معاشرے کے خوف سے آزاد ہو کراپنے فیصلے خود کیجئے

”لوگ کیا کہیں گے“

ہر معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو بے خوف ہو کرفیصلے کرتے ہیں، دوسرے وہ جو کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ہی خوف کے عالم میں مبتلا ہو کر سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ایسے افراد زندگی کے ہر شعبے میں بری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ احساس کم تری میں مبتلا افراد کا اگر پُراعتماد لوگوں سے موازنہ کیا جائے تو ایک اہم بات سامنے آتی ہے کہ بچپن ہی سے وہ انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ والدین اِس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ خوف ایک بیماری کی شکل اختیار کر لیتاہے اور انسان کی خوشیوں کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خوف کی بیماری میں والدین کی اکثریت بھی مبتلا ہے۔ دیہات یا شہروں میں بسنے والے اکثر لوگ اپنی بچیوں کو پرائمری، مڈل یا میٹرک سے آگے تعلیم نہیں دلواتے۔ اگرچہ اُن کے پاس کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھانے کے لیے وسائل موجود ہوتے ہیں لیکن وہ اِس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم نے بچی کو پڑھنے کے لیے گھر سے باہربھیجا تو لوگ کیاکہیں گے، اِس کے علاوہ بچی کی شادی کرتے وقت اُس کی رضا مندی نہیں پوچھی جاتی۔ والدین ہی لڑکا دیکھ کر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں قبول ہے یا نہیں حالاں کہ اسلام میں واضح ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی کی رضا مندی شامل کرنی چاہیے لیکن والدین اِسی خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اگر ہم نے بیٹی سے اُس کی رضا پوچھی تو لوگ کیا کہیں گے۔ لڑکی اگر ملازمت اختیار کرناچاہے تو اُسے روک دیا جاتا ہے، یہاں بھی خوف آڑے آتا ہے حالاں کہ ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ممالک میں نظر دوڑائیں تو عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے۔ دوسری طرف اگر مرد کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بیماری اُس میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک اپاہج، نابینا لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تو وہاں بھی معاشرے کے خوف سے نہیں کر پاتے۔ مشرقی روایات پر عمل کرنے کا سوچیں تو معاشرے میں رائج مغربی رجحان کی وجہ سے خوف کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ہمارے ہاں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں سے محض خوف کی بناءپر انحراف کیا جاتا ہے۔ اچھے کو بُرا اور بُرے کو اچھا خوف کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ آخر اِس بیماری سے کیسا چھٹکارا پایا جائے۔ اگر علم کی بات کی جائے تو اسلام میں واضح انداز میں اللہ رب العزت نے انسان کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے حدیث مبارکہ ہے ”علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے“ اسلام نے عورت کے علم حاصل کرے پر حد بندی نہیں کی جہاں تک ممکن ہو سکے وہ علم حاصل کر سکتی ہے۔ اسلام نے علم حاصل کرنے پر مرد اور عورت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا۔ اگر اِس کو مشرقی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو وہ بھی ہمیں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نہیں لگاتی اور نہ ہی کوئی حد مقرر کرتی ہیں پھر والدین معاشرے کے خوف میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس خوف کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور بے حیائی نے نوجوانوں کو بے راہ روی پر ڈال دیاہے۔ جس کی وجہ سے آوارہ لڑکوں کی ٹولیوں کا گرلز کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے باہر کھڑے ہو کر بے ہودہ جملے کسنے لڑکیوں کا پیچھا کرنا معمول ہے۔نجانے لڑکے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اُن کے گھر بھی ماں، بہن اور بیٹیاں ہیں یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ان اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف سخت قانون سازی کرے، ایسے افراد کے لیے سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے۔ سول سوسائٹی کو معاشرے میں بہتری کے لیے آگے آنا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے میں لڑکیاں بلاخوف تعلیم حاصل کر سکیں۔ والدین بھی اپنی بچیوں کو گھر سے اسکول، کالج اور یونی ورسٹی بھیجتے ہوئے کسی خوف میں مبتلا نہ ہو۔ اگر عورت ان پڑھ ہو گی تو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود قرار پائی ہے، بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے ماں کا علم حاصل کرنا اشد ضروری ہے۔ دوسرا مسئلہ لڑکی کا شادی سے قبل رضا مندی کا ہے۔ ہمارے ہاں بڑھتے ہوئے کورٹ میرج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم رشتہ طے کرنے سے قبل لڑکی کی رضا مندی کو شامل نہیں کرتے اور اگرلڑکی کو رشتہ منظور نہ ہو تو وہ والدین کی عزت کی وجہ سے انکار نہ کرتے ہوئے شادی کر لیتی ہے لیکن زیادہ تر ایسی شادیاں یا تو ناکام ہو جاتی ہیں یا زندگی بھر لڑائی جھگڑے میں گزر جاتی ہیں۔ میں ایک ایسی ہی فیملی کو جانتا ہوں جن کی شادی کو 9 سال کا عرصہ بیت چکا ہے، 4 بچے ہیں لیکن آج بھی اُن کے ہاں لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں، اب نوبت طلاق تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے والدین کو اپنی بچیوں کے رشتے طے کرنے سے قبل اُن کی رضا مندی کو ضرور شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ اور اُن کی بچیاں خوش و خرم زندگی گزار سکیں۔ ایک اور اہم مسئلہ ملازمت اختیار کرنے والی خواتین کا ہے، جب لاچار اورمجبور لڑکی خود میدان میں آ کر بھوک کے خلاف جنگ کرتی ہیں تو معاشرے والے ان پر ہنستے اورطعنہ زنی کرتے ہیں، اُن کو دیکھتے ہوئے دوسری خواتین خوف میں مبتلا ہیں اُن کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں، جس وجہ سے وہ غربت میں ہی زندگی بسر کرنے میں عافیت سمجھتی ہیں لیکن جس معاشرے کے خوف کی وجہ سے خواتین ملازمت اختیار نہیں کرتیں وہ معاشرہ کبھی بھی اُن کی غریبی کو دیکھتے ہوئے اُن کا دست بازو نہیں بنتا بل کہ وہ اُن کی غریبی کو دیکھتا اور ہنستا ہے، معاشرے کے خوف سے آزاد ہو کر اپنی زندگی کے فیصلے خود کیجئے یہ مت سوچئے اور دیکھیں کہ لوگ کیاکہیں گے، اگر آپ یہ سوچتے رہے تو آپ کی زندگی تلخ اور دشواریوں سے دوچار ہو جائے گی۔ پُراعتماد رہیے اور اپنی زندگی کو خوش گوار بنائیں۔

نوٹ:آپ مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں:www.facebook.com/umer.rehman99
www.twitter.com/umer.rehman98
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 54952 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More