یہ یکم جنوری 2013ءکی ایک
سرددوپہر ہے مگرزندگی اپنے مخصوص اندازمیں رواں دواں ہے ، آئی جی آفس
میںپنجاب کے دوردرازشہروں سے آئے آرپی او،ڈی پی اوحضرات اور اہلکارایک
تقریب میںشریک ہیں اوربڑے والہانہ پن سے اپنے قابل آئی جی حاجی حبیب الرحمن
کی راہ دیکھ رہے ہیں،آج وہ ریٹائرڈہورہے ہیں ۔ہمارے ہاں ڈوبتے سورج کوکوئی
نہیں پوچھتا بلکہ جس کاسورج طلوع ہوتاہے لوگ اس کی پذیرائی کرتے ہیں مگراس
کے برعکس حاجی حبیب الرحمن کیلئے وہاں موجودہرخاص وعام کے دل میں محبت
اورعزت قابل دیداورقابل رشک ہے ۔آئی جی پی اپنے مقررہ وقت پرآگئے ، جہاں ان
کے چہرے پرخوشی کے کئی رنگ بکھرے ہوئے ہیں وہاں ان کی آنکھوں سے اداسی بھی
صاف جھلک رہی ہے ۔ وہ مسلسل اپنے ٹیم ممبرز اوراہلکاروں کے چہروں کوشفقت سے
دیکھ رہے ہیں۔کئی دہائیوں کی رفاقت اورمحبت کے بعدبچھڑناآسان نہیں ہوتا۔کچھ
دیرکیلئے انہیں کسی فاتح کی طرح کندھوں پراٹھا لیا گیا۔ معروف روحانی شخصیت
عبداللہ خاں بھٹی ، میاں ذوالفقار راٹھور، ٹریڈریونینزکے لیڈرچودھری عظمت
علی اور حبیب اللہ بھٹی سمیت کئی اہم شخصیات بھی اس پروقارتقریب میں شریک
ہیں اوران کی آنکھوں میں حاجی حبیب الرحمن کیلئے بیحد محبت اورعقیدت صاف
دیکھی جاسکتی ہے، تقریب میںشر یک مختلف افراد کی طرف سے اپنے اپنے اندازمیں
حاجی حبیب الرحمن کی اپنے ادارے کے ساتھ کمٹمنٹ اورمختلف عہدوں پران کی
گرانقدر خدمات کوسراہاجارہا ہے ۔اب آئی جی پی بڑے اعتماداورافتخارکے ساتھ
چبوترے پرکھڑے ہوگئے ہیں،پولیس بینڈ نے اپنی میٹھی دھنوں سے ماحول کو
مزیدخوبصورت بنادیاہے ۔ باوردی اہلکار حاجی حبیب الرحمن کوالوداعی سلامی دے
ر ہے ہیں۔آرپی اوگجرانوالہ کیپٹن (ر)محمدامین وینس سمیت اس تقریب میں شریک
بیشتر آفیسر اداس ہیں جبکہ کئی اہلکاروں کی آنکھوں کاپیمانہ چھلک رہا
ہے۔بحیثیت آئی جی پی حاجی حبیب الرحمن اورکیپٹن (ر) امین وینس کے درمیان
احترام اوراعتماد کاایک منفرداورمضبوط رشتہ دیکھنے میں آیاتاہم اس کے پیچھے
کیپٹن (ر)محمدامین وینس کی اعلیٰ کارکردگی اورمسلسل خدمات کادخل رہا جبکہ
حاجی حبیب الرحمن کوبھی ایک جوہرشناس مانا جاتا ہے ۔کیپٹن (ر) امین وینس کی
کامیابی کے کئی رازوں میں سے ایک رازیہ بھی ہے کہ وہ دن بھردفترمیں بیٹھ
کرمکھیاں اورخوش گپیاں نہیں مارتے بلکہ اپنے ماتحت آفیسرزاوراہلکاروں کی
ڈیوٹی اوران کی مشکلات کوبراہ راست خودمانیٹر کرتے ہیں ۔راقم کوبھی ایک
دوبار ان کے کام کونزدیک سے دیکھنے کااتفاق ہوا ہے وہ بڑے منفردسٹائل جبکہ
منظم اورموثرانداز سے کام کرتے ہیں،گجرانوالہ ڈویژن میں ان کاطوطی اوران
