انسانی نسل کے تقاضہ کے مطابق
تمام انسان برابر ہیں۔سوائے تقویٰ کے ایک انسان کو دوسرے اانسان پر کوئی
فضیلت حاصل نہیں سب آدم کی اولاد ہیں ۔لیکن خدا نے ہر انسان کو کوئی نہ
کوئی خوبی اور صلاحیت ضرور عطا کر رکھی ہے۔مرتبے میں کم ایک انسان بڑے سے
بڑا کام کر سکتا ہے۔ہر انسان جذبات رکھتا ہے کسی میں یہ بیدار ہوتے ہیں اور
کسی میں نہیں ہوتے اور یہی جذبات انسان کو کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے پر
اکساتے ہیں ۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
ملک وقوم کی ترقی میں ایک فردکا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔کردار وہ عمل ہے
جو کسی بھی ملک و قوم یا تنظیم کو مضبوط رکھنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتا ہے۔ایک فیکٹری یا کمپنی کو منظم طریقے سے چلانے اور اسے ترقی یافتہ
بنانے میںبہت سے ورکرز مختلف قسم کے کردار ادا کرتے ہیں ۔اگر ان میں سے ایک
بھی اپنے فرض سے دوری اختیار کرے تو وہ کمپنی اس ایک کی وجہ سے خسارے میں
آجاتی ہے۔میرے ایک استاد محترم اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ ایک گاڑی بذاتِ خود
کچھ نہیں بلکہ اس کا ہر پرزہ اپنی جگہ اہم کردار ادا کرتا ہے اگر زیرو میٹر
گاڑی ہو اور اس کا انجن خراب ہو تو وہ کوئی کام سرانجام نہیں دے سکتی،اسی
طرح اگر ٹائر نہ ہوں ،پیٹرول یا سی این جی نہ ہوتو وہ گاڑی بے سود ہے۔جب تک
گاڑی کا ہر پرزہ ٹھیک نہ ہو وہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ایک چھوٹے سے
گھر کو چلانے میں گھر کا ہر فرد کردار ادا کرتا ہے اگر وہ یہ نہ کرے تو گھر
ویران ہوجاتاہے۔ایک ملک کو چلانے کے لیے پوری قوم کا ایک ایک فرد اپنے حصے
کا کردار ادا کرتا ہے۔ایک ملک کے نظام کو ترقی یافتہ بنانے میں نہ صرف صدر
مملکت کا کردار ہوتا ہے بلکہ تمام با اختیار لوگوں کا کردار ہوتا ہے۔اگر ان
میں سے ایک شخص بھی صیح کام نہ کرے ،اللہ اور رسولﷺ کے حکم کی پامالی
کرے،ناحق کھائے،قوم سے جھوٹ بولے،رشوت کھائے،اقرباءپروری اور بے انصافی
کرے،بڑے بڑے ہوٹلوں میں شراب نوشی اور عیاشی کرے،کسی کی عزت نفس کو پامال
کرے اور عصمت دری کرے،انسانی حقوق کو چھینے،حقوق اللہ سے ظلم کرے،ظالم کے
آگے جھکے، کرپشن کرے ،ملک دشمن ،اسلام دشمن عناصر کی غلامی اور دست بوسی
کرے،ملکی وسائل سونا ، بجلی ،تیل ،سوئی گیس غیر کے ہاتھوں بیچے تو وہ پرزہ
خراب ہے ۔جو پرزہ خراب ہو وہ گاڑی چلانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر
سکتابلکہ اس کی رفتار میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ملک پاکستان کوئی عام ملک
نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کا پسندیدہ ملک ہے اور اس میں اسکے بے شمار محبوب لوگ
رہ رہے ہیں اور یہ ہمیشہ قائم رہے گااور جو جو پرزہ خراب ہو گا اور اس ملک
کی پیٹھ پہ خنجر کھونپے گا خد ا خود ایک ایک کرکے اس کی مرمت اور تبدیلی
کرے گا ۔بہتر یہی ہے کہ ہم خود اپنے اندر تبدیلی لائیں اور اللہ کے عذاب
اور ناراضگی سے بچیں۔ 30 ا کتوبر 1947 ءکو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کے
دوران حضرت قائداعظم ؒ نے فرمایا؛۔
"تاریخ میں ایسی نئی اقوام کی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے محض قوت ارادی
