوزے اور شنیے، بیٹے کوئٹہ پھلوں کا شہر ہے۔ کوئٹہ کے
ایک شہری نے اپنے وزیرآباد کے رہنے والے دوست سے کہا کہ "آپ وزیرآبادیوں سے
ہمیں ڈر لگتا ہے" دوست نے پوچھا وہ کیوں؟ کوئٹہ کے شہری نے جواب دیا ، "کیونکہ
آپ چُھری کانٹوں کے شہر سے ہیں اورہم پھلوں کی ٹوکری سے"۔ کوئٹہ شہر واقعی
پھلوں کی ٹوکری ہی تھا جہاں مختلف طبقوں، مذاہب، عقیدوں ، مختلف نسلوں اور
زبانوں کے لوگ نیم قبائلی نیم شہری برادرانہ اقدار کے ساتھ رہتے تھے۔ پھر
یوں ہوا کہ پھلوں کی منڈی میں مذہب کی دوکانیں سج گیں اور عقائد کے مقا بلے
میں انسانیت کی قیمت روز بہ روز کم ہوتی چلی گی۔ اب آڑو، سیب اخروٹ اور
چلغوزے سے زیادہ ‘جہاد’ ایکسپورٹ ہونے لگا۔ اور تو اور پھلوں کی ٹوکری میں
بسنے والے خوشبودار پھلوں کے بھی رویّے تلخ ہو گئے۔ آپس میں شکوک و شبہات
اور دُوریاں بڑھنے لگیں اور کوئٹہ کے عزاداروں کو خود ہی سبیلیں لگانی پڑ
گیئں۔ پھر دھماکے ہونے لگے اور اُنھی سالوں میں کبھی سیاسی رہنما اور
مزاحیہ ڈرامہ نگار حسین علی یوسفی کو گولیوں سے بھون دیا گیا تو کبھی
پروفیسر صبا دشتیاری جیسے انمول استادوں کے خون سے زمین سرخ ہوئی ، کوئٹہ
کو زخم پےزخم لگتے رہے۔ پھر اس شہرکو وہ دن بھی دیکھنے پڑے جب بار باربسوں
کو روک کر، ہزارگنجی سبزی منڈی سے سبزی اور پھل لانے والے ہزارہ سبزی
فروشوں کو لائن میں کھڑا کرکے گولیاں ماردی جاتی ہیں ۔
کوئٹہ میں ناصر آباد اور سید آباد سے نو آباد تک پھیلے ہوئے یہ لوگ اس لئے
بھی چپ چاپ مارے جا رہے ہیں کہ بہت سے لوگ انہیں جانتے تک نہیں اور ساری
بات سن کر پوچھتے ہیں “کون۔۔۔ہزارہ؟" ہزارہ آبادی ایک طرف پہاڑ اور دوسری
طرف علمدار روڈ کے درمیان قید ہیں ۔ پہاڑ چونکہ بے ضرر ہیں سو اس طرف آبادی
کا جھکاؤ زیادہ ہے۔ علمدار روڈ پار کرنے پر سلامتی کی سرحد بھی پار ہو جاتی
ہے۔ لوگ اب اپنے بچے اسکول نہیں بھیجتے کیونکہ بچوں کی زندگی کو خطرہ ہے
اور بہت سے استاد جو کبھی بلوچستان یونیورسٹی میں علم بانٹنے پر مامور تھے،
اب ہاؤسنگ سوسائٹی کی لکیر پار کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ دکانوں پر تالے پڑ
چکے ہیں اور شہر میں ہزارہ بہت کم نظر آتے ہیں۔ یونیورسٹی کی بس پہ دھماکہ
ہوا تو باقی لوگوں نے اپنے بچوں کی بسیں علیحدہ کروا لیں۔ ہزارہ کے لوگوں
پہ زندگی تلخ کرنے والوں نے ہر راستہ بندکر رکھا ہے۔
فارسی کے سائن بورڈ، سنگتراشوں اور کاتبوں کی دکانوں سے ایک تنگ گلی اوپر
کا رخ کرتی ہے، موڑ مڑنے پہ دو دیواروں کے بیچ بہت سے جھنڈے، علم اور نشان
دور تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں آباد یہ جگہ جمعے کی نماز کے
بعد لوگوں سے بھر جاتی ہے۔ پتھروں کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کے بیچ ایک
راہداری میں دونوں طرف جیتی جاگتی تصویریں لگی ہیں۔ طالبعلم، اداکار،
استاد، بینکر، سپاہی، وکیل اور کھلاڑی۔ خوش پوش، امنگوں سے بھرپور، جن کی
آنکھوں سے زندگی چمکتی ہے۔ سورج ڈھلنے کے ساتھ ساتھ قرآن شریف پڑہنے اور
