گزشتہ چند
سالوں میں زرائع ابلاغ(اخبارات، ٹی وی، ریڈیو، وغیرہ) نے بلاشبہ کافی ترقی
کی ہے اور اس کی وجہ سے ہر معاشرے میں بہتری آئی ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں
کو اپنی کوتاہیوں اور کارگردگی سے آگاہی بھی اس کی بدولت حاصل ہوتی ہے اور
وہ اسی لحاط سے مستقبل کے لئے اپنی حکمت عملیاں اور اقدامات اٹھاتی ہیں۔
زرائع ابلاغ کی وجہ سے ہی حکومتیں اپنی بات عوام تک پہنچاتی ہیں۔ لیکن
دیکھنے میں آیا ہے کہ زرائع ابلاغ کی آزادی کی وجہ سے بہت سے معاشرتی مسائل
پیدا ہورہے ہیں۔نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں زرائع ابلاغ کی آزادی پر
سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں زرائع ابلاغ (بالخصوص ٹیلی ویزں) نے بہت
سے نوجوانوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ مجرموں اور بدکردار لوگوں کے بارے میں
پروگرام پیش کیے ہیں جس سے نت نئے جرائم کے طریقہ کار سامنے آئے ہیں۔ کوئی
ڈرامہ یا گانے کی وڈیو ایسی نہیں ہے جس میں صنف مخالف نہ ہو(یعنی انکے بغیر
کچھ بھی ممکن نہیں)، سب سے بڑھ کر محبت پر مبنی ڈراموں نے ناپختہ ذہنوں پر
بھی بہت برا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے وہ عملی طور پر ویسا ہی کرنے کی کوشش
کر تے ہیں۔ہمارے اخبارات ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ ڈراموں میں قیمتی
موبائل فونز اور گاڑیوں و ملبوسات سے متاثر ہونے والے نوجوانوں نے ان سب کے
حصول کے لئے چھوٹی موٹی وارداتوں میں ملوث ہونا ضروری سمجھا ہے۔ موبائل
فونز کے چھینے والے واقعات ہمارے سامنے ہیں جوان نسل یہ محض لطف واندوز
ہونے کے لیے کر رہی ہےکیا؟ لڑکیاں بھی لڑکوں کی مانند اس قسم کی سرگرمیوں
میں ملوث ہیں اگرچہ انکی تعداد لڑکوں نسبت زیادہ نہیں ہے لیکن بوائے فرینڈز
کے تصور کے بارے میں ذرائع ابلاغ نے ہی راغب کیا ہے؟
جس طرح سے فلموں اور ڈراموں، افسانوںمیں ہیرو اور ہیروئین ملتے ہیں اسی طرح
کے واقعات نہ صرف کراچی کے مزار قائد بلکہ پاکستان کے چند دیگر معروف
مقامات پر دیکھنے میں آرہے ہیں؟ جس کی وجہ سے شریف لوگوں کا پارکوں میں
جانا محال ہوگیا ہے؟ چند روز قبل پنڈی کے ایک پارک میں مجھے جس قسم کا منظر
دیکھنے کو ملا ہے اس کے بعد سے میرا دل پارکوں میں جانے سے یکسر انکاری ہے؟
کم از کم الیکٹرانک میڈیا کو اپنے انداز و اطور میں ضرور تبدیلی لانی ہوگی
بصورت دیگر ہمیں اپنے ذہنوں اور سوچوں کو تبدیل کرنا ہوگا؟
جس طرح سے مختلف دنوں(محبت کا عالمی دن وغیرہ وغیرہ) میں اخبارات خصوصی
ضمیمے شائع کرتے ہیں وہ بھی نواجون نسل کے ذہن کو خراب کرتے ہیں محض چند
لوگوں کی تسکین کے لئے لاکھوں کے ذہنوں کو خراب کرنا اچھی بات نہیں ہے اس
سلسلہ میں متعلقہ لوگوں کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔اور اشتہارات شائع
کرتے وقت بھی خیال رکھا جائے کہ لباس میں ستر پوشی کا خاطر خواہ خیال رکھا
گیا ہو۔ معیاری اور اخلاق کو سنوارنے والی تحریریں شامل اشاعت کی جائیں۔اور
ریڈیو پر اخلاق سوز گانے نہ نشر کیے جائیں ابھی پاکستانی گانوں کا حال کچھ
اچھا ہے اوپر سے بھارتی گانوں کے کیا کہنے ہیں جو آجکل ہر جگہ بچ رہے ہیں
اس سلسلہ میں بھی کوئی واضح حکمت عملی تیاری کی جائے۔
یہ انسان فطرت میں ہے کہ انسان برائی کی جانب جلدی راغب ہوتا ہے لیکن ہم ہر
بات قسمت پر نہیں ڈال سکتے ہیں بعض اوقات کسی کی غلط رہنمائی اورترغیب بھی
برائی کی دلدل میں دھکیل سکتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ذرائع ابلاغ ایسی
حکمت عملی ترتیب دے جس سے مثبت قسم کے اثرات نوجوانوں پر مرتب ہوں اور اپنی
زندگی کے لئے اور ملک وقوم کے لئے بھی اچھے اچھے کام سر انجام دیں سکیں۔ |