بسم اﷲ الرحمن الرحیم
دورغلامی کے دوران جوعناصرہماری قوم کو غلامی کی اندھیری غار سے آزادی کے
کھلے آسمان تلے لے آئے ان میں سے ایک بہت بڑاعنصر مسلمانوں کی ملی زبان ،اردو
تھی۔’’اردو‘‘ نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو رنگ و نسل اور مادری زبان کے
اختلاف کے باوجودایک مقدس تسبیح میں دانوں کی طرح پرو دیاتھا۔چونکہ اس ’’اردو‘‘زبان
کی جنم بھونی مغل دربار اور اسکی وفادارافواج کی چھاؤنیاں تھیں اس لیے
ہندوستانی مسلمان اسے اپنا تاریخی اورثقافتی ورثہ قرار دیتے تھے ۔’’اردو‘‘زبان
کا رسم الخط عربی اور فارسی سے مستعار ہونے کے باعث ہندوستانی مسلمانوں کے
مذہبی حلقے بھی اس زبان کی وکالت میں پیش پیش تھے۔اس کے علاوہ پورے
ہندوستان میں تب سے آج دن تک یہ رابطے کی واحد زبان ہے جسے مشرق سے مغرب تک
تمام مذاہب کے لوگ کسی نہ کسی حد تک سمجھتے ہیں اور بول بھی سکتے ہیں۔
آزادی کے بعد مسلمانان ہنداگرچہ مشرق اور مغرب کے دومختصر خطوں میں سمٹ آئے
اورصدی کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پزیرہوئی لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے
کہ ان آزادشدہ علاقوں کے باسیوں کی نسبت زیادہ قربانیاں ان علاقوں کے لوگوں
نے دیں جوآج بھی محکومی کی زندگی گزار رہے ہیں،اس کے باوجودکہ ان محکوم
علاقوں کے لوگ جانتے تھے کہ انہیں آزادی نہیں دی جائے گی اور انکے علاقے
بدستورظالم سامراج کے زیر تسلط ہی رہیں گے۔پاکستان چونکہ ہندوستان کے کل
مسلمانوں کی کاوشوں کا نتیجہ تھا،وہ مسلمان جو پاکستان پہنچ گئے اور وہ بھی
جو نہیں پہنچے، اس لیے قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے اس نوزائدہ مملکت اسلامیہ
کی قومی زبان ’’اردو‘‘ قرار دی تاکہ اس زبان کے توسط سے یہ ریاست ہندوستان
کے تمام تر مسلمانوں کی نمائبدہ ریاست ہوجو مسلمانوں کے حال کے ساتھ ساتھ
اس زبان کے حوالے سے انکے شاندارماضی کی بھی آئینہ دار ہو۔
تحریک پاکستان میں ’’اردو‘‘ کے فیصلہ کن کردار کو قطعاََ بھی نظر انداز
نہیں کیا جا سکتا۔اگر مسلمانان ہندوستان حالیؒ کی شاعری اور اقبال کا فلسفہ
سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تو آزادی کاحصول ممکن ہی نہ تھا،اگرمولانا ظفر علی
خان کے کالم اور ’’اردو‘‘ زبان میں شائع ہونے والے اخباروں کی تحریریں
مسلمانان ہندوستان کے اوپر سے گزر جاتیں اور عربی کی ترکیبیں اور فارسی کے
بھاری بھرکم الفاظ انکی سمجھ سے بالاتر ہوتے تو تحریک کی گرمانی ممکن ہی نہ
تھی۔احساس غلامی اور روح آزادی کی تڑپ کو جس عنصر نے ہندوستانی مسلمانوں
میں عام طور پر اور نوجوانوں میں خاص طور پر بیدار کیا تھا وہ ’’اردو‘‘
زبان کی تفہیم اور اسکی ترویج واشاعت تھی۔یہ ’’اردو‘‘ زبان سے محبت تھی کہ
کتنے ہی مواقع پر لاکھوں کے مجمعوں نے قائداعظم ؒ سے اردو میں تقریر کی
خواہش کااظہار کیالیکن وہ عظیم راہنما جس محاذپر سرگرم تھے اسکے
ہتھیارچنداں مختلف تھے۔
آزادی کے بعد شاید دشمن اس راز آزادی کو پا گیا اور اس نے ہماری آزاد قوم
کو غلامی کے شکنجوں میں کسنے کے لیے ہمیں ہماری قومی زبان سے بتدریج محروم
