ایسا لگتا ہے جیسے دنیا کی سب سے
عظیم جمہوریت کی راجدھانی ’نئی دہلی ‘آج کل عصمت کے لٹیروں کے قبضے میں
ہے۔ہر دن عصمت دری کے دل سوز سانحات و حادثے اس پابندی سے ادا کیے جاتے ہیں
جیسے یہ زندگی کا حصہ ہوں ۔اخبارات کے صفحوں پر ہر دن ایسا کو ئی نہ کو ئی
واقعہ شائع ہوتا رہتا ہے۔ عصمت کے درندوں کی دبنگی کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی
کے بھی گھر میں گھس کر منہ کالے کر جاتے ہیں۔جدو جہد کر نے پر درندگی اور
سفاکی سے بھی نہیں چوکتے ‘اپنی ہوس پوری کر کے نکل جاتے ہیں اور متاثرہ
اپنے زخم چاٹتی رہ جاتی ہے ۔ایک عرصے تک تو اس کے ہوش غائب رہتے ہیں ‘پھر
جب ہوش آتے ہیں تو وہ پولیس میں رپورٹ درج کر اتی ہے مگر تب تک مجرم کالی
کوسوں پر دور بھاگ جاتا ہے۔پھر میڈیا اور نام نہاد ہمدردوں کی بھیڑ اسے
گھیر لیتی ہے‘ جو بجائے اس کے دکھ پر افسوس کر نے اس پر سوالوں کی بوچھاڑکر
دیتی ہے۔’’یہ کیا ہوا ‘کیسے ہوا ‘ کیوں ہوا‘تم اکیلی کیوں تھیں؟غرض جتنے
منہ اتنی باتیں۔زخموں پر مرہم رکھنے کی انسانیت کسی میں نہیں ‘کچھ تواس کے
کردار پر ہی کیچڑ اچھال دیتے ہیں اور متاثرہ دوہرے کرب سے دوچار ہوجاتی ہے۔
وسنت وہار کے درناک سانحے کی یادیں ابھی تازہ ہیں کہ نئی دہلی کے ہی ایک
اور اہم علاقے لاجپت نگر میں ایک 19سالہ دوشیزہ عصمت دری اور درندگی کی
شکار ہو کر موت و زندگی کے بیچ تڑپ رہی ہے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق ایک انل
کمارنامی کیبل آپریٹرنے کیبل ٹھیک کر نے کے بہانے گھر میں گھس کر اکیلی
لڑکی کو دیکھ کر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی جب لڑکی نے شور مچایا تو اس کی
آنکھوں میں سفاکی آگئی اور اس نے پاس رکھی راڑ لڑکی کے منہ میں ٹھونس دی جس
سے اس معصوم کی آواز دب گئی ‘نہ صرف آواز دبی بلکہ طبی رپورٹ کے مطابق اس
کی سانس کی نلی بھی پھٹ گئی۔اسے فوری طور پر مول چند اسپتال میں داخل کر
ایا گیا پھر جلد وہاں سے ایمس ریفر کر دیا گیا۔
اس دردناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی کم ہے بلکہ اب تو مذمتوں سے
اونچا اٹھ کر کچھ اقدام کر نے ہوں گے ۔حکومتیں انتظامیہ اور سیاست مدنیہ کے
سربراہان ’مذمت پرو ف ‘ہوچکے ہیں ۔وہ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان کے سامنے
‘ان کے شہر میں‘ان کے علاقوں میں بڑے سے بڑے حادثے ہو جا ئیں وہ مگر مچھ کے
آنسوؤں سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ان کے لیے یہ روز کے تماشے ہیں ۔پولیس
میں رشوت خوری اور غنڈوں کی پشت پناہی کی ایسی گندی عادت اور لت پیدا ہو ئی
ہے جس کا چھوٹنا پہاڑکے اپنی جگہ سے ہلنے کے برابر ہے۔بسااوقات پہاڑ بھی
اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں مگر اس کا چھوٹنا ممکن نہیں ہے ۔
دہلی کی وزیر اعلا کی بے حسی اور بے غیرتی کے بھی کیا کہنے رات دن ان کی
دہلی لٹ رہی ہے ‘جرائم پیشہ لوگوں نے غدر مچا رکھا ہے ۔دن دہاڑے وہ لوگ
راہگیروں کو لوٹتے ہیں اور رات میں ماں بہنوں کی عصمتوں کو ڈستے ہیں مگر
وزیراعلا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔بار بار مطالبا کیا جاتا ہے کہ
جرائم کے اڈوں(شراب ‘جوئے‘قمار بازی۔کوٹھے بازی ‘فلموں اور ہندی انگلش
اخباروں کی عریاں نگاری )پر قدغن لگائی جائے تا کہ سماج میں پھیلنے والی
برائیوں پرروک لگے مگر اسے میڈیااور فن کی آزادی کہہ کر فروغ دیا جاتا ہے
او ر اس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو باغی کہا جاتا ہے۔حالانکہ حقیقت یہ
ہے کہ انسان کے اندر جنسیت کی بھوک اسی وقت بیدار ہوتی ہے جب وہ اخباروں
میں ننگی اور سیکس اپیل تصویریں دیکھتا ہے پھر اس کو مٹانے کے لیے چل پڑتا
ہے اور جہاں کہیں موقع دیکھتا ہے یا بے موقع ہی حیوانیت کر ڈالتا ہے ۔
