دنیا بھر میں مختلف مصنوعات بنانے والی
کمپنیز اپنی مصنوعات کی تشہر کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتی ہیں تاکہ
صارف کو اپنی جانب متوجہ کیا جائے اس کے لیے رنگا رنگ قسم کے اشتہارات
بنائے جاتے ہیں ،اور اس میں اپنی پروڈکٹ کی خصوصیات کو نمایاں کیا جاتا
ہے۔اور بتایا جاتا ہے کہ کمپنی کی فلاں چیز صارف کے لیے کیوں ضروری ہے۔یا
فلاں چیز نہ ہونے سے صارف کو کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔مصنوعات کی پبلسٹی کے
لیے ہر دور میں دستیاب ذرائع استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ٹی وی کی آمد سے
پہلے ریڈیو، اخبارات اور رسائل اس کا ذریعہ ہوتے تھے۔ پہلے جو اشتہارات
بنائے جاتے تھے تو وہ “ مختصر، پر اثر“ کے فارمولے پر بنائے جاتے تھے۔جس
میں چند سیکنڈ کے اشتہار میں اپنی پوری بات کہہ دی جاتی تھی اور اپنی
پروڈکٹ کی پبلسٹی کی جاتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ اس میں ترقی ہوتی گئی اور
اشتہارت چند سیکنڈوں سے بڑھ کر منٹوں پر محیط ہونے لگے لیکن بنیادی چیز
مصنوعات کی خصوصیات کو نمایاں کرنا ہوتا تھا۔
لیکن پھر اس میں آہستہ آہستہ زوال آنا شروع ہوا اور اشتہارات میں فحاشی کا
عنصر بڑھتا گیا۔اس میں عورت کو بطور شو پیس استعمال کرنےکا رجحان بڑھتا گیا،
یعنی سگریٹ کے اشتہار میں عورت، موٹر سائیکل کے اشتہار میں عورت، مرادانہ
کپڑے کے اشتہار میں عورت، یہاں تک کہ شیونگ کریم اور بلیڈ تک کے اشتہار میں
عورت کو استعمال کیا گیا۔ آزادی نسواں اور ترقی کے نام پر عورت کا استحصال
کیا گیا۔
گزشتہ عشرے میں پاکستان میں انٹرنیٹ، موبائل فونز اور پرائیوٹ ٹی وی چینلز
کی بھر مار کے باعث اشتہار سازی کی صنعت میں بھی ترقی ہوئی اور اس میں
مقابلے کا رجحان پیدا ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ باقاعدہ
ایک پلاننگ کے تحت اشتہارات میں فحاشی کا عنصر بڑھتا چلا گیا اور اب یہ حال
ہے کہ ہے تین تین منٹ کے اشتہارات چلائے جاتے ہیں اور ان اشتہارات میں
مطلوبہ شے کی خصوصیات کے بجائے سوائے بےہودگی، فحاشی، مخلوط سوسائٹی کے اور
کچھ بھی نہیں ہوتا۔
تھوڑی دیر کے لیے غور کریں کہ ایک ٹیٹرا پیک دودھ کا اشتہار ہے اور اس میں
بلاوجہ ایک فلمی ادکارہ اور ایک گلوکار کو ٹھونس کر اور ان کا بے ہودہ ناچ
گانا دکھا کر کیا ثابت کیا جارہا؟ جبکہ اس پورے اشتہار میں نہ تو یہ بتایا
گیا ہے کہ یہ دودھ کس کپمنی کا ہے؟ اس میں کیا کیا اجزاء شامل ہیں؟ اور یہ
دودھ مارکیٹ میں موجود دیگر ٹیٹرا پیک دودھ سے کس طرح مختلف ہے؟سارا زور
صرف ناچنے پر لگا دیا گیا ہے۔ موبائل کمپنیوں کے اشتہارات اس حوالے سے سب
سے بڑھ کر ہیں۔ ٹیلی نور کمپنی کے اشتہارات میں تو سوائے سطحی جنسیت اور بے
ہودگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔( شائد کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو
یہ ان کا اپنا نظریہ ہے ) ذرا غور کریں ایک اشتہار میں یہ سبق دیا جارہا ہے
کہ اگر کسی نوجوان نے کسی غیر محرم خاتون سے ناجائز تعلق برقرار رکھنا ہے
تو اس کو ٹیلی نار کی سم لینی پڑے گی۔کیوں کہ اشتہار کے مطابق تانیہ سے بات
کرنے کے لیے وہی سم کافی ہوتی ہے، یا پھر ایک نیا کنکشن چاہیئے ہوتا ہے ٹاک
شاک کا۔اسی طرح جاز کے اشتہارات میں بھی اس سے ملتی جلتی چیزیں ہی ہوتی ہیں۔