اور بلند کرداری سے خود کو بنایا اور عظیم کیا۔آپ کا ضمیر فولادی قوتوں سے
اٹھا ہے۔آپ ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ حیرت انگیز طور پر بلند کردار ،بلند
حوصلہ ،شجاع اور اوالعزم ہستیوں سے بھری پڑی ہے۔اپنی روایات کی رسی مضبوطی
سے تھام لیجئے اور اپنی تاریخ میں شان و شوکت کے ایک اور باب کا اضافہ
کیجئے۔ "
اللہ اس پوری کائنا ت کا پروڈیوسر ہے اور خود ہی اس کو ڈائریکٹ کر رہا ہے ۔گویا
کہ خدا نے اس زمیں پر ایک ڈرامہ یا فلم رچارکھی ہے جس میں ہر چیز اپنی جگہ
کردار ادا کر رہی ہے ۔خدا نے اٹھارہ ہزار عالم کی مخلوقات کو پیدا کیا
اورانسان کو پیدا کر کے زمین پر بھیجا۔انسان کو اپنا خلیفہ یعنی ہیرو کا
کردار دیا اور تمام اختیارات بھی عطا کر دیئے پھر دنیا کو رقیب کا کردار
دیااور اسکے ساتھ نفس اور شیطان ولن کا کردار ادا نبھا رہے ہیں ۔خدا خود
اپنی اس فلم میں معشوق اور ہیروئن بن گیا اور بیٹھ کر دیکھ رہاہے اور اس
انتظار میں ہے کہ کب میر ا چاہنے والا اور میرا عاشق میری طرف آئے گا اور
مجھے پہچانے گا ۔اسی طرح ہر چیز ،ہر شخص کردار ادا کر رہا ہے۔نظام فلکی میں
چاند ،سورج ،ستارے ،سیارے سب اپنی جگہ کردار ادا کر رہے ہیں اور قدرت کا
نظام چل رہا ہے۔ ایک ڈرامہ یا فلم میں تین قسم کے کردار ہوتے ہیں۔اسی طرح
کسی ملک یاتنظیم کو چلانے کےلیے بھی افراد تین قسم کے کردار ادا کرتا
ہے۔ایک مرکزی کردار ادا کرتے ہیں وہ اس فلم ،ملک،جماعت یا تنظیم کی بہتری
کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیتے ہیں اور اس کی خاطر اپنے گھربار،ماں
باپ،بہن بھائی،بیوی بچوں کی پرواہ کیے بغیر ہر وقت اس کی ترقی کے لیے اپنے
کردارکو نبھاتے ہیں ۔ان کا کردار بھی بنیادی نوعیت کا ہوتا ہے۔دوسرا امدادی
کردار ادا کرتے ہیں چاہے وہ مالی لحاظ سے ہو یا جانی لحاظ سے،بس وہ صرف
مرکز والوں کو سپورٹ کرتے ہیں ۔تیسرا اضافی امدادی کردار ادا کرتے ہیں ان
کی اتنی زیادہ محنت اور قربانیاں تو نہیں ہوتی لیکن جب فلم پایہ تکمیل تک
پہنچ جاتی ہے تو ان تینوں کرداروں کو اپنی حیثیت کے مطابق کریڈت ضرور ملتا
ہے۔اس لیے زندگی کے ہر شعبے میں یہ تینوں کردار بہت ضروری ہیں ۔ہمارا یہ
ملک ایک تنظیم ،ایک جماعت کی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعت کے ہر رکن یعنی ہر
پاکستانی کو چاہیے کہ اس کو ایک مضبوط اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے میں
اہم کردار ادا کرے۔
اس وقت ملک پاکستان بہت سے بحرانوں میں گزر رہا ہے۔ایک شخصیت،ایک پارٹی/
جماعت یا ایک ادارہ ان بحرانوں سے ملک وقوم کو نہیں نکال سکتا بلکہ پوری
قوم باہمی یکجہتی ومضبوط اتحاد اور کردار سے ہی اس بحران سے کامیابی کے
ساتھ نکل سکتی ہے۔
20 اکتوبر1947ءکو ایک نشری بیان میں قائداعظم ؒ نے فرمایا:
"آئیے ہم اپنی عظیم قوم اور خودمختار مملکت پاکستان کی تشکیل و تعمیر کےلیے
کچھ تدبیر کریں ۔اب یہ ہر مسلمان مردوزن کے لیے سنہری موقع ہے اور اسکی خوش
قسمتی بھی ہے کہ وہ اپنے حصے کا بھرپور اور مکمل کردار ادا کرے۔بڑی سے بڑی
قربانیاں دے اور پاکستانی قوم اور ملک کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنانے
کےلیے مسلسل انتھک شب وروز محنت کریں۔"
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح وشام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں |