معاشرے کی اصلاح کا فقدان

کہتے ہیں کہ جب بھی کسی فرد کو جسمانی مرض لاحق ہوتا ہے تو وہ طبعی طور پر اس کے ازالے کے لئے کسی ماہر طبیب یا ڈاکٹر سے تشخیص کروا کر مرض کی نوعیت کے لحاظ سے علاج و معالجہ کراتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو روحانی مرض لاحق ہو جائے تو اس کی مناسبت سے علاج کی فکر کی جاتی ہے اور ازالہ مرض کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان الفاظوں اور جملوں کی روشنی میں ہم معاشرت کا مفہوم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرت کا مفہوم کیا ہے؟ جماعتی زندگی جس میں ہر فرد کو رہنے سہنے اور اپنی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے دوسروں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ جب مسلمانوں کے معاشرے میں اخلاقی، تہذیبی اور دینی بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اس کو دور کرنے کے لئے ہم شریعتِ اسلامی سے رہنمائی لیتے ہیں ۔ آج کل کالجوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں میں ارتداد کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ محض رشتہ ازدواجی اور دنیا کی چند روز کے عیش و آرام کی خاطر مسلم تعلیم یافتہ نوجوان کو چھوڑ کر غیر مسلم تعلیم یافتہ مالدار سے لو میرج کا زور چل رہا ہے۔ پڑوسی ملک میں اس سلسلے کی کڑی زیادہ جُڑی ہوئی ملتی ہے اور چونکہ ہمارے یہاں پڑوسی ملک کی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کا رواج زیادہ ہے اس لئے ہمارے یہاں بھی یہ بے راہ روی پروان چڑھ رہی ہے۔ اس فکری اور دینی ارتداد کے ازالے کے لئے خوفِ آخرت پیدا کرنے اور ذہن سازی کی ضروت ہے۔ آج متوسط اور مالدار طبقے کی لڑکیوں کی دنیاوی تعلیم اتنی عام ہو گئی ہے کہ تقریباً ہر متمول گھرانوں میں انجینئر اور ڈاکٹر کی موجودگی عام بات ہوگئی ہے۔ تعلیم کے فوری بعد اولاد بیرون ملک جانے کا ارادہ کرتی ہے اور بیرون ملک جاکر ان والدین کی خدمت کو بھول جاتی ہے جنہوں نے یہ خواہش کی تھی ان کی اولاد پڑھ لکھ کر کسی اچھے مقام پر پہنچ جائے۔ یہ غور طلب بات ہے کہ ماں باپ مل کر اپنے بچوں کی پرورش تو کر سکتے ہیں مگر وہی بچے مل کر ماں باپ کو پالنے سے قاصر رہتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں بچوں کا بیرون ملک رخ کرنا عام سی بات ہے ایسے میں والدین کو نوکروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اور کچھ گھرانوں میں تو خود ان کو ہی ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جو خطرے سے خالی نہیں رہتا ۔ ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے اپنے والدین کے بارے میں فکر مند تو رہتے ہیں لیکن وہ مجبوری کی وجہ سے اپنے فرائض نبھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

ہماری مذہبی و سیاسی اور سماجی تعلیمات ہم سب کو والدین سمیت تمام بزرگوں سے وابستہ محبت و احترام کی تلقین کرتی ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ بدلتے سماجی منظر نامے میں ہمارے معاشرے کی جہاں بہت سی اقدار کو پامال کیا گیا ہے وہیں بزرگوں سے متعلق ہماری طرزِ زندگی میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے اور یہ صورت بڑی تشویشناک ہے۔ اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کچھ برسوں سے موسیقی اور اس سے متعلق مواد میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے جبکہ جدید دور مین بہت سے افراد کو اپنی لپیٹ میں بھی لے چکی ہے۔ موجودہ دور میں موسیقی کو زبردستی یا پھر اس کی خواہش کے مطابق سننا ضرورت بنا دیا گیا ہے۔ آج ہر بازار، ہر گھر اور ہر چیز میں موسیقی بہت زور پکڑ چکی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ حتیٰ کہ چلتے پھرتے اور گاڑیوں میں بھی موسیقی ہی سنائی دیتی ہے ۔ بجانے والوں کو کچھ اندازہ نہیں ہے کہ انسانیت کس تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ کون سا گانا کس کے سامنے سننا چاہیئے اور کس کے سامنے نہیں۔ موسیقی میں آج کل بیہودگی کا عنصر زوروں پر ہے اور آج کی نوجوان نسل ان ہی کی دلداہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کی گھٹی میں موسیقی کا زہر رچ بس گیا ہے حالانکہ ہم اس کے عادی نہیں تھے۔

دورِ حاضر میں مغرب کلچر اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ہمیں اپنی مشرقی تہذیب نایاب نظر آتی ہے۔ آج بے پردگی، بے حیائی، مخلوط تعلیم، آزادانہ لڑکیوں اور لڑکوں کا میل جول، شادہ بیاہ کے نئے نئے طریقے، فرینڈ شپ ڈے یہ سارے غیر شرعی فعل اور مغربی تہذیب کا خاصہ ہیں۔ یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ دورِ حاضر کے کالجوں کے طلباءو طالبات تعلیمی مقاصد کے بجائے مغربی تہذیب کو اپنا کر شر کی پابندیوں کا مذاق اڑانے لگ گئے ہیں۔ ایک شاعر نے ان پر اپنے شعر کے ذریعے کیا خوب ترجمانی کی کوشش کی ہے:
عام ہوگئی عاشقی کالج کے طول و عرض میں
لیلیٰ مجنوں نظرآئیں گے اب ہر اسکول میں

