معاشرے میں مردوں یعنی لڑکوں کو
یوں پروان چڑھایا جاتا ہے کہ وہ بوجھ اور ذمہ داریاں اٹھانے والے بنیں،
مضبوط ہوں، فیملی کی کفالت کریں،بیوی بچوں کی ضروریات پوری کریں، کمزوری کا
مظاہرہ نہ کریں اس سے مردوں کی اپنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر
ان میں یہ تصور واضح ہوجاتا ہے کہ فیملی کی ضروریات پوری کرنا ، گھر کی
سربراہی ، معاشی خود کفالت انہی تک محدود ہے۔ اپنی بہن ، بیٹی ، بیوی سے
نوکری کروانا برا تصّور کرتے ہیں۔ اکثر تو یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ اگر
گھر کی خواتین کو ملازمت پر جانے دے دیا جائے تو رویہ یہ برتا جاتا ہے گویا
اُن پر احسان کیا جا رہا ہو۔ اس بات سے قطع نظر کے عورت ہو یا مرد بحثیت
انسان دونوں ہی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر ایک مرد اپنے خاندان
کو بہتر زندگی دینے کے لئے محنت کرتا ہے تو ٹھیک اسی طرح ایک عورت بھی اپنے
گھر والوں کو بہتر معیا ر زندگی دینا چاہتی ہے۔
مردوں کو قدرتی طور پر عورتوں کا محافظ اور معاون بنایا گیا ہے یہ بات صد
فیصد درست ہے۔لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ قدرت نے عورت کو کم
صلاحیتوں سے نوازہ ہے بلکہ دراصل عورت کی اپنی اولاد اور گھر کے لئے قربانی
کے ثمر کے طور پر اسے یہ تحفہ دیا گیا ہے کہ مرد اسکا محافظ اور معاون بن
کررہے۔
دنیا بھر میں اگر ترقی یافتہ قوموں میں نظر دوڑائیں تو وہاں کی عورت ملک کی
معاشی ترقی میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم ، تحقیق
، ، سیاسی سمجھ ہرسطح پر ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے حصہ لیتی ہے جبکہ
ہمارے معاشرے میں خواتین کے حوالے سے یہ صورتحال حوصلہ افزاءنہیں ہے۔ اکثر
یت کو اپنی صلاحیتیں بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کے مواقعے باہم نہیں
ملتے۔
حکومت کی جانب سے خاص خواتین کے لئے مختلف روزگار اسکیمیں وقفے وقفے سے
متعارف کروائی جاتی رہی ہیں۔ اس میں نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن
کمیشن ، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز اور پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ جیسے پروگرام
شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گھریلو صنعت کے لئے قرضوں کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
ان تمام اسکیموں سے کم پڑھی لکھی خواتین کے علاوہ ہر طرح کا ہنر رکھنے والی
خواتین مستفید ہوسکتی ہیںیا اپنا کاروبار کھولنا چاہیں تو یہ اسکیمیں ان کی
مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان حکومتی اسکیموں کی کامیابی کچھ فیصد سے زیادہ
نہیں مگر بہرحال خواتین روزگار کے حصول کے لئے ان اسکیموں سے مدد کا سوچ
سکتی ہیں۔
لیکن یہاں سب سے پہلے اہم مسئلہ ہمارے معاشرے کی سوچ کی تبدیلی کا ہے۔
معاشرہ کی روایتی سوچ تبدیلی کے لئے ابھی اور وقت مانگ رہی ہے۔ سوال دراصل
نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ہے۔ مہنگائی جس تواتر سے
بڑھ رہی ہے وہاں خاندان کے ایک فرد کی کمائی سے گزارہ ممکن نہیں۔ ایک کمانے
والا اور دس کھانے والے۔ اس صورتحال سے گھرانے ترقی کرنے کی بجائے معاشی
ابتری کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ خواہشات تو درکنار ایک متوسط گھرانہ اپنی
ضروریات کو پورا نہیں کر پاتا۔ بات یہا ں ختم نہیں ہوتی اس مستقل صورتحال
سے لوگ جن معاشی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں اس کے سبب رفتہ رفتہ نفسیاتی
