شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں
یہ طرز ِسیاست ہو جو پاکستان میں ہے کہ اپنے دیئے کو چاند بنانے کے لیے نہ
تو کسی کی جان کو بخشتے ہیں نہ عزت کو لیکن ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین
نے تو حد کرتے ہوئے اورخود کو بچانے کے لیے قائداعظم محمد علی جناح کو جس
طرح ڈرون مارا ہے وہ انتہائی قابل افسوس ہی نہیں بلکہ قابل مذمت ہے۔ اپنی
ذات اور سیاست بچانے کے لیے اگر چند اُن اشخاص کو بخش دیا جائے جن کو قوم
غیر متنازعہ ہیرو مانتی ہے ، انہیں یوں اپنی خاطر نہ گھسیٹا جائے تو قوم کے
اوپر یہ ہمارے سیاستدانوں کا احسان ہوگا ۔ اگر پینسٹھ سال تک قائد کو قوم
نے غیر متنازعہ قائد مانا ہے بلکہ تحریک ِپاکستان کے سال بھی شمار میں ڈال
دیجئے تو یہ پچھتر، اسّی سال ہو جاتے ہیں تو اب بھی انہیں متنازعہ بنانے کی
کوشش نہ کی جائے ،بعد میں ہرزہ سرائی کی جتنی تو جیہات پیش کی جائیں وہ
پہلا تاثر زائل نہیں کرتیں۔ میں مانتی ہوں کہ قائداعظم معصوم عن الخطا نہیں
تھے وہ نعو ذباللہ کوئی پیغمبر یا صحابی بھی نہیں تھے کہ جن کے خلاف بات
کرنے کو میں گناہ سمجھوں جیسا کہ ایم کیو ایم کے ایک لیڈر نے اپنے ’’قائد ِتحریک‘‘
کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مثال تو نبی اور صحابہ کی بھی دی جاتی ہے تو قائد
اعظم کی کیوں نہیں دی جا سکتی یہ بات درست ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ
اپنے قومی ہیروز کے ساتھ ایسا نارواسلوک کیا جائے۔ لگتا تو ایسا ہے کہ ایک
لاولد انسان سمجھ کر محمد علی جناح کو الطاف حسین نے ڈرون مارا ہے لیکن وہ
بھول گئے وہ کہ محمد علی جناح ہی نہیں قائداعظم بھی ہیں سچ مچ کے قائد اور
اٹھارہ کروڑ عوام کے روحانی باپ اوریہ قوم بحیثیت قوم اب بھی اتنی گئی گزری
نہیں ہے یہ باقی ہر قسم کے قائدوں کو تو بھول جاتی ہے اور گزرتے وقت اور
گزرتی حکومت کے ساتھ ان کی قیادت بھی وہ نہیں رہتی جو حاکمیت کے زمانے میں
ہوتی ہے اگر الطاف صاحب اور ان کے عہدہ داران ان احساسات کو صرف میری
جذباتیت سمجھ رہے ہیں تو ایسا نہیں بلکہ یہ اُن سب لوگوں کے جذبات ہیں جن
سے اُن کے اس خطاب کے بعد میری بات ہوئی۔
قائداعظم کے پاسپورٹ پر اگر تاریخ ملاخطہ کی جائے تو وہ ہے 28 نومبر 1946
یعنی پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے تو ان کا پاسپورٹ پاکستانی کیسے ہو
سکتا تھا جس کو پاسپورٹ آفس آف سندھ نے کراچی میں جاری کیا تھا۔ پھر ان کو
دہری شہریت کا طعنہ کیوں دیا گیا یہ بات بعیداز عقل ہے ۔ اگر ہمارے
سیاستدان پاکستان سے واقعی محبت کرتے ہیں صرف ووٹ اور حکومت کے لیے نہیں
اور آئین اور قانون ان کو دہری شہریت کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھنے کی اجازت
نہیںدیتا تودوسرے ملک کی شہریت چھوڑ دینے میں قباحت کیا ہے ۔اور اگر حد ادب
نہ ہو اور میں اپنے محترم اور شجر ممنوعہ قسم کے سیاستدانوں سے یہ پوچھ
سکوں کیا وہ قائداعظم کی طرح اپنی جائیداد حکومت پاکستان اور عوام پاکستان
کے لیے وقف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب خود میرے اپنے
پاس بلکہ پاکستان کے ہر فرد کے پاس موجود ہے کہ وہ تو اربوں کے مالک ہوکر
