کمٹمنٹ اور ندامت

کمٹمنٹ اور ندامت دو ایسے لفظ ہیں جو تقریباً ساتھ ساتھ چلتے ہیں ، اور یہ دونوں لفظ انسانی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں کمٹمنٹ ہمیشہ پہلے اور ندامت کمٹمنٹ پوری نہ ہونے کی صورت میں ،دونوں لفظ اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں،کسی بھی کام منصوبے یا ذمہ داری کے لیے کمٹمنٹ جتنی ضروری ہے کام پائہ تکمیل تک نہ پہنچ سکنے ادھورا رہ جا نے یا معیار کے مطابق نہ ہونے کے صورت میں اگر ندامت ہو اور آئندہ کے لیے اس سے سبق لیا جائے تو وہ ندامت بھی غنیمت ہے،مگر یہ سب کچھ اپنے ہاں مفقود ہے ،یہاں نہ کمٹمنٹ ہے نہ ندامت ہر کسی کو فکر ہے تو صرف مال بنانے اور پیسہ کمانے کی اور اگرکوئی حادثاتی طور پر کسی اہم عہدے پر براجمان ہو جائے تو یوں چپک جاتا ہے کہ جیسے روز ناشتے میں گوند کھاتا ہو کوئی اسے ہٹا سکتا ہے نہ ہی کوئی خاطر خواہ باز پرس اور جب تک گلے میں رسی نہ ڈالے کوئی اس سے زیادہ زور آور یا اللہ تعالیٰ کو اس قوم پر رحم آجائے اور عزرائیل ؑ کو نہ بھیج دیں تب تک جناب مرتبے وعہدے کو ابا جی کی جاگیر سمجھے رکھتے ہیں،اور کوئی بڑی سے بڑی غفلت اور کوتاہی بھی اسے ٹس سے مس نہیں کر سکتی،کمٹمنٹ اور ندامت جیسے الفاظ ان لوگوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے حالانکہ ان لفظوں سے قوموں کی زندگیا ں بنتی بگڑتی ہیں مگر مہذب معاشروں میں،آج ایسا ہی ایک واقعہ نظر سے گذرا جسے پڑھ کر حیران بھی ہو ا اور تحسین کے الفاظ بھی بے ساختہ منہ سے نکلے ساتھ ہی اہل مغرب کی ترقی کا راز بھی سمجھ میں آیا،اور شیلا کی جوانی کا بھید بھی آج ہی کھلا کم از کم مجھ پہ تو،کوئٹہ سے ایک سو تیرہ کلو میٹر دور ایک پہاڑی سلسلہ ہے جسے خواجہ عمران کا پہاڑی سلسلہ کہا جاتا ہے اس پہاڑی سلسلے میں شانزلہ اور شیلا باغ کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی ریلوے ٹنل ہے جسے کوجک ٹننل کہتے ہیں اس ٹنل کی تعمیر اور اس کے انجنیئرنے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا ،یہ ٹنل 14 اپریل 1888کو تعمیر ہونا شروع ہوئی یہ پانچ کلو میٹر لمبی ہے اور اس کی تعمیر میں لگ بھگ آٹھ سو مزدور ہلاک ہوئے اور ان میں سے اکثر وہیں آس پاس دفن ہو گئے اس ٹنل میں ایک کروڑ ستانوے لاکھ چوبیس ہزار چار سو چھبیس اینٹیں لگی ہیں مزدور وں کی اول صف کھدائی کرتی جاتی جبکہ پچھلی اینٹیں لگاتی اور ان سے پیچھلی صف پٹٹڑی بچھاتی جاتی ،بھاری مشینری کا وجود نہ ہونے کی وجہ سے کھدائی کا سارا کام انسانی ہاتھوں سے ہوتا،اس ٹنل کی تعمیر کے لیے 80 ٹن پانی روزانہ کی بنیاد پہ صرف ہوتا، دن اور رات کو کام کرنے کے لیے چھ ہزار پانچ سو چورانوے چراغ جلتے جو پوری ٹنل کو اندر سے روشن رکھتے،مزدوروں کی ریفریشمنٹ کے لیے آج کے انڈیا کے علاقے سے مشہور زمانہ رقاصہ شیلا منگوائی گئی جو رات کو رقص کرتی اور دن کے تھکے ماندے مزدوروں کی تفریح کا کچھ سامان پیدا کیا جاتا،اب آئیے اس دلچسپ و عجیب ٹنل کے سب سے مزیدار پہلو کی طرف ،اس ٹنل کے انجنئیرجس نے اس کا سروے کیا اس کے مطابق اگر پہاڑ کے دونوں طرف سے اس ٹنل کی کھدائی کی جائے تو 3 سال 4ماہ اور21 روز بعد دونوں طرف سے کھدائی کرنے والے مزدور ایک دوسرے سے آ ملیں گے،کام شروع ہوا اور بڑی ہمت بہادری اور دلیری سے جاری رہا،مزدور دن کو کام کرتے رات کو پہاڑ کی چوٹی پر شیلا رقص کر کے مزدوروں کا دل بہلاتی،کچھ تھک کر وہیں سو جاتے اور اگلی صبح اٹھ کر وہیں سے دوبارہ کام میں جت جاتے،5 ستمبر 1891 کو انجنیئر کے