ادب میں آرٹیکل نویسی کا فن
میڈیا کی بدولت بہت تیزی سے ترقی پا رہا ہے جس کے ذریعے عام آدمی اپنا
پیغام اور کسی بھی موضوع کے متعلق اپنا نظریہ باآسانی دوسروں تک پہنچا سکتا
ہے آپ قارئین نے “ہماری ویب ڈاٹ کوم“ پر میری تحریریں پڑھی ہوں گی ایک بہن
نے اپنے پیغام میں خواہش ظاہر کی تھی کہ آرٹیکل نویسی کی تکنیک کے بارے میں
کچھ تحریر کروں تو ان کی خواہش پر عمل درآمد کی حقیر کوشش میں یہ تحریر
لکھنے کا خیال آیا ہے سو اس موضوع پر ناچیز کی یہ مختصر تحریر پیش خدمت ہے
پیشتر اس کے کہ مضامین کی تکنیک کے بارے میں کچھ تحریر کروں یہ باور کروانا
ضروری کہ اس ناچیز نے جب بھی کچھ تحریر کیا ہے کسی بھی قسم کی تکنیک سے
مبرا ہو کر جو خیال جس طرح دل و دماغ میں آیا من وعن بیان کر دیا جس بات کو
یا جس خیال کو دوسروں تک پہنچانے کے قابل سمجھا تکنیکی پابندیوں سے آزاد ہو
کر ایک سادہ تحریر کی صورت نذر قارئین کردیا بہرحال آرٹیکل کی تکنیک کے
بارے میں اس ناچیز کو کچھ زیادہ علم تو نہیں پھر بھی میرے خیال میں موضوع
کا انتخاب، تحریر کی سادگی اور کسی بھی موضوع کے متعلق حقائق سے آگاہی
تحریر کے لئے لازمی اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں اس کے علاوہ موضوع کی نوعیت
کے اعتبار سے مناسب الفاظ کا انتخاب کرنا بھی تحریر کے لئے ضروری ہے بہتر
تو یہ ہے کہ جب آپ کچھ لکھنا چاہیں تو پہلے سوچ لیں کے آپ کس موضوع پر
لکھنا چاہتے ہیں جس موضوع پر لکھنا مقصود ہے اس کے بارے میں آپ کس قدر
آگاہی رکھتے ہیں پہلے سوچیں پھر لکھیں لکھنے کے بعد کم از کم دو سے تین
مرتبہ نظر ثانی کریں کہیں تحریر میں کہیں کوئی جھول تو محسوس نہیں ہو رہا
تحریر پڑھنے میں کوئی الجھن یا پیچیدگی تو نہیں اور جو کچھ آپ نے لکھا ہے
آپ خود اس سے مطمئن ہیں جب آپ کا دل اپنی تحریر سے پوری طرح مطمئن ہو جائے
تب تحریر کو منظر عام پر لے آئیں سادگی اور اختصار تحریر کی خوبصورتی ہے
کوشش کریں تحریر سادہ مختصر اور جامع ہو بعض اوقات مختصر تحریر بھی اپنے
اندر بہت جامعیت رکھتی ہے جو کہ تحریر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتی
ہے لیکن آرٹیکل اس قدر بھی مختصر نہ ہو کہ آرٹیکل کی ہیئیت ہی نہ رہے اور
نہ ہی اس قدر طوالت لئے ہوئے ہو کہ قاری بوریت کا شکار ہونے لگے آرٹیکل کی
ضخامت کی مناسبت کو بھی مدنظر رکھیں نہ زیادہ مختصر ہو اور نہ ہی زیادہ
طویل ہو نیز آرٹیکل کے لئے ایسے موضوع کا انتخاب کریں جو حقائق پر مبنی اور
قارئین کی دلچسپی کا مرکز ہو سبق آموز ہو معاشرے سے منفی رجحانات کے فقدان
کا ذریعہ بننے میں معاون ہو سکے اور مثبت رجحانات کے فروغ کا باعث بن سکے
شکریہ |