کاکام بولتاہے۔کیپٹن (ر)امین وینس کو ان کی قائدانہ وانتظامی صلاحیتوں کے
اعتراف میں اورخطرناک مجرموں کا ناطقہ بند کرنے پر آئی جی پنجاب حاجی حبیب
الرحمن نے کئی بار نقدانعام دیا اورعوام سے بھی انہیں خوب دادوتحسین
ملی۔کیپٹن (ر) امین وینس کوٹیم ورک کی صورت میں کام کرنے سے بہت کامیابی
ملی۔ان کاحسن اخلاق ان کی کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے،کیپٹن (ر) امین وینس کے
مطالعہ کاشوق اورعمدہ ذوق ان کی گفتگومیں جھلکتا ہے۔امین وینس کے دماغ میں
ریاست ،معیشت اورمعاشرت کے مختلف شعبہ جات اورانسانی موضوعات سے متعلق
سیرحاصل معلومات کاقیمتی خزانہ محفوظ ہے ۔آئی جی آفس کی قابل ڈی پی آر
نبیلہ غضنفر کوبھی ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی پرسابقہ آئی جی پنجاب حاجی
حبیب الرحمن کی طرف سے نقدانعام دیا گیاجس کی وہ بجاطورپرمستحق تھیں۔جہاں
ایک دوسرے کی صلاحیتوں کااعتراف کیا اورکارکردگی کوبھرپوراندازسے سراہا
جاتا ہے وہاں کام کے معیاراوراس کی رفتارمیں دن بدن مزید بہتری آتی
ہے۔نبیلہ غضنفر ایک خاتون ہوتے ہوئے پولیس کے حوالے سے معاشرے میںپھیلی
تلخیاں اور غلط فہمیاں دورکرنے کیلئے کوشاںہیں،اس سلسلہ میں حاجی حبیب
الرحمن کے بھرپوراعتماد اوران کی طرف سے ملے فری ہینڈ نے بھی ڈی پی آر کے
کام کوآسان اوربہترین بنادیا ۔
ایڈیشنل آئی جی اورساتھ ساتھ قائم مقام آئی جی پنجاب خان بےگ، ایڈیشنل آئی
جی ٹریفک کلب عباس،زیرک اورانتھک ایڈیشنل آئی جی کمانڈنٹ پنجاب کانسٹیبلری
ملک احمدرضاطاہر،فرض شناس اورمردم شناس ایڈیشنل آئی جی پٹرولنگ ملک خدابخش
اعوان، سلجھے ہوئے ایڈیشنل آئی جی فنانس سرمد سعید، ایڈیشنل آئی جی ٹریننگ
مبارک علی اطہر، ایڈیشنل آئی جی ( سی ٹی ڈی) مشتاق احمد سکھیرا، دبنگ
ایڈییشنل آئی جی( سپیشل برانچ پنجاب) ناصر خان درانی ، ایڈیشنل آئی جی
انوسٹی گیشن شیخ نسیم الزمان نے تقریب میں حاجی حبیب الرحمن کو الگ الگ سو
وینیئرپیش کئے۔آرپی اوگجرانوالہ کیپٹن (ر)محمدامین وینس،سی سی پی
اولاہوراسلم خان ترین، ڈی آئی جی آپریشنزلاہور رائے محمد طاہر،آرپی
اوشیخوپرہ ذوالفقاراحمدچیمہ ،آرپی اوفیصل آبادآفتاب احمدچیمہ ،آرپی
اوسرگودھا امجدجاویدسلیمی ،آرپی اوساہیوال محمدفاروق مظہرخان،آرپی اوبہاﺅلپورسردارعلی
خان،آرپی اوڈی جی خان محمدنوازوڑائچ، ڈی پی اوقصورسیّدخرم علی شاہ،ڈی پی
اوجھنگ اخترحیات لالیکا،ڈی پی اوسیالکوٹ افضال احمد کوثر،ڈی پی اوفیصل
آبادبلال صدیق کمیانہ ،ڈی پی اوننکانہ غلام مبشرمیکن ،ڈی پی اوشیخوپورہ