بین کرنے کی آوازیں بھی آہستہ آہستہ لرزنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ ہزارہ
قبرستان ہے،جب قتل و غارت کا سلسلہ چل نکلا تو اپنی مدد آپ کے تحت اس
قبرستان کا ایک حصہ شہداء کے نام مختص ہو گیا۔ جتنا وقت زمین کے اس ٹکڑے کے
حصول میں لگا اس سے کہیں کم وقت میں یہ جگہ بھر گی۔ ایک میت دفنانےجاوُ تو
پتہ چلتا ہے ایک اور میت تیار ہے۔ قبرستان کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ بنتے
ہی بھر گیا، پھر دوسرا حصہ بنا اور بھر گیا اور اب تیسرا حصہ بھی بھرتا جا
رہا ہے۔ قبروں کے کتبوں پہ ان لوگوں کی تصویریں ہیں، تاریخِ پیدائش، مرنے
کا دن اور حادثے کی جگہ درج ہے اور سب سے نیچے قرآن کی آیات لکھی گئی ہیں۔
ہر قبر ایک کہانی ہے، ایک جگہ پانچ قبریں اکٹھی ہیں، یہ سب ایک ہی باپ دادا
کی اولاد تھے اور کرکٹ کھیلنے کی خواہش سے گھر سے چلے تھے۔کوئی دفتر جاتے
ہوے مارا گیا، کوئی گھر کا سودا لاتے ہوے تو کوئی دکان کھولنے جا رہا تھا
اور کوئی پڑھنے۔
تیس سال پہلے تک ہزارہ کوئٹہ کی شناخت میں شامل تھے مگر افغان جہاد نے جہاں
پاکستان سے ایک آزاد انداز فکرکو چھین لیا، وہیں داخلی اور خارجی رویوں میں
بھی نمایاں تبدیلی آگئی۔ مفاہمت کی جگہ مسابقت نے لے لی اور آہستہ آہستہ
کوئٹہ بدلنا شروع ہو گیا۔ جن کی بات پسند نہیں آئی ان کو مار دیا اور جن کی
سوچ مختلف لگی ان کو غائب کروا دیا۔ مگر اب ضیاالحق کی لگایا ہوا جہاد کا
پودا تناور درخت بن چکا تھا۔ کوئٹہ شہر میں پہلا حملہ سردار نثار کی گاڑی
پہ ہوا جس کے نتیجے میں ان کا گارڈ اور ڈرائیور ختم ہوئے۔ یہ پہلا قتل تھا
مگر اب یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ مارنے والے اتنے اطمینان سے مارنے آتے ہیں
گویا انہیں مکمل یقین ہے کہ ان کے اس فعل کے پیچھے مذہب سے لے کر ریاست تک
تمام سرکردہ لوگ موجود ہیں۔یوں تو ہزارہ قوم کی آٹھ شاخیں ہیں جن میں سے
چار سنی ہیں اور چار شیعہ، مگر مارنے والوں کے پاس اتنی فرصت کہاں کہ تصدیق
کریں، ان کے نزدیک تمام ہزارہ شیعہ ہیں اور ان کا جرم ان کا مسلک ہے۔ پھلوں
کے شہر سے شہرِ آشوب تک کے اس سفر میں کیا کھویا کیا پایا۔ بس اتنا سمجھ
لیجئے کہ کوئٹہ کی پچھلی نسلیں پھلوں کے شوقین ہوا کرتی تھیں اور اب غریب
سبزی فروش کا بیٹا اپنی بیوہ ماں سے کہتا ہے، "ماں، مجھے پھل نہیں کھانے
،اب اِن سے خون کی بُو آتی ہے"۔
ابھی اس شہر آشوب کو اور کتنا غمگین سفر کرنا یہ تو معلوم نہیں مگر دس
جنوری کو اس شہر میں قیامت صغری کا منظر تھا۔ خود کش حملے اور دو بم
دھماکوں کے زریعے دہشت گردوں نے سو سے زیادہ افراد کو شہید کردیا، ہلاک
ہونے والوں میں زیادہ تر ہزارہ شیعہ برادری کے لوگ ہیں ۔ کالعدم یونائیٹد
بلوچ آرمی نے پہلے جبکہ شدت پسند کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی نے بقیہ دو
دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔شہید ہونے والوں کے ورثاء کا پرامن
