آٹے کی بیس کلو تھیلے کی قیمت
800 روپے ہوگئی ہے اس لئے ڈیڑھ سو روپے مزید ادا کرے یہ الفاظ دکاندار نے
گذشتہ روز راقم سے ساڑھے چھ سو روپے لینے کے بعد کہے جب راقم نے دکاندار کو
ساڑھے چھ سو روپے ادا کئے اور کہا کہ بیس کلوکے آٹے کا تھیلا دے دیں جس پر
اس نے مزید ڈیڑھ سو روپے کا مطالبہ کیا اس کی بات نے راقم کو حیران کردیا
اور پوچھا کہ دس دن پہلے تو ساڑھے چھ سو روپے تھی اب یکدم آٹھ سو تک کیسے
پہنچ گئی جواب میں دکاندار نے اسلامی جمہوری عوامی اور فلاحی مملکت کے
حکمرانوں کی شان میں وہ مغلظات بکی جو یہاں پر شائع کرنے کے قابل نہیں -
دکاندار کو ڈیڑھ سو روپے مزید ادا کرنے کے بعد راقم نے دکاندار کو مخاطب
کرتے ہوئے کہا کہ شکر ہے کہ میرے والد وفات چکے ہیں یہ بات دکاندار کو
حیران کر گئی اس نے سوال کیا کہ یہاں پر والد کا کیا ذکر اور کیوںیہ بات کی
تو جوا ب میں راقم نے اسے قصہ سنا دیا تقریبا پانچ سال قبل بازار سے بیس
روپے کا تھیلا اور پانچ کلو گھی کا ڈبہ خریدنے کے بعد راقم گھر گیا تو والد
جو کہ تقریبا آٹھ سال سے دل کی بیماری کی وجہ سے گھر پر پڑے تھے نے سوال
کیا کہ بیٹا مارکیٹ میںآٹے اور گھی کا کیا بھائو ہے راقم نے بتا دیا کہ ایک
ہزار روپے میں چار سو روپے گھی اور چار سو روپے آٹے کا بیس روپے کا تھیلا
لایا ہو ںجس پر والد صاحب حیران ہو کر رہ گئے اور کہا کہ یہ کیسا وقت آگیا
ہے کہ چار سو روپے میں بیس کلو کے آٹے کا تھیلا مل رہا ہے ان کیلئے یہ بات
حیران کن تھی سو بازار میں دکاندار کو راقم نے بتایا کہ شکر ہے کہ والد
وفات پا چکے ہیںکیونکہ وہ تو چار سو روپے کا سن کر حیران ہو گئے تھے اب اگر
آٹھ سو روپے سنتے تو شائد انہیں دل کا دورہ ہی پڑ جاتا-جس پر دکاندار نے
بات ہنسی میں اڑا دی اور راقم آٹے کا تھیلا اٹھا کر گھر لے آیا تاہم یہ
اضافی ڈیڑھ سو روپے راقم کیلئے مشکل پیدا کر گئے کیونکہ پہلے سے بنائے گئے
بجٹ سے اضافی ادا کرنا پڑے اسی باعث دو دن رکشے کے بجائے پیدل ہی دفتر جانا
پڑا - گھر سے دفتر تک پیدل جاتے ہوئے کچھ دوستوں نے آواز بھی دی کہ کیوں
خیر تو ہے کیا کرایہ نہیں جو پیدل جا رہے ہو لیکن راقم نے دل کڑا کر جھوٹ
بولا کہ نہیں یار اصل میں وزن کچھ زیادہ ہوگیا ہے اور موٹاپے کی ڈر کی وجہ
سے اب پیدل چلنا شروع کردیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی-یہ صورتحال
صرف راقم کیلئے پریشان کن نہیں بلکہ ہر اس کمی کمین کیلئے ذہنی تنائو کا
باعث ہے جو گھر کی ذمہ داریوں کا سامنا ہے اور حلال طریقے سے اپنے گھر
والوں کیلئے روزی روٹی کمانے کے چکر میں مصروف عمل ہے -
آٹے کی قیمتوں میں اضافے کو صوبائی محکمہ خوراک نے معمولی قرار دیتے ہوئے
اسے پچاس روپے اضافہ قرار دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گندم اور آٹے کی
افغانستان برآمدات کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ابھی بھی گندم وافر
مقدار میں موجود ہے جو اپریل تک صوبے کے صارفین کیلئے کافی ہے ان کے مطابق
صوبے کی ضرورت چالیس لاکھ ٹن ہے جبکہ صوبے میں گندم کی سالانہ پیداوار دس
لاکھ ٹن ہے -بقول محکمہ خوراک کے ڈائریکٹر جنرل کے آٹے کی تھیلے کی قیمت
میں پچاس روپے اضافہ ہوا جبکہ حقیقت میں قیمت میں ڈیڑھ سو روپے اضافہ ہوا
ہے اس ملک کے غریب غرباء پر مسلط بیورو کریٹس کو زمینی حقائق کا پتہ ہی
نہیں ہوتا اس باعث انہیں اضافہ بھی کم لگتا ہے جس میں وہ حق بجانب بھی
ہیںکیونکہ انہیں امدادی قیمتوں پر سب کچھ ملتا ہے دو دن قبل لائیو سٹاک
