شیر محمد کاش تم آج زندہ ہوتے

تالپور قبیلہ میر طلا خان کی اولاد ہے جس نے نادر شاہ کے برصغیر پر حملے کے وقت سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں سکونت اختیار کی‘ تاریخ میں تالپورقبیلے کی چار بڑی شاخیں ملتی ہیں ‘ شاہوانی، سہرابانی، خانانی اور منکانی‘ جبکہ منکانی تالپور نیک نامی میں سب سے زیادہ شہرت رکھتے تھے‘ منکانی تالپوروں کا جدِ امجد میر مانک خان تالپور تھا‘ اس قبیلے کو میر تھارو خان نے سندھ کے جنوب مشرقی علاقوں میں آباد کیااور ساٹھ سال تک ان علاقوں میں اس خاندان کی حکومت رہی‘ میر تھارو حان کو سرکارِ والا، ستارہِ جنگ اور سر بلند کے خطابات سے بھی پکارا جاتا تھا‘ تھارو خان کے بعد حکومت اس کے رحم دل اور انصاف پسندبیٹے میر علی مراد کے حصے میں آئی جس نے میر پور خاص کو انیسویں صدی کے اوائل میں آباد کر نے کے بعد اپنا دارالخلافہ بنایا ‘ میر علی مراد کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے میر شیر محمد تالپور نے اقتدار سنبھالا‘ میر شیر محمد کی شہرت ایک غریب پرور ، رعایا دوست، مہمان نوازاور ایماندارحاکم کے طور پر نہ صرف اندرون سندھ بلکہ دیگر علاقوں تک پھیل چکی تھی‘ وہ اپنے دادا کی وفات کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں سندھ کے مختلف علاقوں بشمول ٹھٹھہ اور وانگی کا گورنر بنایا گیا‘ اس نے بطورگورنر لوگوں کی فلاح کے متعدد منصوبوں پر کام شروع کیا‘ سندھ کی شیرواہ اور منک واہ نہریں اسی نے کھدوائی تھیں جس سے سینکڑوں ایکڑ بنجر زمین کاشت کاری کے قابل بن سکی ۔

وہ انگریز حکومت اور سندھ کے درمیان کس طرح ایک آہنی دیوار بن چکا تھااس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں‘ جب انگریز برصغیر کے مختلف علاقوں پر تیزی سے قبضہ کر رہے تھے تو سندھ کے ایک باسی نے اپنے مچھیرے دوست سے سوال کیا ، ” انگریز کی حکومت روز بروز پھیل رہی ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سندھ پر بھی قبضہ کر لے اور ہمیں زبردستی عیسائی بنا لے؟“ مچھیرے نے اپنے سندھی دوست کو انتہائی اطمینان سے جواب دیا،”نہیں ، جب تک میر شیر محمد خان تالپور ہمارے زندہ تو ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا“۔ جنگی صلاحیت اور استعداد کے اعتبار سے میر شیر محمد کی سپاہ اور توپخانے کا ڈنکہ بجتا تھا‘ مارچ 1843میں ہندوستانی فوج کے سپہ سالار چارلس جیمز نیپئر (Charles James Napier)نے سندھ پر حملہ کر دیا‘ برطانوی افواج اور تالپور سرداروں کے درمیان حیدر آباد سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر میانی کے علاقے میں گھمسان کی جنگ چھڑ گئی‘ اس جنگ میں میر شیر محمد تالپور بطور آخری تالپور حکمران کے انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا‘ یوںآپ میر شیر محمد کو سندھ کی جنگِ آزادی کاسرخیل بھی کہہ سکتے ہیں‘ سندھیوں کی آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگوں پر اسے” شیر سندھ “کا خطاب دیا گیاتھا۔