دھرنا40سے زائد گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جاری ہے، منفی چار ڈگری کی شدید
سردی اور بارش کے باوجود اپنے 86 پیاروں کی لاشیں علمدار روڈ پر ساتھ لئے
بیٹھے ہیں۔ دھرنے پر بیٹھے افراد میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں ۔
احتجاج میں شامل افراد کا مطالبہ ہے کہ صوبائی حکومت امن و امان کی صورت
حال برقرار رکھنے میں ناکام ہونے والے متعلقہ افسران کو برطرف کرے اور
کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔مظاہرے میں شامل افراد نے دھماکوں میں
مرنے والے اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو مطالبات پورے ہونے تک دفن کرنے سے
انکار کردیا ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں شدید سردی کے باوجود
لوگوں کے دھرنے ساری رات سے جاری ہیں۔ مگر بےحس حکمراں اپنے اپنے محلوں میں
آرام کررہے ہیں۔ صوبہ کا وزیراعلیٰ بہت ڈھونڈنے کے بعد ملا مگر وہ ملک میں
ہی نہیں ہے۔ حکومت سے مظاہرین کے مذاکرات ناکام ہوگئے، بلوچستان کے سیکرٹری
داخلہ کا کہنا ہے کہ حکام کی مظاہرین سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے اور اس
میں جلد کامیابی کا امکان ہے جس کے بعد لاشوں کی تدفین ہو سکے گی۔شیعہ
علماء کونسل بلوچستان کے صدر نے کہا کہ کوئٹہ میں دہشتگردی کی انتہاء ہو
چکی ہے مگرحالات کی سنگینی کا احساس کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ سپریم
کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ کچھ کریں۔ فوج کے سربراہ کو
بھی پتہ ہونا چاہیے کہ یہ داخلی سلامتی کا مسلہ ہے۔ ایک سرکاری بیان میں
کہا گیا ہے وزیر اعظم نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو بیرنی دورہ منسوخ کرکے
جلد ملک واپس پہنچنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ جاری کردہ بیان کے مطابق
وزیر اعظم اگلے ہفتے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے کے نمائندوں سے
ملاقات بھی کریں گے۔ منفی چار ڈگری کی شدید سردی اور بارش میں اپنے 86
پیاروں کی لاشوں کے ساتھ بیٹھے ہوے ان لوگوں کے ساتھ اس سے زیادہ بے حسی
کیا ہوگی کہ صوبے کا وزیراعلیٰ ملک سے باہر ہے۔ ملک کا صدر کراچی میں بیٹھ
کر سیاسی توڑجوڑ میں مصروف ہےاور وزیر اعظم کو ان سے ملنے کے لیے اگلے ہفتے
تک فرصت نہیں۔ تو پھر بلوچستان کے لوگ ان حکمرانوں سے بے زاری کا اظہار
کرتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ باقی ماندہ پاکستان
کو بلوچستان کی نسبت ٹوئنٹی ٹوئنٹی کپ، لونگ مارچ ، حکومت ۔ عدلیہ تنازع
اور چڑیا گھر کے جانوروں کی زیادہ فکر ہے۔
کراچی، کوئٹہ اور سوات میں ہونے والے پانچ بم دھماکوں میں شہادت پانے والوں
کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی شہادت پانے والوں کے لوایقین کو صبر عطا
فرمائے اور ہمارئے وطن پر اللہ تعالی اپنا رحم فرمائے، ساتھ ساتھ ان بے حس
حکمرانوں سے قوم کو نجات دلائے۔ آمین |