یہی حال دوسری کمپنیز کے اشتہارات کا ہے۔
آج ٹی وی پر خواتین کے مخصوص مسائل سے متعلق اشتہارات چلتے ہیں اور سارا
گھر بہن بھائی، ماں بیٹا، اور باپ بیٹی بیک وقت یہ اشتہارات دیکھتے ہیں۔آج
ہمارے گھروں میں ہمارے سامنے ہماری بہن بیٹیوں کو مانع حمل ادویات اور اور
مصنوعات کا طریقہ استعمال بتایا جاتا ہے۔ میں نے اور آپ نے کبھی غور کیا ہے
کہ اس کا کیا مقصد ہے، اور آج ہمارے اخلاقیات پر اس کے کیا اثرات مرتب
ہورہے ہیں؟ جی دل تھام کر سنئیے اس کا مقصد میری اور آپ کی بہنوں، بیٹیوں
کو بے راہ روی کی جانب مائل کرنا ہے۔اس کا مقصد میرے اور آپ کے بھائیوں کو
حرام کاری کا محفوظ راستہ دکھانا ہے۔ اور آج ہمارے معاشرے میں یہ باتیں نظر
بھی آرہی ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے آج سے قریباَ ساٹھ سال پہلے
اپنی کتاب “اسلام اور ضبط ولادت “ میں اسی بات کی طرف نشاندہی کی تھی کہ
برتھ کنٹرول کے نام پر جو مانع حمل ادویات اور مصنوعات عام کی جارہی ہیں تو
اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ چیزیں صرف شادی شدہ لوگ ہی استعمال کریں گے
اور غیر شادی شدہ لوگ اس کو استعمال نہیں کریں گے بلکہ اس بات کا غالب
امکان ہے کہ شادی شدہ سے زیادہ غیر شادی شدہ لوگ اس کو زیادہ استعمال کریں
گے ۔ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کر کے بتائیں کہ کیا آج یہی صورتحال نہیں ہے ؟
بات ہورہی تھی اشتہارات کی تو بات دراصل یہ ہے کہ آج کل کے اشتہارات اور
پروگرامات دراصل ایک طرح کی سلو پائزنگ ہے۔ یعنی آہستہ آہستہ ہمیں بے حس
کیا جارہا ہے۔ کل ہم نے اشتہارات میں مرد و عورت کو ایک ساتھ دیکھا آہستہ
آہستہ ہم اس کے عادی ہوگئے، پھر اس میں ایک قدم آگے بڑھ کر بہبود آبادی کے
ڈھکے چھپے اشتہارات کو دیکھا، شروع میں ہمیں تھوڑی سی شرمندگی ہوئی لیکن
پھر ہم اس کے بھی عادی ہوگئے۔ اس کے بعد اشتہارات میں عورت اور مرد کی
مخلوط محفلیں دکھائی گئیں ہم نے اس کا بھی نوٹس نہیں لیا۔اس کے بعد بہبود
آبادی کے اشتہارات مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیے جانے لگے ہم اس کے بھی عادی
ہوگئے۔اور اس کے بعد مزید تباہی کی جانب یہ قدم اٹھا کہ خواتین کے مخصوص
مسائل پر اشتہارات پیش کیے جانے لگے ہم اس کے بھی عادی ہوگئے۔ اب جو خطرناک
رجحان اس میں آرہا ہے وہ نمبر ایک لباس کا آہستہ آہستہ مختصر ہونا، ہر کام
میں ناچ گانے کا ہونا (اور اس میں بناسپتی گھی کے اشتہارات سر فہرست ہیں جس
میں آج کل گھروں میں خواتین کو ڈانس کرتے ہوئے، جھومتے ہوئے کھانا پکاتے
ہوئے دکھایا جاتا ہے۔)اور مرد وزن کے تعلقات اور مخلوط سوسائٹی کو عام کیا
جارہا ہے، کنڈوم کلچر کو خوشنما بنا کر پیش کیا جارہا ہے ( آج کل ایک گانے
کی صورت میں اس کا ایک اشتہار باقاعدگی سے پیش کیا جارہا ہے) کل ہم اس
کےعادی ہوجائیں گے تو اس کے بعد اگلا قدم کیا ہوگا اس کا اندازا لگانا مشکل
نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس چیز کا سد باب کیا جانا چاہیے۔اس کی
مذمت کی جانی چاہیے، اخبارات میں اس پر مراسلات لکھے جائیں، ٹی وی پر لائیو
ٹیلیفون کالز کر کے اس کی طرف نشاندہی کی جانی چاہیے۔ جب ہی ہم اپنے معاشرے،
اپنی ثقافت اور اپنی نئی نسل کو تباہی سے بچا سکتے ہیں |