امریکن نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ ”گلوبل ٹرینڈز 2030ء“

امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی تیار کردہ رپورٹ میں 2030ءکا ممکنہ عالمی منظر نامہ پیش کیا گیا ہے۔اس میں دنیا کے لئے اچھے اور برے دونوں طرح کی صورتحال بیان کی گئی ہے کہ اگر رجحانات اچھے رہے تو کیا ہو گا اور خرابی کی صورت کیا ہو سکتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی عالمی سپر میسی ختم ہو گی،ریاستوں کے مقابلے میںانفرادی طاقت میں اضافہ ہو گا،بڑہتے ہوئے درمیانے طبقے کے مطالبات حکومتوں کے لئے چیلنج ہوں گے،پانی،خوراک اور توانائی کا قلت کا سامنا ہو گا۔نیشنل انٹیلی جنس کونسل کے چیئر مین کرسٹوفر کوجم نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ” ہم انسانی تاریخ کے ایک اہم چوراہے پہ کھڑے ہیںجس سے کئی مستقبل تعمیر ہو سکتے ہیں۔“ کرسٹوفر کوجم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ فیصلہ سازوں،چاہے وہ حکومتوں میں ہوں یا اس سے باہر،کی اس بارے میں حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اس بارے میں سوچیں اور منصوبہ بندی کریںتا کہ منفی مستقبل سے بچا جا سکے۔

امریکہ کی یہ رپورٹ حالات و واقعات کو سمجھنے کے حوالے سے بھی اہم ہے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ 18سال کے بعد بھی دنیاکی محکوم و مجبور قومیں،علاقے اپنے سنگین مسائل کو لئے مسلسل پریشان و مصائب زدہ رہیں گے۔ یہ جبر میں رہنے والوں کی جذبوں کی سچائی کا امتحان بھی ہے کہ وہ اپنے مسائل ومشکلات کے خاتمے کے لئے خود پر اعتماد کرتے ہوئے خود انحصاری کی راہ اپنائیں۔امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں ، تھنک ٹینکس اور بیس ممالک کے نمائندوں کی دنیا کے بارے میں آئندہ دو عشروں کے درمیان عالمی تبدیلیوں اور امکانات پر مبنی رپورٹ کی اچھی اور بری صورتحال کا دارومدار معیشت کے اس اصول پر ہے کہ ” اگر دیگر حالات جوں کے توں “ رہے تو۔جس قوم ،علاقے کے لوگ ظلم وجبر کا شکار ہیں،اگر وہ بھرپور جذبے اور اعتماد سے اپنے ان حقوق کے لئے موثر ترین جدوجہد کا راستہ اپناتے ہوئے حالات کا رخ موڑ دیتے ہیں تو2030ءکا عالمی منظر نامہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے جو اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے۔

آج کا جدیدانسان ٹیکنالوجی کی بدولت ناممکنات کو ممکنات میں ثابت کر چکا ہے ۔ دنیا کو چند سیکنڈوں میں بار بار تباہ کرنے کی اہلیت تو دنیا کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے لیکن دنیا سے بھوک پیاس اور غربت کے خاتمے میں موثر نہیں ہے۔اہلیت ہے لیکن ایسی سوچ کارفرما نہیںہے۔ہم تو انسانی ترقی کے سفر میں پسماندہ خطے کے باسی ہیں،افسوس اور حیرت ان ترقی یافتہ ممالک پر ہوتی ہے جو عقل و شعور پا لینے کا مقام حاصل کرنے کے دعوے کے باوجود انسان کو انسانیت کا درجہ نہیں دلا سکے ہیں۔بات یہ نہیں کہ وہ ایسا کر نہیں سکتے بلکہ بات یہ ہے کہ نسلی،علاقائی،فرقہ واریت اور انا و مفادپرستی پر مبنی نفرتیں جدید ترین ٹیکنالوجی اور سہولیات سے آراستہ دانسانی دنیا کو انسانیت کا باعزت کا مساوی درجہ دلانے میں ناکام چلی آ رہی ہے اور 2030ءکے منظر نامے کی یہ رپورٹ اسی طرح کی انسانیت کی تذلیل پر مبنی صورتحال کی امین بننے کی کوشش میں بھی نظر آتی ہے۔ رپورٹ سے یہ بات واضح ہے کہ کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ جو بویا جا رہا ہے وہی بھگتنا پڑے گا۔نہ وہ اپنی خو بدلیں گے نہ ہم ۔ رپورٹ میں آئندہ دو عشروں میں درمیانے طبقے میں اضافہ اور ان کے برتر عوامی حقوق کے امکانات خوش آئند ہیں ۔