ڈیپارٹمنٹ میں بیورو کریٹس کے گھروں پر روزانہ دودھ پہنچانے والے ایک
بیروزگار نوجوان سے ہوئی تھی جس نے بتایا کہ خیبر پختونخوار کے چیف سیکرٹری
ہوم سیکرٹری سمیت 85 کے قریب بیورو کریٹس کے گھروں پر روزانہ سرکاری فارم
سے چالیس روپے لیٹر دودھ پہنچانے کا کام وہ کرتا تھا حالانکہ اوپن مارکیٹ
میں فی کلو دودھ کی قیمت 80 روپے ہے جبکہ لیٹر100 اور 110 روپے میں ملتا ہے
اب ان حالات میں کمی کمینوں کا خون چوسنے والے ان بیورو کریٹس کو کیا پتہ
کیونکہ یہ خود سرکار امدادی قیمت پر اشیاء خوردنوش لیتے ہیں اسی باعث انہیں
ڈیڑھ سو روپے اضافہ بھی معمولی لگتا ہے اور یہی صورتحال مختلف اشیاء
خوردنوش کے حوالے سے ہی یکساں ہیں کروڑوں کی گاڑیوں میں پھرنے والے کمی
کمینوں کے ٹیکسوں پر پلنے والوں کو کیا پتہ کہ اس ملک کے عوام پتہ نہیں کس
گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں-محکمہ خوراک کے مطابق گذشتہ چار سالوں سے ملک میں
گندم کی مقدار بڑھ رہی ہیں اسی باعث گندم کی برآمدات کا سلسلہ بھی شروع
ہوگیاسال 2010-11 ء میں 25.21 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی جبکہ 2011-12 ء میں
23.52 ملین ٹن گندم ریکارڈ گندم پیدا ہوئی چونکہ تقریبا تین ملین ٹن اضافی
گندم پیدا ہوئی اسی باعث دیگر ممالک کو بھی امپورٹ کی گئی جس کے باعث
قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے-
مئی 2008 ء سے اس ملک کے کمی کمینوں پر مسلط ہونیوالی خاندانی پارٹی اور ان
کے اتحادیوں کی بدولت جن میں ہمارے پختون خوار کے خدا کی زمین پر اپنی
بدمعاشی دکھانے والے لی ڈر بھی شامل ہیں اگر مئی 2008 سے دسمبر 2012 تک
مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ
کمی کمینوں کیلئے جئے کا نعرہ کتنا بربادی ساتھ لایا ہے مئی 2008 ء میں
پٹرول کی قیمت 56 روپے تھی جو کہ اب 103 روپے تک پہنچ گئی ہیں ڈیزل کی قیمت
39 تھی جو کہ اب 116 روپے تک پہنچادی گئی سی این جی جو 30 روپے تھی اب 90
روپے تک پہنچا دی گئی اسی طرح موٹر سائیکل کی قیمت 50000 روپے سے 75000
روپے تک پہنچ گئی ائیر کنڈیشنر کی قیمت پندرہ ہزار سے چوالیس ہزار امریکی
ڈالر کی قیمت 60روپے سے 98 روپے تک آٹے کی قیمت سولہ روپے سے 38روپے تک
چینی کی قیمت 25سے 65روپے تک کھانے کی تیل کی قیمت 70 روپے سے 190 روپے تک
پہنچ گئی جی ایس ٹی جوپہلے پندرہ فیصد تھی موجودہ حکمرانوں نے 25روپے تک
پہنچا دی بجلی کی فی یونٹ ڈھائی روپے سے 12روپے تک پہنچا دی گئی حالانکہ
یہاں پر اپنی بجلی اپنا اختیار کا نعرہ صوبے کے کمی کمینوں کے سامنے لگایا
گیا سونے ) گولڈ ( جو کہ چھبیس ہزار روپے تولہ تھا اب اڑسٹھ ہزار روپے تک
پہنچا دی گئی اسی طرح ایس ایم ایس اور موبائل فون کی کال پر ٹیکس پندرہ
فیصد سے اکیس فیصد کردیا گیایہ وہ عام اشیاء ہیں جو گھروں میں استعمال
ہورہی ہیں ان میں ائیر کنڈیشنر اور سونا کو نکال دیا جائے کیونکہ اب یہ بھی
سفید پوش طبقے کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے ان حالات میں کمی کمین اس بات سے ڈر
رہے ہیں کہ کہیں ان کیساتھ کفن چور والا قصہ نہ ہو جائے کیونکہ ان سے پہلے
والے کفن چور تھے تو موجودہ کفن چور کے بیٹے نکلے جو کفن بھی چوری کرتے ہیں
اور پھر مردوں کی بے عزتی بھی کرتے رہیں اللہ خیر کرے آنیوالے کہیں کہیں
کفن چور کے بیٹے سے بھی بدتر نہ ہو کیونکہ کفن چور کا بیٹا تو مردے کی صرف
چوری اور بے عزتی کرتا تھااور اگر ان سے بدتر آگئے تو پھرمردے کی کفن کی
چوری اور بے عزتی کے بعد اس کی ویڈیو بھی بنائیں گے اللہ ہم پر رحم کرے- |