آج میر شیر محمد تالپور کا میر پور خاص اور سندھ کس حال میں ہے ‘ میں آپ کو اسی کی ایک تصویر دکھانا چاہتا ہوں‘ سندھ کے ایک پسماندہ گاؤں غلام نبی شاہ کی چھ سالہ ویجنتی میگھوار کو دسمبر دو ہزار بارہ کو رانو ملاح نے اغوا کر لیا‘ اسے ہاشم منگریو کے کمیونٹی سینٹر کے قریب واقع راہمو نامی شخص کے اڈے پر لے جایا گیا‘ ملزم رانو ملاح ویجنتی پر ٹوٹ پڑا ‘ چھ سال کی بچی آخر کتنی مزاحمت کر سکتی تھی ‘ اس کے جسم پر گہرے زخم آ گئے ‘ ویجنتی کا بد نصیب باپ لٹی پٹی بچی کو ہاتھوں پہ اٹھائے عمر کوٹ کے سرکاری اسپتال پہنچالیکن اسپتال کی لیڈی ڈاکٹر نے سہولیات کے فقدان کا پیغام سنا کر باپ بیٹی کو رخصت کر دیا‘ وہ فورا وہاں سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر میر پور خاص کے سول اسپتال پہنچا‘ لیکن بے رحم نظام نے ویجنتی کے باپ سے مطالبہ کیا کہ وہ پہلے ویجنتی کے چور چور جسم اور آہ و بکا کا مقدمہ تھانہ عمر کوٹ میں درج کروائے ‘ اس کا باپ اپنی عزت کا جنازہ اٹھائے غلام نبی شاہ سے عمر کوٹ ، عمر کوٹ سے میر پور خاص اور مناسب علاج نہ ہونے پر میر پور خاص سے کراچی کے ایک اسپتال لے گیا۔ ابھی ویجنتی کی زندہ لاش تاریخِ انسانیت کو پر سوز بنا ہی رہی تھی کہ گیارہ جنوری دو ہزار تیرہ کو میر پور خاص سے نو سالہ نمیرہ عرف انا ابڑو کو اغوا کر لیا گیا‘ اسے شہر سے چھ کلومیٹر دور ایک ویرانے میں واقع پولٹری فارم پر لے جا کر وہ کچھ کیا گیا جس پر شیطان کی شقاوت بھی کانپ اٹھی ہو گی‘ نمیرہ تین ظالموں کا تین دن تک مقابلہ کرتے تھک چکی تھی ‘ تیسرے دن اس کے بریدہ جسم سے جان نکل گئی‘ ا سکی لاش کو پہلے لوہے کی تار میں لپیٹا گیا‘ پھر اس کے جسم کو آگ لگائی گئی لیکن یہ خونِ ناحق تھا اور قاتلوں کا سراغ دینا چاہتا تھا اس لئے وہ جھلس نہ سکی ‘ اس کے بعد لاش کو بوری میں بند کر کے میر اللہ بچاؤ کالونی کے قریب گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا‘ اگلے روز جب علاقے کے کتے لاش کو بھنبھوڑ رہے تھے تو پولیس کو طلب کیا گیا ‘ مقدمہ درج ہوا اورمرکزی ملزم نور علی سمیت دیگر دو ملزمان بھی گرفتار ہو گئے۔

اس واقعے نے پورے علاقے کو جھنجوڑ کر رکھ دیاہے‘ لوگ شرمندگی سے نظریں زمین پر گاڑھ کر چلنے لگے ‘ والدین نے اپنی بچوں کو اسکول ، مدرسہ ، چرچ یا مندر جانے سے روک دیا ‘ بچے گلی یا محلے میں کھیل نہیں سکتے ‘ وہ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو انہیں یوں لگتا ہے جیسے شہر کی دیواروں کو ہاتھ لگ گئے ہوں اور وہ دیواریں سمٹ کر ان کے قریب آ رہی ہوں ‘ وہ اپنے باپ اور بھائیوں کے لمس سے بھی کانپ اٹھتے ہیں ‘ ہر بیٹی والے باپ کو میر پور خاص کے بیس لاکھ سے زائد باشندے انسان نہیں بلکہ مکروہ اور ہوس کے پجاری درندے لگنے لگے ہیں ‘ شریف اور غیرت مند لوگ زمانہ جاہلیت کی اس رسم کو جب باپ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے دوبارہ زندہ کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔

