حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا
قول ہے کہ ایک اچھے دوست کی تعریف وہ ہاتھ اور آنکھ ہے جب ہاتھ کو درد ہوتا
ہے ہے تو آنکھ روتی ہے اور پھر جب آنکھ روتی ہے تو ہاتھ اس کے آنسو صاف
کرتا ہے ۔۔۔۔۔کشمیری عوام نے بھی پاکستان کو اسی دوستی کے اعلٰی درجے کی
روایات کا عظیم پاسدار تسلیم کیا ہوا ہے اور پاکستان کے عوام نے کشمیر ی
عوام کو کبھی اور کسی مقام پر اکیلئے پن کا احساس نہیں ہونے دیا یہی وجہ ہے
کہ کشمیری عوام پاکستانی عوام کی بے پناہ محبت سے متاثرہو کر پاکستان کو
اپنا قبلہ سمجھتے ہیں اور آزاد ہو کر آئینی اور قانونی طور پر پاکستان کے
ساتھ الحاق کرکے پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں ریاست جموں و کشمیر کی ایک
علیحدہ شناخت،تشخص اور دنیا کے اندر اپناایک مقام ہے لیکن یہ بات تسلیم شدہ
ہے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ کسی طور پر نہیں رہنا چاہتے یہی وجہ ہے کہ
مقبو ضہ کشمیر کے اندر کشمیری عوام نے پر امن طریقے سے آزادی کی باقاعدہ
تحریک شروع کر رکھی ہے جس کو ناکام اور سبوثار کرنے کیلئے بھارت نے مقبوضہ
کشمیر کے اندر 7لاکھ مسلح فوج مسلط کر رکھی ہے یوں سمجھ لیں کہ بھارت نے
طاقت کے زور پر کشمیریوں کی آزادی کے حق کو دبوچا ہوا ہے اور یہ بھی اٹل
حقیقت ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں
کیا جاتا اس وقت تک جنوبی ایشاءکے امن کی ضمانت دینا کسی کے بس کی بات نہیں
۔صاف ظاہر ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور تنازعہ بھی
دونوں کے درمیان مسئلہ کشمیر ہی ہے ان حالات میں یقینا عالمی برادری کو
اپنا مثبت کردار ادا کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب جانے والے تمام راستوں
کو ہمورا کرنا چاہیے اور مذاکرات کے عمل کو جاری رہنا چاہیے یہ وہ حقائق
ہیںجو دنیا کو شیشے کی طرح نظر آرہے ہیں کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو پس پردہ
ہے جن پر علیحدہ سے کام ہو رہا ہے دیکھئے ایک طرف مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے
ہم لوگ عالمی برادری پر زوردے رہے ہیں کہ کنٹرول لائن کو ختم کیا جائے
کنٹرول لائن خونی لکیر ہے دوسری طرف ہم خود کنٹرول لائن کی قانونی حیثیت کو
تسلیم کرتے ہوئے ہم نے دونوں اطراف سے تجارت کو فروغ دینے کیلئے راستے
کھولے ہوئے ہیں اس پار آنے اور اُس پار جانے کیلئے اہم کاغذارت کا تبادلہ
کرنا پڑھتاہے جس کی باقاعدہ پڑتال ہونے کے بعدہم کو سفری اجازت دی جاتی ہے
ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے اندر ظلم ڈھا رہا ہے جس کے
ردعمل میں ہم یوم سیاہ بھی مناتے ہیں اور 5فروری کا دن بھی یوم یکجہتی کے
طور پر مناتے ہیں اسی طرح کے اور بہت سارے دنوں کو ہم بطور خاص بھارت کے
خلاف یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں شدید نعرہ بازی کرتے ہیں اور جلسے اور
جلسوس منعقد کرتے ہیںاور بھارت کے خلاف خوب تقرریں کرتے ہیں اور دوسری جانب
بھارت کو موسٹ فیورٹ ملک اور قوم قرار دیتے ہیں اور پھر جب ہمارا بس چلتا
ہے تو بلوچستان بدامنی کیس میں سپریم کورٹ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے
اپنے موقف سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے کشمیر کے اندر کشمیریوں کی جدوجہد
آزادی کو بغاوت قرار دے دیتے ہیں اور پھر یہی نہیںہر آنے وا لی حکومت کی
اپنی علیحدہ پالیسی ہوتی ہے جو حکومتوں کے ساتھ بدلتی رہتی ہے قائد اعظم
محمد علی جناح سے لیکر موجودہ حکومت کے وزیر اعظم تک کشمیر کے حوالے سے
مختلف پالیسیاں بنتی رہیں اور آنے والی ہر نئی حکومت نے سابق حکومت کی
پالیسی کو ختم کرکے اپنی پالیسی کو نافذ کیا پالیسیوں کے حوالے سے حکومتوں
کی مختلف آرا ءمیں ہونے والے پیش رفت بھی سامنے ہے یہ تمام باتیں اپنی جگہ
لیکن بالآخر بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لوگوں کو اس بات کو تسلیم
کرنا ہو گاکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارتی تسلط اور کشمیر پر ناجائز قبضے سے
آزادی چاہتے ہیں دنیا کے اندر بہت سارے ممالک نے آزادیاں حاصل کرکے علیحدہ
ریاستیں قائم کرلیں ہیں لیکن اس کے مقابلے میں کشمیری نصف صدی سے آزادی
مانگ رہیں ہیں لیکن عالمی طاقتیں خاموش نماشائی بنی ہوئی ہے بعض اوقات ایسے
محسوس ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورتحال اور اس کو اسی صورتحال پر
قائم رکھنے میں ہی عالمی طاقتوں کامفاد ہے اور اسی مفاد کی حفاظت کی خاطر
عالمی طاقتیں پاکستان اور بھارت کو بلیک میل بھی کرتی ہے لیکن ہم کو دوسروں
پرتنقید کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا ضرور چاہے وہ گھر جس کے ایک
حصے کے لوگ آزاد ہیں اور دوسرے حصے کے لوگ قید ہیں فرق صرف دیوار کا
ہے۔آزاد کشمیر کو تحریک آزاد کشمیر کے بیس کیمپ کی حیثیت حاصل ہے مگر
انتہائی افسوس سے یہ بات سپر د حقیقت کرنا پڑھ رہی ہے کہ تحریک آزاد ی
کشمیر کا یہ بیس کیمپ اقتدار کے ریس کیمپ میں تبدیل ہو چکا ہے مخصوص دنوں
کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو یاد کرنے کیلئے آزاد کشمیر حکومت کے
پاس وقت ہی نہیں لاتعداد وزیر،لاتعداد مشیر،لاتعداد ڈپٹی مشیراور لاتعداد
وہ سیاسی عہدے جس کو آپ محض سیاسی رشوت ہی کہہ سکتے ہیں آزاد کشمیر کے
معصوم سے خزانے پر بوجھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقبوضہ کشمیر کے
مسلمان آزاد ی کی تحریک میں مصروف ہیں اور ہم اقتدار کی تحریک میں مصروف
ہیں ہے نہ فرق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم کو بحیثیت کشمیری قوم اس فرق کو کبھی نہ کبھی دور
کرنا ہو گا اور وہ منزل جو نامعلوم منزل کا روپ دھار چکی ہے اس منزل کو
نامعلوم منزل ہونے سے آگے بڑھ کر بچانا ہے بصورت دیگر ہماری نسلیں ہم کو
کبھی معاف نہیں کرئینگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |