امام احمد رضا کا فکری نظام اور ہماری بے اعتنائیاں

امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے حوالے سے اپنے مضمون کی بسم اللہ کرنے بیٹھا ہوں تو حسیاتی فضا میں یہ بات برابر گردش کررہی ہے کہ اپنی بونی فکر و قلم سے اس عبقری شخصیت کو ناپوں تو کیسے؟ اس کی خداداد صلاحیتوں کو قلم کے کیمرے میں بند کروں تو کس طرح؟ اور ان کو علمی، مذہبی، سماجی اور فکری خدمات کو قرطاس کی دیواروں پر چسپاں کروں تو کیوں کر؟ امام احمد رضا، علوم و معارف کا ایک ایسا جہاں آباد کرکے چلے گئے جس میں داخل ہوتے ہی آنکھیں منور ہوجاتی ہیں، ذہن مہکنے لگتا ہے، دل کا بوستاں لہلہا اُٹھتا ہے اور خیمہ جاں معطر ہو اُٹھتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو مسلک و ملت کے خلاف جو کچھ بھی انہوں نے دیکھا، تو ان کی محسوسات کی انگلیاں فوراً حرکت میں آگئیں اور جس کے نتیجے میں اظہاری پیکروں کی ایک لمبی قطار لگ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غیر معمولی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اب تک ہزاروں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، بے شمار تحقیقی مقالات لکھے جاچکے ہیں، پچاسیوں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی جاچکی ہیں۔ لیکن اب بھی یہ شکوہ کیا جارہا ہے جو میرے عندیہ کے مطابق بالکل بجا اور درست ہے کہ رضا شناسی کا عمل ہنوز پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا ہے، اس لےے تحقیقاتی تسلسل اب بھی جاری ہے۔

اس تحقیقی تناظر میں امام احمد رضا بریلوی کی فکریات کا اگر جائزہ لیا جاے تو یہ بے داغ حقیقت صفحات کے سینے میں جذب ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کے عصری منظر نامے میں امام احمد رضا کے افکار و تعلیمات کا سایہ حاصل کرنے کے لےے اگر اپنے اپنے عمل کے دریچے وا کیے جائیں اور اپنی بدحال بستی پر اس کا چھڑکاﺅ کیا جائے تو نا کامیوں اور پستیوں کے فاسد مادّے خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ پسماندگی اور خستہ حالی مسلمانوں کو جہاں جہاں تک لے گئی ہے، امام احمد رضا کی تصوراتی آنکھوں نے وہاں تک اس کا تعاقب کیا ہے اور مسلمانوں کو اس سے نجات کے لیے ایسا فکری نظام بنایادےاہے جو در اصل اہلِ سُنّت کی ترقی کا آئینہ خانہ ہے۔ لیکن افسوس آج اس سے شدید بے اعتنائی ہے، ان کے نام اور خدمات پر تو اہلِ سُنّت جان چھڑک رہے ہیں، ان کی شخصیت کی سحر طرازی میں وہ اس طرح گم ہیں کہ ان کے افکار و تعلیمات کی انگلی اُن کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ہے۔ وہ مسلکِ اعلیٰ حضرت کے نام پر دیوانہ وار ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں کہ آخر مسلکِ اعلیٰ حضرت کیا ہے؟ آج امام احمد رضا کے فکری نظام پر کھلے عام پتھر مارے جارہے ہیں لیکن پھر بھی مسلکِ اعلیٰ کا نعرہ اتنے جوش و خروش اور عقیدت سے لگا یا جارہا ہے، جیسے امام احمد رضا کی محبت و عقیدت ان کے دل میں قطرہ قطرہ نچوڑ دی گئی ہو۔ لیکن اس عقیدت و محبت کا وزن کیا ہے، اہلِ نظر خوب جانتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ہماری عقیدتِ محضہ یہاں تک دراز ہوچکی ہے کہ جو اعلیٰ حضرت کے نام کا ورد نہ کرے اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کا کلمہ نہ پڑھے، تو ایک لمحے کا انتظار کیے بغیر جماعتِ اہلِ سُنّت کے مکتب کے داخلہ رجسٹر سے اس کا نام خارج کردیا جاتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس سے ہماری عقیدت بے بصر کے ساز پر خوشی کے نغمے لہرانے لگتے ہیں۔ اس سے جو جماعتی خسارہ ہورہا ہے، اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟

امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ سے سچی عقیدت و محبت کا اظہار تو یوں تھا کہ اُن کے فکری پہلوﺅں پر بھی سنجیدگی سے عمل کیا جاتا، اعلیٰ حضرت کے مسلک کو حقیقی طورپر سمجھنے کی کوشش کی جاتی۔ امام احمد رضا کو وصال فرمائے ہوئے تقریباً ایک صدی مکمل ہورہی ہے، کاش اُن کی خدمات کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی فکریات کا علمی رخ متعین کرنے کی کوشش کی جاتی تو فکرِ رضا کی مٹی اُن مسائل کی کھائیوں کو بہت خوب صورتی کے ساتھ پاٹ سکتی تھی جو مسائل آج ہماری آنکھیں چھلکا دیتے ہیں۔ آئیے سب سے پہلے تعلیم پر گفتگو کریں۔