کیا یہ ظلم اتنی آسانی سے اس لئے ڈھایا گیا کہ ویجنتی کا تعلق ایک ہندو گھرانے سے ہے؟ ‘ لیکن ویجتنی تو ابھی بچی ہے ‘ ا س کا تو ابھی کوئی مذہب بھی نہیں ہے‘ اسے تو ابھی گنیش ، وشنو یا راما کی مورتیوں کے سامنے ہاتھ باندھنا بھی نہیں آتے ہوں گے‘ اسے تو ابھی سرسوتی، پاروتی یا درگا دیوی کے مذہب کی باریکیوں کا علم ہی نہیں ‘ اس نے تو ابھی بھگوت گیتا، ویدانتا یا وشنو پرانا جیسی کتابوں پر ہندو ہونے کا حلف ہی نہیں لیا‘ وہ تو ابھی اپنے انسان ہونے اور انسانی معاشرے میں پیدا ہونے کی شناخت حاصل کرنا چاہتی تھی۔

جس وقت ویجنتی میر پور خاص کے اسپتال کے کسی بستر پر انسان کے وحشی روپ کی دلدوز چیخوں کے حصار میں پڑی تھی تو صوبے کے وزیر ِ اعلی قائم علی شاہ میر پور خاص کے دورے پر تھے ‘ لیکن انہوں نے ویجنتی کی خبر لینے کی زحمت تک نہ کی ‘ کاش ویجنتی اکیسویں صدی کے پاکستان میں بطور انسان پیدا ہونے کے بجائے چودہ سو برس پہلے فرات کے کنارے پر کسی جانور کے روپ پیدا ہوئی ہوتی تو خلیفہ وقت اس کی خبر لینے مدینہ سے فرات کے کنا رے پہنچ جاتے‘ کاش ویجنتی کا باپ اسے درندوں کے معاشرے میں پروان چڑھانے کے بجائے اپنے مندر میں پڑی کالی ماتا کی مورتی پر قربان کر دیتا‘ میر پور خا ص میں ہر ہزار میں سے اکہتر بچے پیدائش سے کچھ عرصہ بعد فوت ہو جاتے ہیں ‘ کاش ویجنتی اور نمیرہ انہیں اکہتر بچوں میں سے دو ہوتیں ‘ اور کاش ویجنتی اور نمیرہ 2010کے سیلاب میں بہہ گئی ہوتیں۔

اے میر شیر محمد کاش تم آج زندہ ہوتے تو میں تمہیں کتوں کا رزق بن جانے والے نمیرہ کے جسم کی باقیات دکھاتا!‘ کاش تم آج زندہ ہوتے تو میں تمہیں اس بسترِ مرگ پر لے کر جاتا جہاں ویجنتی سراسیمگی کی حالت میں پڑی ہے! ‘ تم اپنے سینے سے شیرِ سندھ کا تمغہ اکھاڑ پھنکتے ‘ تمہارا کفن آنسووں سے بھیگ جاتا‘ تمہارے جسم پر جنگِ میانی کے دوران لگے زخموں سے خون رسنے لگتا اور میں تم سے سوال کرتا کہ اے سندھ کے نیک دل اور انصاف پسند حاکم میر شیر محمد تالپور ، کیا تم نے سندھ کی عوام کو انگریزوں کی غلامی سے اس لئے بچانا چاہا تھا کہ آج سندھ کی کمسن بیٹیاں اپنوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائیں!
Ameer Abbas
About the Author: Ameer Abbas Read More Articles by Ameer Abbas: 18 Articles with 16387 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.