عوارض پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ ہر شخص جھنجھلاہٹ اور جلدی میں نظر آتا ہے ۔
بات بے بات غصّہ ہونا چھوٹی سی بات پہ لڑائی جھگڑا ہمارے معاشرے میں لوگوں
کے مزاج کا حصّہ بن گیا ہے۔ اس کی واحد وجہ وہ معاشی بدحالی ہے۔ جو ہر گھر
پر آہستہ آہستہ اپنا قبضہ جما رہی ہے اور اس حقیقت سے انکار کرتا شخص خود
فریبی ہے۔
شادی شدہ خواتین ہوں یا غیر شادی شدہ اپنے ہنر، تعلیم اور صلاحیتوں سے بھر
پور فائدہ اُٹھاسکتی ہیں۔ ایک پڑھی لکھی بر سرِروزگار عورت نہ صرف اپنے
خاندان کے لئے بلکہ مجموعی طور پر پورے معاشرے اور قوم کے لئے کرامت ثابت
ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں خواتین پڑھی لکھی باہنر، باصلاحیت ہی کیوں نہ ہوں اُن کی ملازمت
کو کشادہ سوچ کے ساتھ قبول نہیں کیا جاتا۔ ایک سروے کے مطابق نوّے فیصد
افراد خواتین کی ملازمت کے حق میں نہیں جبکہ متوسط طبقے کی ملازمت کرنے
والی خواتین سے جب اس سلسلے میں بات کی گئی تو تقریباً سب کا جواب یہ تھا
کہ ”ہم اپنے گھر والوں کو بہتر معیارِ زندگی دینا چاہتی ہیں۔ اپنے خاندان
کو مالی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں لیکن قدم قدم پر ہمارے یہاں
امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ کبھی معاشرہ اور کبھی اپنے گھر والے ہمیں
مجرمانہ نظروں سے دیکھتے ہیں کہ جیسے ہم کسی گناہ کے مرتکب ہوں۔ جبکہ ہم
گھر اور ملازمت کی ذمہ داری دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں“۔
گھریلو معاملات سنبھالنا خواتین کی اولین ترجیح ضرور ہے۔ گھر کی اہمیت سب
سے پہلے ہے لیکن اگر معاشی طور پر خاندان کی ضرورت ہو تو نوکری ضرور کرنا
چاہےے۔ خواتین گھر کی ذمہ داریوں کو ساتھ لیتے ہوئے ملازمت کریں تو یہ بہت
اچھارہتا ہے۔ اس طرح اپنی تعلیمی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے اور ان میں
مزید نکھار پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آج کا مرد خواتین کی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہے۔
جب خواتین خود ملازمت کرتی ہیں تو انہیں مردوں کی سخت محنت اور پیسوں کی
قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ دنیاوی سمجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے۔ زندگی میں بہت سے
تجربات اور مشاہدات سے واسطہ پڑتا ہے ۔ اطراف میں موجود لوگوں کے رویوں کا
اندازہ ہوتا ہے جو نوکری کرنے سے پہلے کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ ہماری اکثر
گھریلو خواتین بے ہنگم زندگی ، ترش رویے، بے مقصد شب و روز ، متعین ہدف پر
کام کرنے سے ہماری اور اپنی ذات پر عدم اعتماد کے ساتھ گزار رہی ہیں ۔ جبکہ
ملازمت کرنے یا اپنے گھر کے اندر رہتے ہوئے اپنے شوق کے مطابق روزگار کا
ذریعہ حاصل کرنے سے صورتحا ل کو بدلہ جاسکتا ہے۔ مالی فوائد اور باعزت
زندگی دونوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ پہ نگاہ ڈالی جائے تو انہی قوموں نے ترقی کی ہے جنھوں نے اپنے لئے
درست سمت میں بڑھنے کا راستہ اپنایا ۔ ایک گھرانہ ایک خاندان اس ملک کی
اکائی ہے۔ ایک گھرانہ ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔ یہاں خواتین کی
ملازمت حقوقِ نسواں کا سوال نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشی صورتحال کو بہتر
بنانا ہے۔ اپنی حدود میں رہتے ہوئے دین کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے ایک عورت
باعزت معاشی مستحکم خاندان بنا سکتی ہے۔ لیکن مرد کے سہارے کے بغیر یہ ممکن
نہیں۔ |