المیہ یہی نہیں ہے بلکہ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ اگر کسی پر فردجرم عاید ہو
بھی جا ئے تو بھی اسے کیفر کر دارتک نہیں پہنچایا جاتا بلکہ عوام سے رائے
لی جاتی ہے کہ ’ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ‘اور عوام دو حصوں میں بٹ
جاتے ہیں ۔کچھ کی رائے ہوتی ہے کہ عبر ت ناک سزا دی جائے اور دوسرا گروہ ان
کے بال بچوں کا حوالہ دیکر ان کی زندگی کی بھیک مانگتا ہے اور عدالت کا
پلڑا دوسرے گر وہ کی طرف جھک جاتا ہے ۔عدالت کسی کی زندگی کو اہم مانتی ہے
اس کی نظر میں یہ اہم نہیں ہے کہ اس حیوان نے کسی کی زندگی ہی تباہ کردی۔
وہ معصوم عمر بھر کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ر ہتی ۔اس کا زندہ رہنا
یا مرجانا برابر ہوتا ہے۔واہ ری عدالت تو بھی انصاف سے خالی ہو گئی یا رشوت
خور تیرا اختیار اب لوگوں کے ہاتھ میں آگیا اور یہ اختیار منتقلی جمہوری
نظام کے لیے موت ثابت ہوتی ہے۔اب ہم کہاں انصاف ڈھونڈیں کس سے منصفی چاہیں
۔
دہلی ‘ہندوستا ن کاکو ئی چھوٹا موٹا شہر نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہندوستان
کی نمایندگی کر نے والا شہر ہے۔ایک ایسا شہر ہے جسے دیکھ کر باہر کے لوگ
ہندوستان کو دیکھتے ہیں۔ یہاں ہو نے والی ہر آہٹ کی گونج باہر سنائی دیتی
ہے۔یہاں اٹھنے والی ہر آواز باہر محسوس کی جاتی ہے اور یہاں انجام دی جانے
والی ہر برائی باہر دیکھا ئی دیتی ہے۔ ایک لفظ میں کہاجائے تو دہلی کی
بدنامی پورے ہندوستان کی بدنامی ہے ۔ان وجوہات کی بنا پر دہلی کی حکومت
‘مرکزی حکومت او ردہلی و مرکزی انتظامیہ کی ذمے داریاں دوگنی تگنی بلکہ چار
گنی ہو جاتی ہیں کہ وہ ہر لمحہ ‘ساعت ساعت خبر دار اور ہو شیار رہیں اور ہر
ایسے اٹھنے والے فتنے ‘برائی ‘جرم اور گناہ کا سر کچل دیں جو دہلی نہیں
بلکہ ہندوستان کی بدنامی کا باعث بنے ۔مگر مجھے امید نہیں ہے حکومتیں اور
انتظامیہ میرے اس ’مفت ‘ کے مشورے پر عمل کر یں گی ۔وہ اپنے من کی چلاتی
ہیں اور مادر ہندوستان کی وہ تصویر دنیا کے سامنے دکھاتی ہیں جس میں قتل
‘خون‘ عصمت ‘ دریوں‘لوٹ مار اور برائیوں کے نقش ابھرے ہو ئے ہوتے ہیں۔
’اثر کر ے نہ کر کے سن تو لو میری فریاد‘خدارا! اب بہت ہو چکا ۔اور کتنا
ہمیں ایسے حالات دیکھنے پڑیں گے ۔کب تک ہم اور ایسا دیکھیں گے۔آئیے !خدا کے
لیے دہلی کو عصمت کے لٹیروں سے بچائیے۔ایسے لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچا
کر ساری دنیا کو دکھا ئیے کہ ہندوستان میں جرائم پیشہ افراد کے لیے کو ئی
جگہ نہیں ہے اور معاشرے میں برائی پھیلانے والوں کو دیس نکالا دیدیا جاتا
ہے۔
احساس
دہلی ‘ہندوستا ن کاکو ئی چھوٹا موٹا شہر نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہندوستان
کی نمایندگی کر نے والا شہر ہے۔ایک ایسا شہر ہے جسے دیکھ کر باہر کے لوگ
ہندوستان کو دیکھتے ہیں۔ یہاں ہو نے والی ہر آہٹ کی گونج باہر سنائی دیتی
ہے۔یہاں اٹھنے والی ہر آواز باہر محسوس کی جاتی ہے اور یہاں انجام دی جانے
والی ہر برائی باہر دیکھا ئی دیتی ہے۔ان وجوہات کی بنا پر دہلی کی حکومت
‘مرکزی حکومت او ردہلی و مرکزی انتظامیہ کی ذمے داریاں دوگنی تگنی بلکہ چار
گنی ہو جاتی ہیں کہ وہ ہر لمحہ ‘ساعت ساعت خبر دار اور ہو شیار رہیں اور ہر
ایسے اٹھنے والے فتنے ‘برائی ‘جرم اور گناہ کا سر کچل دیں جو دہلی نہیں
بلکہ ہندوستان کی بدنامی کا باعث بنے ۔مگر مجھے امید نہیں ہے حکومتیں اور
انتظامیہ میرے اس ’مفت ‘ کے مشورے پر عمل کر یں گی ۔وہ اپنے من کی چلاتی
ہیں اور مادر ہندوستان کی وہ تصویر دنیا کے سامنے دکھاتی ہیں جس میں قتل
‘خون‘ عصمت ‘ دریوں‘لوٹ مار اور برائیوں کے نقش ابھرے ہو ئے ہوتے ہیں۔ |