لگائے اور بتائے گئے تخمینے کے مطابق اس ٹنل نے مکمل ہوناتھامقررہ تاریخ نزدیک سے نزدیک آتی جا رہی تھی اور سرا نہیں مل رہا تھا اور چند لوگوں نے افواہیںاڑانا شروع کر دیں کہ مزدور راستہ بھول کر راستے سے ہٹ گئے ہیں انجنئیر نے غلط سروے کیا ناقص منصوبہ بندی تھی کروڑوں ڈوب جائیں گے،مگر انجنئیر پر امید تھا لیکن دل میں کہیں یہ خیال بھی راسخ ہو چکا تھا اس کے کہ اگر واقعی ایسا ہو گیا تو،،،،اور ایک دن واقعی مقررہ تاریخ آگئی آج دونوں طف آنیوالی اور بچھائی جانیوالی پٹڑ ی کے آخری بولٹ لگنے تھے دن بارہ بجے تک ٹنل کے اندر سے کوئی خبر نہ آئی ساری رات بے چینی سے ٹہلتا انجنیئراب بھی ٹہل رہا تھا،اسے لگاآج اس کا علم اسے دھوکا دے گیا،آج اس کا سب سے بڑا خواب پورا ہونے کی بجائے ریزہ ریزہ ہو رہا تھاانجنیئر چپکے سے اٹھا اور پہاڑی کے اوپر اس مقام پر جا پہنچا جہاں پر رات کو شیلا رقص کرتی تھی،وہاں پہنچ کے رکا چند لمحے ٹنل کے دھانے پر نظر ڈالی اور پہاڑی کی چوٹی سے گہری کھائی میں چھلانگ لگا دی ،اور تقریبا! عین اسی وقت دونوں طرف سے کھدائی کرتے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے مزوروں کے درمیان ریت کی آخری دیوار بھی گر گئی،دنیا کی سب سے بڑی خوجک ٹننل مکمل ہو گئی دو نوں طرف کے مزدوروں نے ایک دوسرے سے گلے ملنے کے بعد اپنی اپنی مخالف سمت میں دوڑ لگا دی اور نعرے لگاتے چیختے چلاتے اڑھائی اڑھائی کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے ٹنل سے باہر نکلے دو نوں طرف جشن کا ساماں برپا ہو گیا،معاً کسی کو انجنیئرکا خیال آیااور جب تلاش کی گئی تو انجنیئرغائب،کافی دیر بعد کسی نے کھائی میںکسی انسانی باڈی کی نشاندہی کی اور جب دیکھا گیا تو وہ وہی انجنیئر تھا جس نے دنیا کی سب سے بڑی ٹنل کا سروے کیا اور اس کی فزیبلٹی تیا ر کی اور مقررہ مدت تک اپنی کمٹمنٹ پوری نہ ہونے کی صورت میں ندامت سے بچنے کے لیے پہاڑ کی چوٹی پر سے چھلانگ لگا دی،یہ اور اس جیسے کئی واقعات ملیں گے مگر تمام کے تمام گوروں کے ہاں،اگر آج کے پاکستان کے حکمران یا ذمہ داران ہوتے تو یقینناً درمیان میں ہی چھوڑ کر کس نئی طرف سے شروع کرا دیتے اور اگر پھر بھی کامیاب نہ ہوتے تو پہاڑ سے چھلانگ لگا نا تو دور کی بات آنکھیں تک نیچی نہ کرتے،اپنے ملک میں بڑی سے بڑی آفت اور مصیبت یا حادثے پہ ذمہ داران یوں بغلیں جھاڑ دیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں،یہاں ریل کا حادثہ دو سو افراد کو اگلے جہان پہنچا دیتا ہے اور وزیر ریلوے کہتا ہے کیوں جی میں کیوں شرمندہ ہوں میں کوئی اس ٹرین کا ڈرائیور ہوں جو استعفیٰ دوں، خودمختاری کی تو بات ہی نہ کریں اپنے آپ کو شرمندہ کرنے سے کیا حاصل،ریمنڈ ڈیوس اور ایبٹ آباد آپریشن اور چیختے چھنگاڑتے ڈرون مگر سوال کس سے کریں اور کس کس کو جنجھوڑیں، ایک ایک حادثے اور دھماکوں میں سینکڑوں لوگ اپنی جان سے جاتے ہیں مگر کسی کے کا ن پر جوں تک نہیں رینگتی ، ایک ناکارہ بس میں ایک سو دس بچے بٹھا دیے جاتے ہیں اور جب وہی بس کھائی میں گر جاتی ہے اور ساٹھ گھروں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں مگر موٹر وہیکل ایگزامینر تک بھی جھر جھری تک نہیں لیتا مگر ان سب سے صرف یہی سوال ہے کہ کیا خوجک ٹنل کا انجنیئر کدال لے کے خود ٹنل کھود رہا تھا،مگر میں نے پہلے کہا شروع میں کہ جس کے قوم کے پاس ندامت اور کمٹمنٹ نہ ہو اس کا حشر ایسا ہی ہو تا ہے جیسے آج ہمارا ہے،اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہم پر رحم فرمائے،،،،