اس وقت تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر قلم کا چراغ روشن کرنا بے سود ہے۔ تعلیم کی حیثیت کیا ہے، آج اس سے پوری دنیا کا ادنیٰ سے ادنیٰ انسان بھی واقف ہوچکا ہے۔ لیکن اس سے عملی اختلاف نے ہمیں ایک صدی پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ ہمارے مدارسِ اسلامیہ کا رخ روایت کی طرف مڑا ہوا ہے الا ما شاءاللّٰہ بہت سارے مدارس اعلیٰ حضرت کے نام پر چل رہے ہیں، اعلیٰ حضرت کے نام پر چندہ کیا جارہا ہے اور اساتذہ، اراکین اور طلبہ سب مسلکِ اعلیٰ حضرت کے پابند ہیں لیکن مدارسِ اہلِ سُنّت اور مسلمانوں کی تعلیم کے سلسلے میں امام احمد رضا نے جو تعلیمی نکات اور فکری نظام پیش فرمایا ہے، عملی سطح پر اس کو بروئے کار لانے والا کون ہے؟ امام احمد رضا کے تعلیمی و ترقیاتی منشور کو صرف عمل کا سہارا دینے کی ضرورت تھی، خود بخود ہمارے ترقیاتی قدموں میں سرعت پیدا ہوجاتی لیکن کیا اس طرف کسی کی توجہ ہے؟

تعلیم سے لگا ہوا ایک شعبہ تبلیغ کا بھی ہے۔ اس کے چہرے پر بھی جہاں تہاں خراشیں پڑی ہوئی ہیں۔ جلسے روایت پسندی سے اتنے زیادہ چپکے ہوئے ہیں کہ ان کو آسانی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جلسے کس معیار کے ہوتے ہیں، خطبا و سامعین کی علمی سطح کیا ہوتی ہے اور ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اربابِ علم و دانش اسے خوب جانتے ہیں۔ لہٰذا دعوتی و تبلیغی چہرے کو بارونق، وجیہہ اور خوب صورت بنانے کے لےے امام احمد رضا کی فکر کو عمل کے پل صراط سے گزارنا ہوگا اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کے حقیقی اور واقعی مفہوم و مطلب تک رسائی حاصل کرنا ہوگی، ورنہ صرف کھوکھلے نعروں کے کاندھوں پر ہم کب تک اپنی جماعت کا وجود ڈھوتے رہیں گے۔

طالبانِ علوم کی ترغیب و تشویق کے سلسلے میں بھی امام احمدرضا کا فکری منظر نامہ ہمیں متوجہ کرتا ہے تاکہ غریب اور ذہین طلبہ بغیر کسی رکاوٹ کے حصولِ تعلیم کرسکیں اور متعدد علوم و فنون میں اپنی صلاحیت و انفرادیت کے نقوش چھوڑیں، تاکہ جماعت کے لےے باصلاحیت افراد مہیا ہوسکیں۔ لیکن آج اس پر کتنے فی صد عمل کیا جارہا ہے؟

اقتصاد و معاش دنیائے اہلِ سُنّت کے لیے بڑا اہم اور پریشان کن مسئلہ ہے۔ لیکن اگر ایک جہت سے دیکھا جائے تو یہ بھی دقّت طلب بات نہیں ہے کیونکہ اہلِ ثروت حضرات کی کرم فرمائیاں اس زخم کو بآسانی بھر سکتی ہیں۔ لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مزاج میں احساس کی لَو جلتی رہے اور دل کے تار اضطراب کے ساز سے جھنجھناتے رہیں۔ ہماری ترقی میں سب سے بڑا روڑہ اسی معاشی بدحالی نے اٹکار کھا ہے۔ امام احمد رضا نے اس کے لیے جو فکری نقشہ تیار فرمایا ہے اس سے یقینا تصوراتی سطح پر مسلمانوں کی تعمیر و ترقی رقص کرنے لگتی ہے۔ امام احمد رضا کے معتقدین اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کے نام پر پانی کی طرح پیسہ بہا دینے والے ان نکات پر غور کیوں نہیں کرتے؟ ہزاروں مسائل صرف اس کی بناپر سرد خانے کی دھول چاٹ رہے ہیں۔ غریب مسلم لڑکیوں کی شادیاں رکی ہوئی ہیں اور نہ جانے کتنے مسلمان ہیں جو معاش کی مار سے بلبلا رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ہر سال زکوٰة، فطرہ، صدقات اور امداد کے نام پر مسلمانوں کی اربوں کھربوں رقم کس مد میں صرف ہورہی ہے؟ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے نام پر جان چھڑکنے والے اہلِ ثروت حضرات کہا ں ہیں؟ کیا اس سلسلے میں امام احمد رضا کی فکر و نظریہ ان کی رہ نمائی نہیں کررہا ہے؟