بھی حکومت سے قرضے کے نام پر پیسے لیتے ہیں اور پھر انہیں معاف کر والیتے
ہیں ملک کے بڑے بڑے منصوبے اپنے ذاتی مفاد کے لیے بیچ دیتے ہیں۔یہ بھی عرض
ہے کہ قائداعظم نے جب حلف اٹھا یا تھا تووہ گورنر جنرل تھے اور گورنر جنرل
تاج برطانیہ کا نمائندہ ہوتا ہے لہٰذا یہ قانونی مجبوری تھی اور ابھی تو
پاکستان وجود میں بھی نہیں آیا تو کیسے ایک ناموجود ملک کا آئین بنتا جس کی
وفاداری کا وہ اعلان کرتے اور افسوس کہ قائد کی زندگی نے تو اتنی وفا بھی
نہ کی کہ وہ پاکستان کا آئین بنتے ہوئے دیکھتے اور اس کا حلف اٹھاتے۔ لیکن
وفادار وہ عوام پاکستان کے ہی رہے وہ مشکل ترین حالا ت میں بھی ملک چھوڑ کر
نہیں گئے بہتّر کلو گرام وزن ،اُس وقت کے لاعلاج مرض ٹی بی میں مبتلائ، خود
اپنی ذاتی حیثیت میں بیرونِ ملک علاج کی استطاعت رکھنے کے باوجود علاج کے
لیے باہر نہ گئے اپنے ہی ملک کے کم وسائل ڈاکٹروں سے علاج کرواتے رہے ۔
چھینک آنے پر بھی آج کے سیاستدانوں کی طرح بیرون ملک کا رخ نہیں کیا۔ ایک
خراب ہو کر راستے میں رکی ہوئی ایمبولنس میں زندگی کی آخری سانسیں لیں لیکن
اس زمین سے جدا نہ ہوئے۔
قائداعظم کا اور خود کا موازنہ کرنے والوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ
اُنہوں نے پاکستان بنایا توڑنے کی باتیں نہیں کیں بات بات پر یہ دھمکی نہیں
دی کہ اِن ،اِن اور اِن اقدامات کی روشنی میں ملک ٹوٹ سکتا ہے یا ہماری بات
مانی جائے ۔ نہ ہی پاکستان کے قیام کو غلطی قرار دیا بلکہ اپنی زندگی کا
آخر ی سال جو اس آزاد ملک میں گزارا وہ اس کی سا لمیت اور ترقی کی بھاگ دوڑ
اور کوشش میں گزرا۔ ایک عام آدمی آج بھی یہ سوچتا ہے کہ کاش وہ مزید چند
سال زندہ رہتے تو پاکستان ایک زیادہ مضبوط ملک اور مستحکم جمہوریت ہوتا۔
ایم کیو ایم اس بات کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے تو استعمال کرتی ہے کہ وہ ،
وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا تو عرض ہے کہ پاکستان برصغیر پاک و ہند
کے ہر مسلمان نے بنایا ،ہاںللہ نے آپ کو یہ عزت دی کہ آپ کے بزرگوںنے اس
ملک کی خاطر ہجرت کی تو کم از کم اپنے بزرگوں کی ہجرت اور خون کی ہی لاج
رکھ لیں اور بات بات پر ملکی سا لمیت کے خطرے میں ہونے کی بات مت کریںاور
وہ جس کی آواز پر آپ کے بزرگوں نے لبیک کہا تھا اپنا گھر بار چھوڑا تھا
،اپنے گائوں، اپنے شہر چھوڑے تھے بلکہ ادھورے جسم لائے تھے کہیں جسم چھوڑ
آئے تھے کہیں سر۔ لیکن یہا ں پہنچ کر ایک لفظ شکولے کا زبان پر نہیں لائے
تھے نہ شکایت کی تھی کہ محمد علی جناح یہ تم نے کیا کیا بلکہ پاک سرزمین پر
سر رکھ کر سجدئہ شکر بجا لائے تھے ۔ خود احسان مانا تھا بار بار اس ملک پر
احسان جتایا نہیں تھا وہ واقعی عظیم لوگ تھے ان کی عظمت کو گہن مت لگائیے
اپنے رب کا احسان مانیے اس کا شکر ادا کیجئے کہ اُس نے آپ کو شناخت دی اور
اس شخصیت کا ممنون احسان ہو جائیے جس کا نام محمد علی جناح تھا لیکن قوم نے
اُس کی خدمات کے صلے میں اُسے اپنا قائداعظم مانا ۔ قائداعظم اور آپ کا
کوئی مقابلہ نہیں ان کو اپنی سیاسی ضرورت کے لیے استعمال مت کیجئے ۔ آخر کو
وہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کا بابا ہے کوئی لاوارث شخص نہیں۔ |