امریکہ کی تمام16 انٹیلی جنس ایجنسیوں ،ریسرچ انسٹیٹیوٹسِ اور یورپی یونین سمیت 20ملکوں کے نمائندوں کی معاونت سے 18ماہ کی ریسرچ پروجیکٹ میں تیار کی گئی مستقبل کے منظر نامے کی اس رپورٹ کے مرکزی مصنف میتھیو بروز نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی منتقلی،جنگوں اور دوسرے عوامل نے گزشتہ عشروں میں تبدیلیاں لائی ہیں۔اگلے عشروں میں سات بڑی ٹیکنالوجی کی منتقلی تبدیلیاں لائے گی۔اقتصادی طاقت مشرق اور جنوب کی طرف منتقل ہوگی۔اس سے امریکہ،یورپ اور جاپان کا حصہ جو اس ووقت56فیصدہے،کم ہو جائے گا۔رپورٹ میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ یا سائبر حملوں سے یورپ اور چین کی اقتصادیات منہدم ہو سکتی ہیں۔

دنیا کی آبادی جو اس وقت 7.1بلین ہے 2030ءمیں بڑھ کر 8.3بلین ہو جائے گی۔آئندہ اٹھارہ سال میں درمیانے طبقے کی تعداد 2بلین سے بھی تجاوز کر جائے گی۔امریکہ توانائی میں خود مختاری حاصل کر لے گا۔شہروں کی طرف منتقلی کا رجحان بڑھ رہا ہے اور 2030ءمیں دنیا کی کل آبادی کا60فیصد شہروں میں ہو گا جس سے خوراک اور پانی کے مسائل بھی بڑہیں گے۔2030ءمیں خوراک کی ضروریات میں35فیصد اضافہ ہو جائے گا اور تمام دنیا کی پانی کی ضرورت6900بلین کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی۔پانی کی قلت اور علاقائی تنازعات سے خصوصا جنوبی ایشیاءاور مشرق وسطی میں مسائل پیدا ہوں گے۔دنیا کی کل ّآبادی میں سے نصف ان علاقوں میں مقیم ہو گی جہاں پانی کی قلت کے مسائل ہوں گے۔موسمیاتی تغیر سے ایشیا خصوصی طور پر متاثر ہو گا جس سے بڑہتی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا ور بھی مشکل ہو جائے گا۔اسی دوران طاقت GDPآبادی،فوجی اخراجات میں اضافے اور ٹیکنالوجی سرمایہ کاری کے لحاظ سے جنوبی امریکہ اور یورپ سے ایشیاءمنتقل ہو گی۔چین ترقی کے لحاظ سے2030ءسے پہلے ہی امریکہ کو حیران کر دے گا۔کولمبیا،انڈیا،نائیجیریا اورترکی عالمی اقتصادیات میں اہمیت اختیار کریں گے۔دنیا کی سیاست پر پر امریکی بالا دستی1945ءسے شروع ہوئی جو اب تیزی سے نیچے آ رہی ہے۔

جیسا کہ بتایا ہے کہ اس رپورٹ میں اچھی اور بری دونوں طرح کی صورتحال میں امکانات ظاہر کئے گئے ہیں۔خراب صورتحال ہونے پر رپورٹ میںاس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا کہ پاکستان یا شمالی کوریا کی طرف سے ایٹمی حملہ ہو سکتا ہے۔رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ2030ءتک کئی ممالک کے ناکام ریاست بننے کے خطرات موجود ہیں جن میں افغانستان،پاکستان،روانڈا ،یوگنڈا اور برونڈی شامل ہیں۔افریقہ اور مشرق وسطی میں سول وار کے خطرات باقی رہیں گے تاہم لاطینی امریکہ میں سول وار کے خطرات کم ہو رہے ہیں۔