ہمارے معاشرے میں اس طرح کی بے پناہ خامیاں پرورش پاکر جوان ہوچکی ہیں جنھوں نے معاشرے کی صالحیت کو نچوڑ کر پھینک دیا ہے۔ نیز وہ بدعات و رسوم بھی مروج ہےں جن کے خلاف امام احمد رضا نے اپنی فکر اور قلم کے تیر چلا ئے تھے، کتابیں لکھی تھیں۔ لیکن ہمیں یہ بتائےے کہ آج کتنے لوگ اعلیٰ حضرت کی اس فکر اور تحریک کو اپنے احساس کے زینے سے عمل کی سطح تک پہنچا رہے ہیں۔ جن بدعات کے خلاف امام احمد رضا نے اپنے قلم کا لہو بہایا تھا، آج اسی پر ان کے متبعین کہلانے والے حضرات شعوری یا غیر شعوری پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ غیروں نے امام احمد رضا پر اسی نوعیت کا الزام لگایا تھا اور اس الزام کی تردید میں امام احمد رضا نے ایک عظیم تحریری سرمایہ چھوڑا ہے، لیکن افسوس آج پھر اسی چیز کی عملی تصدیق کی جارہی ہے اور یہ تصدیق کرنے والے کوئی اور نہیں، مسلکِ اعلیٰ حضرت کی فضاﺅں میں رہنے بسنے والے ہیں۔

صرف انہیں سلسلے میں نہیں امامِ اہلِ سُنّت نے اہلِ سُنّت و جماعت کے ہر گوشے کو منور و تاباں اور اس کی تعمیر و تطہیر کے لیے انمول فکری نقوش چھوڑے اور بے پناہ اصلاحی مساعی فرمائیں۔ استاذ گرامی علامہ محمد احمد مصباحی پرنسپل جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے ان تمام افکار و مساعی کو تین قسموں میں تقسیم فرمایا ہے۔
۱۔ اصلاحِ عقاید و تصحیح نظریات ۲۔ اصلاحِ اعمال و تصحیح عادات ۳۔ علمی افادات و فنی تحقیقات۔ موخر الذکر کو چھوڑکر بقیہ دونوں میں امام احمد رضا کے غیر معمولی افکار کے تربیتی، تنظیمی، اصلاحی، معاشرتی، معاشی، تہذیبی، دعوتی، تبلیغی، تعمیری، ترقیاتی، مذہبی اور صحافتی موتی بکھرے پڑے ہیں۔ ضرورت ہے کہ انہیں سلک عمل میں پرویا جائے اور ان سے تعمیر و ترقی کشید کی جائے۔ آج کا دَور کھوکھلے نعرے لگانے کا نہیں اور نہ ہی جذبات کی رَو میں بہنے کا ہے۔ بلکہ اس وقت حقیقی اور واقعاتی تناظر میں الجھے ہوئے مسائل کو سمجھنے اور ان کا ممکنہ عملی حل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب اعلیٰ حضرت کے نام پر چولہا جلانے اور اس پر اپنی شہرت و مقبولیت اور معاش کی ہانڈی پکانے کا وقت نہیں بلکہ مسلکِ اعلیٰ حضرت یعنی مسلکِ اہلِ سُنّت و جماعت کے چمن میں امام احمد رضا کی فکر کے گلاب لگانے اور انہیں اپنے عمل کے پانی سے سینچنے کا وقت ہے۔

اس سیاق میں عوام سے زیادہ خواص سے گزارش کروں گا کہ وہ عوامِ اہلِ سُنّت کی ذہن سازی کریں اور امام احمد رضا کا فکری چہرہ انہیں دکھائیں کہ وہ عصری تناظر کے آئینے میں اس کا مشاہدہ کریں اور اس کی معنویت پر غور و فکر کریں۔ ماضی کی تلخ یادوں کو بھلاکر اب ہمیں اس رخ پر سوچنا ہے کہ مسلکِ اعلیٰ حضرت یعنی مسلکِ اہلِ سُنّت و جماعت کی ابلاغی جہت کیسے روشن ہو۔