کیا۔اگست1947ء کو جب انگریز افسران واپس برطانیہ پہنچے توانہیں محض اس لیے
جبری ریٹائر کر دیا گیاکہ غلاموں پر حکم چلانے والے اب آزاد قوم کی قیادت
کے قابل نہیں رہے۔لیکن افسوس کہ یہاں آزادقوم پر حکمرانی کرنے لیے غلام ابن
غلام،ذہنی وفکری غلام اور ’’روشن خیال ‘‘غلاموں کومسلط کر دیا گیاجوآج بھی
اپنے گزشتہ آقاؤں کے لباس،شعار،معاشرت اورمقروض لہجوں کونہ صرف چھوڑنے پر
تیار نہیں ہیں بلکہ اس میں تفاخر وفوقیت محسوس کرتے ہیں۔
امریکیوں نے جب جاپان پر قبضہ کیا تو شاہ جاپان نے ان سے صرف ایک چیز مانگی
اور فاتحین سے کہا کہ ہماری نسلوں سے ہماری زبان مت چھیننا۔ماؤزے تنگ جوملک
چین کی صف اول کی قیادت سے تعلق رکھتے تھے ،بہترین انگریزی جانتے تھے لیکن
پھر بھی مترجم کے ساتھ انگریزوں سے بات کرتے تھے جبکہ انگریزکوئی لطیفہ
سناتاتو سمجھ چکنے کے باوجودمترجم کے بیان کرنے پر مسکراتے تھے۔ پڑوسی ملک
چین ہمارے بعد آزاد ہوا،ان کا تمام تر تعلیمی،انتظامی اور عدالتی نظام انکی
قومی زبان میں ہے،کوریا بہت چھوٹا سا ملک ہے لیکن انکے ہاں طالب علموں
کونوجوانوں کو فراہم کے جانے والے کمپیوٹر بھی انکی قومی زبان میں تیار کیے
گئے ہیں اور اسی زبان میں ہی کام کرتے ہیں،دنیا بھر میں جس جس ملک میں بھی
دوسری دنیاؤں کے لوگ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اس ملک میں پہلے انہیں مقامی
زبان کے کورسز کرنے پڑتے ہیں کامیابی کے بعد تب انہیں اس ملک کی قومی زبان
میں ہی تعلیم کے اگلے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں۔تمام دنیاؤں کی قیادت بہترین
انگریزی جانتی ہے لیکن بیرونی دنیاؤں کے دوروں پر اگرچہ مقابل میں انگریزی
بان قیادت ہی ہو تب بھی وہ ایسے مترجم کا اہتمام کرتے ہیں جو انہیں مقامی
زبان میں ترجمہ کرکے سنائے لیکن مملکت خداداپاکستان کی سیاسی،فوجی،انتظامی
اور عدالتی قیادت کا وطیرہ ہی مختلف ہے۔
جدیدترین ٹکنالوجی کواپنی قومی زبان میں ترجمہ کرکے تو کیاجاپان دنیا سے
پیچھے رہ گیاہے؟اپنی قومی زبان میں تعلیم فراہم کرنے والا چین کیا سائینس
اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیاسے مات کھا گیا
ہے؟انڈونیشیا،ملائیشیا،کوریا،ہانگ کانگ ،سنگاپوراورمغربی و مشرقی دنیا کے
بے شمار چھوٹے چھوٹے ممالک و جزائرجن کوعالم انسانیت کے ماضی میں شاید کوئی
مقام حاصل نہیں تھا آج اپنی قومی زبان کی ترویج و اشاعت کے باعث کرہ ارض کے
مستقبل کے وارث بنتے نظر آتے ہیں جبکہ سینکڑوں سال قدیم اورشاندار واعلی
روایات کی حامل تاریخ سازپاکستانی قوم محض زبان سے محرومی پر ایک نودولتیے
کی طرح اپنی ایک ایک روایت کودرآمد کرنے کی فکر میں ہے،انگریزی
تعلیم،جاپانی مصنوعات ، چینی کھانوں اور بدیسی موسیقی جیسے کتنے ہی رویے
ہیں جن میں اپنائیت کو ترک کرنا رواج بن گیاہے۔تعارف کی حد تک تو بیرونی
دنیاؤں سے رابطہ تعلق بجابلکہ ضروری ہے لیکن اپنے آپ کو دوسروں کے رنگ میں
ہی رنگ لینا کسی طور بھی روانہیں۔
دنیاکی تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم نے دوسری قوم کی زبان سیکھ کر ترقی نہیں
کی۔ہم جب تک اپنے نوجوانوں کوخواجہ میردرد،میرتقی میر غالب،حالی،اقبال،ڈپٹی
