بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(26جنوری قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
لفظ’’آسٹریلیا‘‘لاطینی زنان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’جنوبی علاقہ‘‘ ہے۔یہ
دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کے کچھ جزائربحراوقیانوس اور بحر ہند میں
بھی واقع ہیں۔انڈونیشیا،مشرقی تیمور اور نیوزی لینڈاس سرزمین کے ہمسایہ
ممالک ہیں۔1901میں چھ خطوں پر مشتمل حکومتوں نے باہم مل جانے کا فیصلہ کیا
اور یوں ’’دولت ہائے مشترکہ آسٹریلیا‘‘ وجود میں آئی۔ یہاں آزاد جمہوری
سیاسی نظام ہے جس کے تحت ان چھ علاقوں کے عوام ایک ہی نام سے دنیا میں
پہچانے جاتے ہیں۔آسٹریلیا کی آبادی کم و بیش 22,812,531نفوس پر مشتمل ہے۔یہ
ایک کثیرالقومی مملکت ہے جس میں متعددقبائل کے لوگ صدیوں سے رہائش پزیر
ہیں۔یہ سرزمین زیادہ تر نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے کہیں کہیں وسیع
جنگلات بھی ہیں۔بیسویں صدی کے وسط سے اس خطہ کی تہذیب امریکہ کے زیراثر
ہے۔صدیوں قبل اس خطے کو جنوب مشرقی ایشیاسے آئے ہوئے ماہی گیروں نے آباد
کیا۔یہ بنیادی طور پر شکاری لوگ تھے۔بعد کے آنے والے دنوں میں ڈچ اور
برطانوی سیاحوں نے بھی یہاں پڑاؤڈالے اور کچھ نے یہاں اپنا سکہ جمانے کی
کوشش بھی کی۔26جنوری1788ء کو برطانیہ نے اسے اپنی باقائدہ کالونی قرار دے
دیا،یہ عمل اگرچہ آسٹریلیا کے جنوب میں کیا گیالیکن جلد یا بدیر آسٹریلیاکے
تمام علاقوں نے اسی نظم کے تحت اپنے آپ کو پرو لیااور کم و بیش ایک صدی کے
اندر اندر پوے آسٹریلوی علاقے ایک ہو گئے۔تب سے یہ تاریخ آسٹریلیا میں قومی
دن کے طور پر معروف ہوئی اورآج تک اس مملکت میں 26جنوری کو ایک قومی تہوار
کی حیثیت حاصل ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے آسٹریلیااوربرطانیہ کے تعلقات کمزور پڑنے لگے اور
یوں آسٹریلیااپنے دفاع کے لیے امریکہ کی چھتری تلے آنے پر مجبورہو
گیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی آسٹریلیانے یورپیوں کے لیے اپنے ملک کے
دروازے کھول دیے۔1970کے بعد آسٹریلیانے یورپیوں کے ساتھ ساتھ باسیان
ایشیااور دنیا کے دیگر خطوں میں بسنے والوں کو بھی اپنی سرزمین پر خوش
آمدید کہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسٹریلیاکی مملکت دنیا بھر کی
تہذیبوں،مذاہب اور مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کی آماجگاہ بن گئی۔اس کثرت
آبادی کا یہ نتیجہ نکلا کہ آسٹریلین ایکٹ 1986ء کی منظوری کے بعد برطانیہ
سے آئینی تعلقات نہ ہونے کی حد تک رہ گئے اور برطانوی حکومت کا آسٹریلوی
ریاستوں میں عمل دخل تقریباََ ختم ہی ہوگیا۔
دولت ہائے مشترکہ آسٹریلیا دراصل ایک آئینی جمہوریہ ہے جووفاقی تقسیم
اختیارات پر مشتمل ہے۔یہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ملکہ ایلزبتھ ثانی یہاں
کی بادشاہی آئینی سربراہ ہے۔مرکز میں گورنرجنرل اورریاستوں میں گورنرزملکہ
کے نمائندوں کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔اگرچہ آسٹریلیاکے گورنر جنرل کے پاس
اختیارات موجود ہیں لیکن یہ صرف وزیراعظم کو مشورہ دینے کی حد تک ہی