مجھے بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ اپنوں کی بے حسی اور قلمی و مالی تعاون نہ ملنے کی وجہ سے امام احمدرضاکے اسم گرامی سے منسوب اوران کی خدمات کودنےاتک پہنچانے والا ”افکارِ رضا“ ممبئی کے مدیرنے جب قلم کاروں کے عدم تعاون سے دل برداشتہ ہوکر ”افکارِ رضا “ بند کرنے کا اعلان کیا تو اس شمارے پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم نے لکھا تھا:
”کہاں ہیں ملی درد مندوں اور مذہبی قایدوں کی جماعتیں جو قدم قدم پر مسلکِ اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگاتی ہیں اور مسلکی خیر خواہی کے لمبے لمبے بیانات ان کی زبانِ اقدس سے جاری ہوتے ہیں؟ اپنے مسلکی فکر کے ترجمان کی ناگفتہ بہ حالت پر ان کی عقیدتوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ کیا وہ مالی اور قلمی تعاون فرماکر اس کے لےے آبِ حیات کا انتظام نہیں کرسکتے؟ خدارا کیجیے ورنہ تاریخ کی مرقد میں پہنچنے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ یاد رکھےے کہ اگر افکارِ رضا بند ہوگیا تو ایک فکر پر ضرب پڑے گی، ایک تحریک پر آنچ آئے گی، ایک تنظیم کے تاروپود بکھریں گے۔

پھر کچھ سطور کے بعد لکھا تھا:
” لیکن جب وہ (مدیرافکاررضا) احساس کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں اور اُن کے حوصلوں اور جذبات کا غبارہ پھوٹنے کے قریب ہے، تو تصور کیجیے، کیا اُن کی امیدوں کا لاشہ بے گور و کفن نہیں پڑا ہوگا؟ اُن کے تصورات کے بت پاش پاش نہیں ہورہے ہوں گے؟ اُن کی تمنائیں چراغِ سحری نہیں بن رہی ہوں گی؟ لہٰذا مسلکِ اعلیٰ حضرت کے ماننے والوں سے پُرخلوص گزارش کی جاتی ہے کہ افکارِ رضا کے چراغ کو گل ہونے سے بچائیں۔ کاش مزارِ اعلیٰ حضرت کی چادروں کی ایک سال کی قیمت بھی اگر افکارِ رضا کے حوالے کردی جائے تو افکارِ رضا کے کمزور بازو مضبوط ہوجائیں ۔“

اس تبصرے کی اشاعت کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افکارِ رضا کی کمزور پشت کو سہارا دیا جاتا، مدیر کی خوب خوب حوصلہ افزائی کی جاتی اور انہیں قلمی و مالی تعاون کا یقین دلایا جاتا لیکن افسوس باستثناے چند سبھی کی جانب سے سرد مہری کا مظاہرہ ہوا۔ بہرحال یہ ہماری سرد مہری اور خود پسندی کی ایک مثال ہے۔ ایسی تمثیلات بہت سارے مسائل سے نبرد آزما ہے۔

مدعاے نگارش یہی ہے کہ بے مصرف اُمور میں توانائیاں صرف کرنے کے بجائے بامقصد اور تعمیری کاموں میں اپنی قوتوں کا لہو اُنڈیلا جائے تاکہ مسلکِ اعلیٰ حضرت کی فکری چھاﺅں سے تمام اہلِ سُنّت مستفید ہوسکیں۔ امام احمدر ضا کا فکری نظام اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس لےے مَیں نے انہیں قصداً قلم انداز کیا ہے۔ تعلیم و تربیت، صحافت، مسلکی اشاعت و ابلاغیت، فکری و نظریاتی وحدت، سیاست، معیشت، عورتوں کی مزارات پر حاضری، اعراس، چادر و مزار ، عقاید و نظریات، عادت و اطوار، علما و قایدین کی سہل پسندی، تیجے و چالیسویں وغیرہ کی دعوت، رسومِ شادی، قبرِ ولی پر چادر، آتش بازی، قبر کا بوسہ و طواف، قوالی مع مزامیر، تعزیہ داری اور سجدئہ تعظیمی وغیرہ وغیرہ متعدد راہوں میں امام احمد رضا نے منزل کی رہ نمائی کے لیے اپنے افکار کے پتھر نصب فرمائے ہیں۔ زندگی کا سفر کرتے جائیے اور ان پتھروں کے اشارات سے اپنی مرکبِ حیات کی سمت کا تعین کرتے جایئے۔ یہی دراصل مسلکِ اعلیٰ حضرت ہے اور یہی مسلکِ اہلِ سُنّت و جماعت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میری ان کج مج آرائیوں کے اثرات کیا ہوں گے۔ شاید ہوں، شاید نہ بھی ہوں۔
میر سے معذرت کے ساتھ
شعر میرے ہیں گو عوام پسند
پر مجھے گفتگو خواص سے ہے
sadique raza
About the Author: sadique raza Read More Articles by sadique raza : 135 Articles with 171058 views hounory editor sunni dawat e islami (monthly)mumbai india
managing editor payam e haram (monthly) basti u.p. india
.. View More