خواتین کے حقوق اور ہمارا معاشرہ (۳)

حق مہر
(الف) نکاح نامہ کو پر کرتے ہوئے حق مہر کا تعین سوچ سمجھ کر اور لڑکے کی آمدنی کو مد نظر رکھ کر کرنا چاھیے -
(ب) بیوی کے مطالبے پر اگر خاوند حق مہر ادا کرنے سے انکاری ہو یا ادا کرنے میں نا کا م ہو تو بیوی بذریعہ عدالت حق مہر وصول کر سکتی ہے خصوصا جب
٭خاوند نے معجل حق مہر ادا نہ کیا ہو اس وجہ سے بیوی الگ ہو گئی ہو اور خاوند نے حقوق زن آشوئی (گھر بسائی) کا دعوی کیا ہو-
٭خاوند نے ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کیے بغیر ایک اور شادی کر لی ہو ایسی صورت میں پہلی بیوی حق مہر چاہے معجل ہو یا موجل اس کو وصول کرنے کا حق رکھتی ہے-
٭خاوند نے طلاق تو دے دی ہو لیکن حق مہر ادا نہ کیا ہو بیوی نے طلاق تفویض کا حق استعمال کیا یا بیوی نے عدالت سے خلع کے علاوہ کسی اور بنیاد پر تنسیخ نکاح کی ڈگری لی ہو-

بچوں کی تحویل
بچوں کی تحویل بارے معاملات گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ ۱۸۹۰ء کے تحت طے کیے جاتے ہیں-

بچے کا فطری سرپرست باپ ہے جو بچے کی بہتر پرورش کیلئے اور تعلیم و تربیت کیلئے ہر طرح کے اخراجات ادا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے جب بچے کی تحویل کا معاملہ عدالت کے سامنے لایا جاتا ہے تو عدالت دیکھتی ہے کہ بچے کی بہتری کس میں ہے مثلا اگر بچہ شیر خوار ہے تو بچے کی تحویل عموما ماں کو دی جاتی ہے کیونکہ اس عمر کے بچے کیلئے ماں کے گود ضروری ہے اگر بچہ کمسن ہو لیکن شیر خوار نہ ہو تو پھر بھی فیصلہ ماں کے حق میں ہونے کے زیادہ مواقع ہیں ماں کو تحویل کے حق سے محض اس لیے دشتبردار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ غریب ہے اور بچے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی بچے خواہ ماں کی تحویل میں ہوں ان کے اخراجات ادا کرنا باپ کی زمہ داری ہے عموما ماں پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کو عدالتیں نظر انداز کرتی ہیں اگر بچہ عمر کے اس حصے میں ہو کہ اس بارے میں رائے دے سکتا ہو تو عدالتیں اس کی ترجیح کو بھی فیصلے میں ملحوط خاطر رکھتی ہیں بچوں کی تحویل کا فیصلہ کرتے وقت عدالتیں بہن بھائیوں کو اکٹھا رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں اور انہیں الگ نہیں کرتیں والدین کی علیحدگی کے بعد ماں کی دوسری شادی بچوں کی تحویل حاصل کرنے میں مواقعوں کو کم کرتی ہے خاص طور پر اگر لڑکی کی تحویل کا معاملہ ہو اور ماں کی جس سے دوسری شادی ہوئی ہو یا ماں کے ساتھ اس کے اپنے سسرالی رشتے دار رہتے ہوں جو لڑکی کیلئے نا محرم ہوں گے-

اگرچہ باپ کی دو سری شادی بھی بچوں کی تحویل کیلئے مواقعوں کو کم کرتی ہے لیکن اکثر ایسی صورت میں ماں کی نسبت باپ کو ترجیح کی جاتی ہے-