عبدالجبار،پولیس کالج چوہنگ کے انتھک،پیشہ ور اورنڈر کمانڈنٹ ڈاکٹرسلیمان
سلطان راناجو وہاں چندماہ کے اندر اندر ڈسپلن قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں
،لاہور کے متحرک سی ٹی او کیپٹن (ر)سہیل چودھری،ایس پی چودھری
ذوالفقاراحمد،ایس پی شعیب خر م جانباز،ڈی ایس پی عاطف حیات،ڈی ایس پی حاجی
عباس،ذوالفقاربٹ اورعاطف معراج سمیت کئی دوسرے آفیسرز نے بار ی باری آئی جی
حاجی حبیب الرحمن کو گلے لگایا اورانہیں بڑے آبرومندانہ اندازسے رخصت کیا ۔بحیثیت
آئی جی حاجی حبیب الرحمن کے دامن پربدعنوانی اوربدنامی کاکوئی داغ نہیں
لگا،ان کے ماتحت آفیسراوراہلکاران سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ سچے دل سے ان
کااحترام کیاجاتا تھا۔حاجی حبیب الرحمن کی بیشتر اصلاحات کامثبت نتیجہ
برآمدہوا ،وہ پولیس فورس پرعوام کے اعتماد کی بحالی اورمجرمانہ سرگرمیوں کے
گراف میں کمی کامشن لے کرآئے تھے جس میں انہیں خاطرخواہ کامیابی ملی ۔انتھک
اورہرمعاملے میں بہترین رزلٹ دیکھنے کے خواہاں شہبازشریف کے ساتھ کام
کرنااوران کے اعتماد پرپورااترنابلاشبہ معنی رکھتا ہے۔حاجی حبیب الرحمن کی
خوش اخلاقی اورانکساری مشہور ہے مگراس کے باوجود وہ حق بات پر ڈٹ جاتے تھے
اورپھر ہرقسم کے دباﺅکے باوجود ان کافیصلہ تبدیل نہیں ہوتا تھا ۔حاجی حبیب
الرحمن نے شہریوں کی عزت نفس مجروح ہونے دی اورنہ اپنے آفیسرزاوراہلکاروں
کامورال گرنے دیا۔ حاجی حبیب الرحمن نے باضابطہ ریٹائرمنٹ سے قبل نہ صرف
سرکاری گھر خالی کردیا بلکہ اپنے زیراستعمال سرکاری گاڑی بھی واپس کردی
ورنہ ہمارے ہاں مرے ہاتھی کی طرح ریٹائرڈ آفیسرکی قدروقیمت بڑھ جاتی ہے
اورمسلسل کئی کئی سال تک سرکاری گھر ان کے استعمال میں رہتا ہے ۔دوسرے
اداروں کی طرح پولیس فورس میں بھی بدوں اوربروں کی موجودگی سے انکار نہیں
کیا جاسکتا مگریہ ادارہ اتنابدنہیںجتنااسے بدنام کیا جاتا ہے کیونکہ
پاکستان میں روزانہ ہونیوالی بیس بائیس ارب روپے کی کرپشن میں پولیس والے
نہیں ہمارے حکمران اورسیاستدان ملوث ہیں۔ایک طرف منتخب نمائندے ہیں
جوماہانہ لاکھوں روپے اعزازیہ وصول کر تے اورمختلف مراعات سے مستفیدہوتے
ہیں اوردوسری طرف پولیس اہلکار ہیں جوڈیوٹی کے دوران رات اور دن کافرق نہیں
دیکھتے مگرانہیں چندہزارروپے تنخواہ ملتی ہے اوروہ اپنے فرض کی بجاآوری کے
دوران اپنے سینوں پرگولیاں اورعوام کی گالیاںبھی کھاتے ہیں ،اگرپولیس نہ
ہوتوہمارامعاشرہ جنگل بن جائے۔ہم اپنے پولیس اہلکاروں سے ''را''کے ایجنٹوں
سے زیادہ شدیدنفرت کرتے ہیں۔عدالتوں اوراسمبلیوں میں آئے روز پولیس