ہیں،تاہم ایک بہت ہی اہم اختیارجو گورنرجنرل آسٹریلیاکے پاس ہے وہ حکومت کی
برخواستگی کا ہے اسکے علاوہ ہائی کورٹ کے ججزکی تقرری بھی اسی منصب کا حامل
دارکرتاہے۔حکومت کے تین بڑے بڑے ادارے ہیں ،مقننہ:جس میں دولت مشترکہ کی
پارلیمان جس میں ملکہ،سینٹ اور ایوان نمائندگان شامل ہیں جبکہ ملکہ کی
نمائندگی گورنرجنرل کرتا ہے،انتظامیہ جس میں وزیراعظم اور کابینہ کے وزرا
شامل ہیں اورحکومت کا تیسرا ادارہ عدلیہ ہے جس میں آسٹرلیوی ہائی کورٹس
اوراعلی وفاقی عدالت شامل ہیں۔آسٹریلوی ریاستوں میں نیوساؤتھ ویلی،کوئین
لینڈ،جنوبی آسٹریلیا،طسمانیہ،وکٹوریہ اورمغربی آسٹریلیا شامل ہیں۔دو اہم
علاقے ،شمالی علاقہ اور آسٹریلوی دارالسلطنت بھی شامل ہیں،بہت حد تک یہ دو
علاقے بھی ریاستوں کی طرح کا ہی کردار اداکرتے ہیں۔ہر ریاست کی اپنی
پارلیمنٹ ہوتی ہے چنانچہ ہر ریاست کو آئین کے تحت ایک حد تک اپنی حاکمیت
اعلی کے اختیارات میسر ہیں جس کے تحت وہ اپنے قانونی وانتظامی معاملات کی
دیکھ بھال کرتی ہیں۔ہر ریاست کا نگران وزیراعلی کہلاتا ہے اور ریاست میں
ملکہ کا نمائندہ، گورنر،وہاں کا آئینی حکمران ہوتا ہے جسے محدود اختیارات
حاصل ہوتے ہیں۔
آسٹریلیا کا سرکاری مذہب کوئی نہیں۔سکول کی تعلیم پورے آسڑیلیامیں لازمی ہے
جس کا دورانیہ 6سے 16سال کی عمر تک ہے۔اسی کے باعث یہاں کی شرح خواندگی
99%تک جا پہنچی ہے۔یہاں38کی تعدادمیں سرکاری جامعات ہیں اور بہت ساری نجی
اداروں کے تحت چلنے والی جامعات بھی قائم ہیں جبکہ یہاں کی حکومت سرکاری
اور نجی تمام جامعات کو اپنی طرف سے بھرپورمالی امداد مہیا کرتی ہے تاکہ
تعلیم کا سلسلہ رکنے نہ پائے۔حکومت اپنی بنیادی آمدن کا 4.5%تعلیم پر خرچ
کرتی ہے۔حکومت نے فنی تعلیم پر بھی بے پناہ سرمایاخرچ کیا ہے چنانچہ ایک
سروے کے مطابق 58%آسٹریلوی باشندے فنی تعلیم سے آراستہ ہیں اور یہ
تعداددنیا میں کسی بھی ملک سے سب سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی 4.4%بے
روزگاری کا تناسب بھی موجود ہے۔آسٹریلیا دنیاکا سب سے زیادہ کوئلہ برآمد
کرنے والا ملک ہے ،اسکے علاوہ ہاں پٹرولیم،سونا،چاندی اور کاپر وغیرہ جیسی
دھاتیں بھی بکثرت ہیں۔یہاں 92%سفید نسل کے لوگ اور 7%ایشیائی لوگ آباد ہیں
1%کچھ اور نسلوں کے لوگ بھی ملتے ہیں۔66%عیسائی،1.9%بدھ مذہب کے لوگ
اور1.5%مسلمان آباد ہیں۔یہاں کی اکثریت انگریزی بان ہے اگرچہ چینی اور دیگر
ایشیائی زبانیں بھی بہت کم تعداد میں بولنے والے ملتے ہیں۔گندم،گنامختلف
قسم کے پھل اور مرغی،بکری اور دیگر چوپائے یہاں پائے جانے والے معروف جانور
ہیں۔یہاں 461ہوائی اڈے موجود ہیں جس سے اس مملکت کی خوشحالی کا پتہ چلتا
ہے۔یہاں کی افواج ’’آسٹریلین ڈیفنس فورس ‘‘کے نام سے جانی جاتی ہیں جس میں
آسٹریلین آرمی،شاہی آسٹریلوی بحریہ شاہی آسٹریلوی فضائیہ اورخصوصی دفاعی
دستے شامل ہیں جبکہ دفاع پر ملکی آمدن کاصرف 2.4%خرچ کیا جاتا ہے۔
آسٹریلیا میں اسلام کی آمدکا سراغ سترہویں صدی میں ملتا ہے جب انڈونیشین
مسلمان تاجروں کے تعلقات اس خطے میں موجود لوگوں سے بڑھنے لگے۔اگرچہ اس سے
پہلے بھی افریقی غلاموں کے ساتھ اسلام کے کچھ اثرات اس علاقے میں پہنچے تھے
لیکن تاریخ نے انہیں محفوظ نہیں کیا۔تاہم 1860 میں افغانی باشندوں کی ایک