گھر یلو تشدد جرم ہے
گھریلو تشدد جرم ہے اس بارے میں عمومی رویہ یہ ہے کہ یہ جرم نہیں اور گھر کا اندرونی معاملہ ہے جس میں پولیس اور قانون کی کوئی مداخلت نہیں قانون میں ایسا کوئی فرق نہیں ہر تشدد چاہے وہ گھر کے اندر گھر والوں کے ہاتھوں ہو یا گھر سے باہر گھر والوں یا کسی غیر کے ہاتھوں ہو جرم کے زمرے میں آتا ہے تھانے جانے سے قبل تشدد کی شکار عورت کو چاہیے کہ کسی بھی طرح ڈاکٹر سے طبی معائنے کی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے بذریعہ تھانہ ڈاکٹر یا ہسپتال سے رابطہ کرے اب سپریم کورٹ کی نئی رولنگ کے تحت وہ ڈاکٹر کی رپورٹ کے بغیر بھی تھانہ میں رپورٹ درج کروانے کا حق رکھتی ہے شکایت پر پولیس پر ایسے جرم کا اندراج اور تفتیش بالکل اسی طرح لازم ہے جیسا کہ دیگر جرائم میں-

وراثت
عورتوں کو عموما حق وراثت سے محروم رکھنے کے لیے کئی حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور عام طور پر انہیں جبرا وراثت کے حق سے خاندان کے مردوں کے حق میں دستبردار قرار دیا جاتا ہے-

قانون وراثت کے مطابق عورت کا ہر حیثیت (ماں بہن ,بیٹی․ بیوہ) میں حصہ طے ہے اور یہ کسی بھی طرح چھینا نہیں جا سکتا-

خاندان کی عورتوں کی شادیوں اور دیگر امور پر خرچ کی جانے والی رقم انکے وراثت کے حصے کا متبادل نہیں اور یہ رقم انکی وراثتی ملکیت سے منھا نہیں کی جا سکتی اور نہ اس بنیاد پر ان کو وراثتی حصہ سے محروم کیا جا سکتا ہے -

عورتیں بطور سوارا یا ونی
گھر کی کسی عورت کو خاندانی جھگڑے نمٹانے کی غرض سے دشمن خاندان کو پیش کرنے کی روایت خواتین کے خلاف انتہائی ظالمانہ رویے کو ظاہر کرتی ہے جس میں عورت کی حیثیت ایسی جائیداد کے برابر ہوتی ہے جسے دے دلا کر جھگڑے نمٹائے جا سکتے ہیں-

تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۳۱۰ میں واضع طور پر لکھا ہے کہ کسی عورت کو قتل میں بدل صلح میں یا کسی اور طرح سے دینے کی سزا تین سے دس سال کی سزا ہے-

قتل کرنا غیرت نہیں
جو کوئی مر د کسی عورت کی جان لے کر یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے یہ قتل اس لیے کیا ہے کہ عورت جنسی بدفعلی کی مرتکب ہوئی ہے تو اسے قتل نہیں بلکہ غیرت کے نام پہ قتل کہا جاتا ہے زانی عورت اور بعض اوقات اس کے شریک جرم مرد کو قتل کرنے کا مقصد رسوائی مٹانا․ عزت وآبرو برقرار رکھنا اور سماجی ضابطہ کا نفاذ ہوتا ہے جو عورتوں کی زندگیوں کے اختیارات اور ان کے لیے حدود مقرر کرتا ہے
چنانچہ غیرت کے نام پر قتل کی اصطلاح قتل کے لیے ایک قبول محرک اور ایک قانونی دفاع کے طور پر پیش کی جاتی ہے جیسے اکثر معاشرہ اور ملک کا نطام عدل دونوں تسلیم کر لیتے ہیں-

فوجداری قانون (ترمیمی ) ایکٹ ۲۰۰۴ کے تحت تعزیرات پاکستان کی درفعہ ۲۹۹ میں بیان کی گئی قتل کی عمر کی تعریف میں ایسے جرم کو بھی ڈالا گیا ہے جو غیرت کے نام پر کیا گیا ہو ․ ایسے مقدمات میں فرد فرم دفچہ (سی) ۳۰۲ کے تحت نہیں ہو گی اس دفعہ میں زیادہ سے زیادہ سزا ۲۵ سال قید ہے لیکن اس کی کم از کم کوئی کدت نہیں ہے یعنی یہ ایک کن بھی ہو سکتی ہے غیرت کی نام پر قتل کے اکثر مقدمات جوان دفعات کے تحت نہیں آتے تھے جن کیں قاتل اور مقتول کے درمیان حقیقی یا بوجہ شادی رشتوں کی صورت میں قصاص کا اطلاق نہیں ہوتا اس دفعہ کے تحت ہی نمٹائے جاتے تھے اور سزائیں بہت کم ہوتی تھیں-
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124383 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More