اچھی صورتحال کے امکانات میں بتایا گیا ہے کہ 11گولڈن ریاستیں 2030ءمیں یورپی یونین پر برتری حاصل کر لیں گی جن میں بنگلہ دیش،مصر،انڈونیشیا،ایران،میکسیکو،نائجیریا،پاکستان،فلپائن،جنوبی کوریا،ترکی اور ویتنام شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستا ن کی نسبت انڈیا کے پاس ترقی کے تسلسل کے زیادہ مواقع ہیں۔رپورٹ کے مطابق اس وقت انڈین معیشت پاکستان کے مقابلے میں دوگنی ہے جبکہ2030ءمیں یہ شرح16 اور 1ہو گی۔پاکستان اور بھارت دونوں کو نسلی اور علاقائی طور آبادی کے اضافے سے سلامتی کے خدشات بدستور قائم رہیں گے۔بھارت کو چین کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بھارت میں ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری ہو۔ترقی کے حوالے سے بھارت کا انفراسٹریکچر کمزور ہے،تعلیم کی کمی،شہروں اور دیہاتوں میں واضح تضاد،عدم مساوات،غربت،بنیادی وسائل بشمول پانی کی کمی اور بڑی تعداد میں ملازمتوں کی عدم فراہمی کے امور بھارت کی اہم کمزوریاں ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاءمیں بڑہتا ہوئے عدم تحفظ سے فوجی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات مختلف تناظر میں بھڑک اور پھیل سکتے ہیں ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اقتصادی تعلقات جنوبی ایشیا کے استحکام کا فیصلہ کریں گے۔

آئندہ دو عشروں میں پاکستان کے قبائلی علاقوں اور مغربی صوبوں،علاقوں میں نوجوانوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو گا ۔منصوبہ بندی کی کمی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ نوجوان تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ پندرہ سے بیس سال کے دوران جنوبی ایشیا ءکو کئی اندرونی اور بیرونی جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔کم آمدن،اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور توانائی کی کمی سے پاکستان اور افغانستان میں گوریننس کے مسائل پیدا ہوں گے۔سٹیڈی رپورٹ میں محسوس کیا گیا ہے کہ روس اور پاکستان جیسی ایٹمی طاقت والے ملک اور اس بارے میں پیش رفت کرنے والے ممالک جیسے ایران اور شمالی کوریا اپنی ایٹمی طاقت کوسیاسی اور سلامتی کی کمزوریوں میں compensation کے طور پر استعمال کرنے سے ایٹمی حملوں کے خطرات موجود رہیں گے۔غیر ریاستی عناصر کی طرف سے سائبر اور دوسرے حملوں میں اضافہ ہو گا۔

اس رپورٹ میں یوں تو مسئلہ کشمیر کا کوئی تذکرہ تو نہیں ہے لیکن علاقائی تنازعہ کے نام سے پاکستان اور بھارت کے درمیان اس دیرینہ مسئلے کی باز گشت ضرور سنائی دیتی ہے ۔گزشتہ 65سال کے واقعات و تجربات سے بھی واضح ہوا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے باہمی تنازعات اور مسئلہ کشمیر باہمی طور پر حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔اس عالمی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاءکی ترقی پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت سے ممکن ہے یعنی دونوں ملکوں کے درمیان مسائل و تنازعات کا باشعور قوموں کی طرح حل نکالنے سے ہی جنوبی ایشیاءمیں سلامتی ،ترقی اور خوشحالی کا کواب دئکھا جا سکتا ہے۔اگر دونوں ملک باہمی تنازعات کے خاتمے کی راہ نہ اپناتے ہوئے جنگ،لڑائیوں میں ملوث ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف جنوبی ایشیا، عالمی برادری بلکہ نسل انسانی کی بھی بد قسمتی ہو گی۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698978 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More