پربحیثیت ادارہ تنقیداوراس کی توہین کی جاتی ہے جبکہ پولیس اہلکار ان ججوں
اورحکمرانوں کی حفاظت پرمامورہوتے ہیں۔پولیس کوکسی اورنے نہیں خودہم نے
بدعنوانی پرلگایا ہے ،ہم اپنے جائزوناجائزکام کیلئے محض اپنا وقت بچانے
یااپنے دشمن کوزچ کرنے کیلئے رشوت دیتے ہیںاوریوں ہم نے اپنے معاشرے کو
رشوت کی صورت میںجہنم کاایندھن بنا دیا ہے،اگرعوام حق پرہوں اورانصاف کیلئے
ڈٹ جائیں توکسی پولیس والے میں اتنادم خم نہیں کہ وہ ان سے رشوت مانگے ۔ہمارے
معاشرے میں تصویرکاایک رخ دیکھ کرمحض رائے قائم نہیں کی جاتی بلکہ فیصلہ
کرلیا جاتا ہے ۔ہم پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں بندوق اورڈنڈا تودیکھتے
ہیں مگرجوحکمران اورسیاستدان ان کی ڈوریاں ہلاتے اوران سے اپنے ناجائز کام
کراتے ہیں انہیں ان دیکھا کرتے ہوئے بار بار منتخب کرلیا جاتا ہے۔تھانوں کے
اندرونی اخراجات کیلئے صوبائی حکومت سے فنڈز نہیں ملتے بلکہ پولیس والے
اپنی مددآپ کے تحت پورے کرتے ہیں اورپھریہ بوجھ رشوت کی صورت میںشہریوں
پرڈال دیا جاتا ہے۔اگرصوبائی حکومت تھانوں کوگاڑی کے پٹرول اوراس کی
مرمت،سٹیشنری اوردوسری ضروریات کی فراہمی یقینی بنادے تویقیناشہریوں کورشوت
سے کافی حدتک نجات ملے گی ۔
ایڈیشنل آئی جی خان بیگ قائم مقام آئی جی پنجاب کی حیثیت سے کام کررہے ہیں
مگرابھی تک کسی کو مستقل آئی جی پنجاب نہیں لگایا گیا ۔خان بیگ کوجاننے
والے ان کی انتظامی اورقائدانہ صلاحیتوں کے مداح ہیں۔اپنے پیشروحاجی حبیب
الرحمن کی طرح خان بیگ بھی ڈسپلن اورقانون کی حکمرانی پرسمجھوتہ نہیں کریں
گے ۔آئی جی پنجاب کی بااختیاراورطاقتور سیٹ کیلئے پنجاب اورمرکز کے درمیان
زورآزمائی جاری ہے لیکن ا ٓئینی طورپرآئی جی لگانے کامینڈیٹ پنجاب حکومت کے
پاس ہے اور شہبازشریف اس معاملے میں بہت حساس ہیں، وہ بہت سوچ
بچاراورمشاورت کے بعدفیصلہ کر تے ہیں یقیناانہیں اپنے ساتھ خان بیگ کی صورت
میں ایک انتھک اورنڈرآئی جی کی ضرورت ہے جوتھانہ کلچر کی تبدیلی
اوربدعنوانی کے سدباب کاخواب شرمندہ تعبیرکرے ۔ خان بیگ کوآئی جی پنجاب
مقررکئے جانے کاقوی امکان ہے ، انہوں نے کئی عہدوں پربڑی کمٹمنٹ اورعمدگی
سے کام کیا ہے ۔ شہبازشریف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو ہیں اگر وہ آئی جی پی
کیلئے کسی آفیسر کا نام تجویزکرتے ہیں تو وفاق اعتراض یاانکار کرنے کاحق
نہیں رکھتا۔ امیدہے خان بیگ پولیس پرعوام کے اعتماد کی بحالی کیلئے وہیں سے
اصلاحات پرکام شروع کریں گے جہاں حاجی حبیب الرحمن نے چھوڑا تھا۔ |