کثیر تعدادشتربانی کی خاطر یہاں آئی ،انہوں نے یہاں مقامی افراد کے ہاں
شادیاں کیں اور یوں مسلمانوں کی ایک نسل یہاں پروان چڑھنے لگی۔شاید انہیں
کی تعمیر کردہ آسٹریلیا کی پہلی اورقدیمی مسجد جنوبی آسٹریلیا میں آج بھی
موجود ہے۔بوسنیائی اور کوسوویائی مسلمانوں کا بھی یہاں اسلام کے پھیلاؤ میں
بہت عمل دخل رہا ہے۔اس وقت بہت سے مسلمان جو آسٹریلیا میں آباد ہیں یہاں کے
مقامی ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ہیں جن کی اکثریت
نے یہاں کی شہریت بھی اختیار کر لی ہے۔آسٹریلیا کے مسلمانوں نے متعدد
تنظیمیں بھی قائم کر رکھی ہیں جو مسلمانوں کی جملہ ضروریات کاخیال رکھتی
ہیں جن میں مساجد کی تعمیراوربچوں کی دینی تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔1963میں
مسلمانوں کی تمام تنظیموں نے مل کر آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک سوسائیٹیز
کی بنیاد رکھی۔1976میں بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اس میں کچھ تبدیلیاں کی
گئیں اور ہر ریاست کے اندر اس تنظیم کو انتظامی اختیارات میں محدود آزادی
دے دی گئی اورہر ریاست کی اسلامک کونسل کو اسٹیٹ اسلامک کونسل کا نام
دیاگیااور ان کونسلز کے مرکزی نظم کوآسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک
کونسلزکہاجانے لگاجس کا صدر دفترسڈنی میں واقع ہے۔آسٹریلین فیڈریشن آف
اسلامک کونسلزآسٹریلیا کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے جو ملک میں اور
بیرون ملک وہاں کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔وہاں کی مقامی مسلمان
تنظیمیں،علاقائی مسلمان تنظیمیں اورمرکزی مسلمان تنظیمیں سب کی سب رجسٹرڈ
ہیں اور ان میں جمہوری شورائی اسلامی نظام نافذ ہے۔آسٹریلوی مسلمان جو اپنے
ملک کے کثیرالقومی معاشرے کا حصہ ہیں وہ تمام آبادی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ
اسلام کا مطالعہ کرے اوراس دین کو سمجھنے کی کوشش کرے۔یہاں کے مسلمان اپنے
ملک کی ترقی میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔آسٹریلوی قانون کے تحت مسلمانوں کو
مذہبی آزادی حاصل ہے جس کے باعث انکی مذہبی تقریبات آسانی سے منعقد ہوتی
ہیں۔ہر سال کثیر تعداد میں لوگ یہاں سے حج کرنے کے لیے بھی حجازمقدس کا سفر
بھی کرتے ہیں۔گیارہ ستمبر کے امریکی واقعہ کے بعد پوری دنیاکی طرح
آسٹریلیاکے مسلمانوں کی بھی مشکلات میں اضافہ ہوگیالیکن وہاں کی حکومت نے
اپنے ملک کے حالات بہت اچھے طریقے سے قابومیں کر لیے اور جنوری2007میں وہاں
کے وزیرتعلیم نے اعلان کیاکہ ملک کی تین بڑی جامعات میں اسلامیات کی تعلیم
کے بارے میں مراکزکھولے جائیں گے اوراس مقصد کے لیے حکومت نے ایک خطیررقم
کی مختص کر دی۔اس سے پہلے دسمبر2005میں مسلمان نوجوانوں کا ایک میلہ بھی
منعقدکیاگیااور مسلمان ائمہ کرام کی ایک کانفرنس بھی2006میں منعقدہوئی۔یہ
تمام تقاریب بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے منعقدکرائی گئیں جس میں
مسلمانوں کی تنظیم آسٹریلین فیڈریشن آف اسلامک سوسائیٹیزنے بھی اپنا بھرپور
کردار اداکیا۔بہرحال حالات جیسابھی رخ اختیارکریں اہل ایمان بہتے دریاکی
طرح اپنا راستہ نکال لیتے ہیں۔ |