انقلابی نظریات اور پیغمبر انقلاب

انقلاب کسے کہتے ہیں ؟ انقلاب کیسا ہونا چاہیے ؟ اور کیسے آئے گا ؟ بہت اہم سوالات ہیں ۔ آج ساری دنیا میں انقلاب لانے بلکہ ” برپا “ کرنے کے لیے مختلف سیاسی ومذہبی جماعتیں اور تحریکات معرض وجود میں آرہی ہیں ۔ عموماً اسلامی ممالک میں جبکہ پاکستان میں خصوصاً انقلاب کا نام زبانِ زد عام ہوگیا ہے ۔
انقلاب کہتے ہیں کسی قوم بحیثیت قوم کے دماغ اور قلوب کا ایک حالت سے نکل کر دوسری حالت میں بدل جانا ۔ اور انقلاب ایسا ہونا چاہیے کہ قوم سے معاشرتی برائیوں کا عنصر نکل جائے اور اچھائی کا عنصر اس کی جگہ لے لے ۔

تیسرا سوال سب سے اہم ہے کہ یہ انقلاب کیسے آئے گا ؟ اس بارے میں تاریخ کے اوراق میں پھیلی ”داستانِ انقلاب “ کو سمیٹا جائے تو چند نظریے سامنے آتے ہیں ۔

پہلا نظریہ :
کسی نے بھوک وافلاس اور تنگدستی کو بڑھتا ہوا دیکھا تو انہوں نے اسباب دولت کی فراہمی کو نقطہ انقلاب قرار دیا اور یہ کہا کہ دولت کمائو اور ہر جائز وناجائز ، حلال وحرام کی قیود سے بالا تر ہوکر خواہ سودی نظام سے ہو یا رشوت خوری سے طریقہ آمدن کوئی بھی اس کی پرواہ کیے بغیر دولت کما کر مفلوک الحال اور بے بس انسانیت کی بھوک کو مٹانا ہی اس وقت کا” حقیقی انقلاب “ہے ۔

دوسرا نظریہ :
یہ سامنے آتا ہے کہ جہالت اور جدید ٹیکنالوجی و علوم وفنون سے دوری ہمیں بحیثیت قوم پیچھے دھکیل رہی ہے ۔ لہٰذا ایسے انقلاب کی راہ ہموار کی کہ سب لوگ تعلیم یافتہ ہوں ۔ ہاں اس کی پرواہ بھی نہ کی جائے کہ معیارِ تعلیم کیسا ہو ؟ بنیادی اکائی توحید خداوندی سے الگ تھلگ رہ کر بھی تعلیم وتعلم کا تاج سر پر سجایا جا سکتا ہے ۔ نبوت ورسالت کی راہنمائی لیے بغیر بھی بلکہ ان سے مخالفت کر کے بھی ”مخلوط نظام تعلیم “ عام کیا جائے تاکہ انقلاب کا یہ عمل تشنہ نہ رہ جائے۔

تیسرا نظریہ :
یہ ہے کہ اصل در پیش مسئلہ تو غلامی ہے جب تک آزادی ہر طرح کی آزادی اور ہر قاعدے اور ضابطے سے آزادی حاصل نہ کر لی جائے انقلاب کی روح رونما نہیں ہوسکتی لہٰذا حریت اور آزادی کی مالا پہنے بغیر ”حقیقی انقلاب “ کبھی نہیں آسکتا ۔اس لیے بلا امتیاز اچھے اور برے حکمرانوں سے ٹکرا کر اپنی آزادی حاصل کرو اور ”میں نہیں مانتا“ کا اصول ہر منصف اور جابر حکمران کے سامنے کہہ ڈالو۔

چوتھا نظریہ :
یہ بھی اپنایا جا رہا ہے کہ انقلابی مفکرین کے گروہ اختلاف و افتراق کو قوم کی ذلت اور پسماندگی کا سبب بتلارہے ہیں اور اس مسئلے کو حل کیے بغیر کسی صورت میں قوم کو انقلاب کی معنویت سمجھانے سے قاصر ہیں ۔ ان کے ہاں جب تک اتحاد و یکجہتی اور اتفاق کی فضائیں چلانا ہی اصل انقلاب کہلاتا ہے بھلے وہ اتحاد کسی سے بھی ہو …… دین دشمن سے ہو یا انسانیت کے دشمن سے بس سب سے بنا کر رکھنے میں ہی انقلاب کا راز مضمر سمجھتے ہیں ۔

یہ سب اپنی جگہ ! بھوک وافلاس کو ختم کرنا ضروری ہے، جہالت اور جدید علوم سے دوری کی خلیج کو پاٹنا بھی بے شک ضروری ہے ، غلامی کی زنجیروں کو توڑنا بھی لازمی ہے اور اختلاف و افتراق کی دبیز چادر کو پھاڑنا بھی ضروری ہے ۔

لیکن کیسے ؟
پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے انی رسول اللہ کا عالمگیر نعرہ لگا کر قرآن کریم جیسا ابدی دستور تھامے فاران کی چوٹیوں پر لوگوں کو یہ خطاب نہیں فرمایا تھا کہ تمہیں بھوک وافلاس نے تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے تنگ دستی تمہیں ناکامی کی دلدل میں اتار رہی ہے لہٰذا دولت کمائو خوب کمائو جائز وناجائز طریق کار کو اپنا کر کمائو سود اور رشوت سے مت گھبرائو بس اپنی زندگی کا مقصد دولت کا حصول رکھو ۔
اور نہ ہی پیغمبر انقلاب نے جدید علوم وفنون کی تعلیم کے لیے مخلوط ادارے کھولے ۔نہ ہی آپ نے تعلیم کے نام پر صنف نازک کے سر سے حیا و عفت اور پاکدامنی وپاکبازی کے آنچل کو سرکایا ۔

آزادی کی آڑ میں پیغمبر انقلاب کی تعلیمات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ بس غلامی کے طوق کو اتار پھینکنے سے تمہاری آخرت سنور جائے گی اور بس !

اتحاد ملل کے لیے کفار نے یہ منصوبے بھی آپ تک بہم پہنچا دیے کہ ایک دن تم ہمارے خدائوں کی عبادت کرو اور ایک دن ہم تمہارے خدا کی عبادت کر کے اتحاد و اتفاق کی مثال قائم کرتےہیں ۔ آپ ہی بتلا دیں کہ کیا پیغمبر انقلاب نے ان کی ان شرائط کو قبول فرما لیا تھا ؟ نہیں ہر گز نہِیں بلکہ عملاً فرمایا کہ جس کام کے کرنے کا میں حکم دوں اسے کر لو اور جس سے روکوں اس سے باز آجائو ما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتھوا یہ انسانی اور حقیقی انقلاب کی روح اور اساس ہے ۔

اسی اساس پر ہی آج اصلی اور حقیقی انقلاب کی تعمیر ہوسکتی ہے ۔ پھر تاریخ شاہد ہے کہ اس انقلاب کو بار آور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی جماعت دی جس نے ہر میدان میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی مشن کو جان پر کھیل کر پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔

انقلاب لانے والوں کے لیے آقا نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وکردار اور صحابہ جیسی طاعت فرمانبرداری آج بھی لائحہ عمل ہے جو اپنائے گا وہ انقلاب لائے گا اور جس کی زندگی میں سنت کی مہک نہ ہو وہ انقلاب انقلاب کے نعرے لگا کر اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مال ومتاع کا بھی نقصان کر ے گا ۔ جیسا کہ آج تمہارے سامنے ہو رہا ہے ۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 122067 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.