اولاد کی تربیت میں والدین کا کردار بھی اپنی جگہ مصمم ہے ، دین کی باتیں بچوں میں فکر و شعور کو بیدار کرنے کے لئے سنائی جاتی ہیں۔ ہر وقت نئی نئی باتیں اور نئے نئے مضامین سنانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ دین کی وہ باتیں جن کی زیادہ ضرور ہو انہیں بار بار سنانا چاہیئے ۔ بار بار سنانے سے بچوں کو نفع ضرور ہوتا ہے ۔ ماں باپ کو اپنی اولاد کی تربیت میں بھی سستی نہیں کرنی چاہیئے۔ اولاد کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ تربیت کا وقت کیا ہے یہ ایک عقلمند خاتون کو زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ آج کل معاشرے میں کپڑوں کے پہننے میں اس قدر تحریک ہے کہ جسم پر کپڑا کم ہی نظر آتا ہے اور جسامت جھلکتی رہتی ہے۔ پہلے کے زمانے میں سر پر اوڑھنی اوڑھی جاتی تھی اب لباس ایسا ناقص ہو چکا ہے کہ آدھا بدن کے قریب کھلا رہنے لگا ہے، یا ایسا خفیف اور تنگ ہو جاتا ہے کہ حصے کی ساخت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ ایسا لباس بھی شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ماضی بعید میں جو بھی صورتحال تھی وہ موجودہ معاشرے سے یکسر جداگانہ تھی۔ ماضی میں معاشرہ کے اقدار اور موجودہ معاشرے کے اقدار سے یکسر مختلف تھے۔

تعلیم کے حوالے سے ایک ترغیب ایسی بھی ہے جس کی مثال آج ہمارے معاشرے میں ناپید ہے۔ خلافتِ عباسیہ کے مشہور خلیفہ ہارون رشید کے دورِ حکومت میں شہزادہ مامون کی تعلیم و تربیت کے لئے معلم کی ضرورت درپیش ہوئی۔ اس دور کے ایک مشہور معلم تھے جن کو ہارون رشید نے دربار میں طلب کیا اور شہزادے کی تعلیم و تربیت کے لئے ان کی خدمات حاسل کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ معلم موصوف نے جواب میں کہا کہ ” پیاسا دریا کے پاس جاتا ہے دریا پیاسے کے پاس نہیں آتا“ ہارون رشید نے ان سے کہا کہ وہ شہزادے کے حصولِ تعلیم کے لئے ان کے پاس بھیجنے پر آمادہ ہیں لیکن کم از کم یہ رعایت دی جائے کہ عام طلباءکو وہ علیحدہ پڑھائیں اور شہزادے کو علیحدہ ۔ جواب میں معلم صاحب نے فرمایا کہ ” وہ اپنے طلباءمیں تفریق کو پسند نہیں کرتے“ بالآخر خلیفہ نے معلم صاحب کے ہاں شہزادے کو بھیجنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ مگر آج کے تلاتم شدہ معاشرے میں ایسی مثال نہیں ہے کیونکہ آج امیر کے بچے الگ اسکول میں اور غریب کے بچے الگ اسکول میں تو پڑھتے ہی ہیں ساتھ ساتھ الگ پڑھانے کا رواج بھی عام ہے اور بدقسمتی سے موجودہ معاشرے میں مندرجہ بالا باتوں کا کوسوں پتہ نہیں چلتا۔ سونے پر سہاگہ کا ٹی وی، انٹر نیٹ اور موبائل فونز نے قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ فی زمانہ نوجوانوں میں وقت کی بے قدری ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ سیل فون سے جہاں اور مختلف خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں وہیں پر پارکوں میں جمع ہونا اور وقت کی پامالی ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔

ہمارے معاشرے کی ایک نہایت تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج والدین بھی اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ اپنے بچوں کے احوال جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ باپ کو کاروبار سے فرصت نہیں اور ماں کو گھر گرہستی سے چھٹکارہ نہیں۔ ادھر بیٹی سہیلی کے یہاں جانے کے لئے ماں سے اجازت طلب کرکے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سیر و تفریح کرتی ہے اور ماں گھر میں مطمئن ہے کہ بچی تیوشن پڑھنے گئی ہے اور دیر سویر گھر لوٹنے پر کوئی بہانہ بنانا لڑکیوں کی عادت بن چکی ہے۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنی زندگی کے مصروفیات میں سے کچھ وقت اپنی اولاد کے لئے ضرور نکالیں تاکہ ان بچوں کی داد رسی اور باز پرس بھی ہو سکے۔

آج کل زیادہ اصلاح معاشرہ میں شادی بیاہ، طلاق، شراب نوشی کے موضوعات پر کہا سنا جاتا ہے جبکہ اور بھی غم ہیں دنیا میں محبت کے سوا کے مصداق ہم نے مذکورہ بالا مختلف موضوعات کو سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اب معاشرے کو صاف رکھنا اور پاک رکھنا اور معاشرے کو سدھارنا ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسے دل سے نبھایا جائے ۔ اور دلجمعی سے جو بھی کام کیا جاتا ہے اللہ رب العزت اس کام میں برکت ضرور ڈالتا ہے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 367885 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.