نزیراحمداور مولانامودودی کی تحریریں نہیں پڑھائیں گے انہیں اپنی حقیقت سے
آگاہی ہی نہیں ہوگی،جب تک ماضی سے رشتہ نہیں جوڑا جائے گا قوم کے اندر قومی
مزاج پیداہی نہیں ہوگا،اپنی اورصرف اپنی روایات کا تسلسل ہی اپنائیت کا
ضامن ہے،اپنالباس اور اپنی تہذیب و ثقافت اورصدیوں سے قائم اپنے علاقائی
رسوم ورواج ہی ہمیں نئی دنیاؤں میں ہماری شناخت عطا کر سکتے ہیں اور ان سب
کا واحدذریعہ قومی وعلاقائی زبانیں ہی ہے،سکرین سے امڈنے والاطوفان ہمیں
ماضی کی غلامی سے بھی زیادہ گہری دلدل میں دھکیل دے گااور ہم آنے والی
نسلوں کے مجرم ٹہریں گے۔
کیاہی خوب ہو کہ ابتدائی تعلیم سب بچوں کو انکی مقامی وعلاقائی و مادری
زبانوں میں دی جائے جبکہ ثانوی و اعلی تعلیم کا ذریعہ قومی زبان ہواور
قانون سازی کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایاجائے تحقیقی و تخلیقی کام صرف
قومی زبان میں ہو ۔غالب اور اقبال کے احساسات و جذبات کو اپنے دامن وسعت
میں سمیٹ چکنے والی زبان کا دامن چنددفتری و عدالتی معاملات کے لیے تنگ
کیوں پڑنے لگا؟؟ایسی تنقید کرنے والوں کا اپنا دامن ظرف تو قلیل ہو سکتاہے
لیکن اردو کو عربی و فارسی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہونے کے باعث اس طرح
کی کوئی تنگی دامن گیر نہیں ہے۔کھیل تماشوں ،ثقافتی طائفوں،بیرونی دوروں
اوراللوں تللوں پر اٹھنے والی بھاری بھرکم رقوم سے سائنس اور ٹکنالوجی کی
کتب کو قومی زبان میں ترجمہ کیا جائے اور انہیں نصاب کا حصہ بناکرنئی نسل
کی تعلیم کے تیار کیا جائے۔قرون وسطی کے تاریخی ’’دالترجمہ‘‘اور
دارالحکمہ‘‘جیسے اداروں کی تجدیدنو کی جائے ۔ممکن ہے ابتدا میں ہمیں قومی
طور پر کچھ دقتوں کا سامنا ہو لیکن یہ بہت دور کی منزل کا سفر ہو گاجس کی
ابتدائی صعوبتوں کوبرداشت کرنا بہت اعلی منزل کے حصول کے لیے ضروری ہے۔
ہمارے ہاں یہ عوامی رویہ بن گیا ہے کہ اپنے ملک پر تنقید کی جائے،ہر براکام
اور ہر بری خبر سننے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ’’یہ پاکستان ہے‘‘،بدیانتی کا
کوئی کام کرانے کے لیے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ’’یہ پاکستان ہے‘‘اورپاکستان
کے ٹوٹنے کی مایوسانہ بازگشت ہر زبان پر جاری ہے۔یہ مایوسیاں صرف اس لیے
ہیں کہ ہم نے دوسری قوموں کی زبان پڑھنے اورپڑھانے والی قیادت اورغلامی کی
باقیات سے یہ توقع لگا لی ہے کہ وہ پاکستان کی خیرخواہ ہوگی۔قومی تعلیمی
نظام کو قومی زبان سے روشناس کرانے سے ہم ’’ پاکستان ساختہ‘‘نسل تیار کر
سکیں گے،تب گلی گلی محلے محلے ہر کوئی مادروطن پر تنقید کے نشتر نہیں چلا
ئے گاکیونکہ اس وقت پاکستانی قیادت کی دولت اپنے ملک میں ہوگی،پاکستانی
قیادت کے بچے اپنے ملک میں ہی زیرتعلیم ہونگے،پاکستانی قیادت کے پاس دوسری
ملکوں کی قومیتیں نہیں ہونگی ، پاکستانی قیادت کی زبان پر قومی زبان اور
انکے جسم پر قومی لباس ہوگااورپاکستانی قیادت کاخلوص،محبت اور مفادات
پاکستان اور صرف پاکستا ن سے ہی وابسطہ ہوں گے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب کو نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی |