طالبان ماریں گے تو اس سے
بہتر ہے کہ اپنے ہاتھوں ہی سے خود مرجائیں "۔ یہ الفاظ اس امریکی جنرل کے
ہیں جسے ایک فوجی دستے کے ساتھ ڈیوٹی کے لیے افغانستان بھیجا جارہاتھا ۔
افغانستان آنے سے قبل خودکشی کرتے وقت اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا " ہم
افغانستان جارہے ہیں وہاں تو لامحالہ جنگ میں طالبان ہمیں ماریں گے ، لیکن
اگر ہم خودکشی کریں تو یہ ہمارے لیے زیادہ بہتر ہوگا کیوں کہ یہاں ہماری
میت پر کچھ لوگ جمع ہوکر افسوس تو کریں گے وہاں افغانستان میں مرنے والوں
کے ورثا تو اپنے پیاروں کو دیکھ بھی نہیں پاتے ، کیوں کہ وہ دیکھنے کے قابل
نہیں ہوتے ، وہاں طالبان ہمیں بڑے بڑے بارودی سرنگوں سے اڑائیں گے"۔ دن بدن
امریکی فوجی افغانستان کی جنگ میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ اب افغانستان ان کے
لیے ایک شمشان گھاٹ بن گیا ہے ۔ پہلے سپر پاور کا نعرہ لگاتے اور خود کو
دنیا کا سب سے بڑابدمعاش قراردیتے ۔یہاں تک کہ کچھ بزدل مسلمان بھی یہ کہنے
لگے کہ امریکا ایک بڑی قوت ہے اس سے ٹکرانا پاگل پنے سے زیادہ کچھ نہیں ،
اس کی طاقت کا مقابلہ بالکل ناممکن ہے خاصکر افغانوں اور طالبان کے لیے ۔
لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا ایسا نہیں ہوا جس طرح لوگوں نے
سوچ رکھا تھا ۔
افغانستان پرامریکی جارحیت کے بعد ہی سے ان کی شکست اور پشیمانی کے آثار
ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ انہوں نے یلغار سے قبل جو دعوے کیے تھے بعد میں
صورتحال ان کے دعووں کے بالکل برعکس تھی ۔ افغانستان پر حملہ اور طالبان کے
خلاف جنگ کو انہوں نے ایک معمولی سا اقدام سمجھا ۔ لیکن اس دلدل میں دھنسنے
کے بعد یہاں سے نکلنا انہیں ایک مشکل کام نظر آرہا ہے ، جان چھڑانے کی راہ
انہیں نظر نہیں آرہی ۔ نیٹو انٹلانٹک اور دنیا کی دیگر بڑی طاقتیں اب شکست
تسلیم کیے کھڑی ہیں ۔ کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف بھاگتے ہیں لیکن جان
خلاصی کا صحیح راستہ اب بھی انہیں سجھائی نہیں دیتا ۔ اب وہ جو کہتے ہیں
ناک میں دم کردیا ہے یقینی امریکی اب پریشان ہیں کہ ہم کون تھے ، کیا تھے
اور کیا ہوگئے ۔ بااعتماد رپورٹوں کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر فوجی
دستہ جو تبادلے کے لیے افغانستان آتا ہے چار اہم نامناسب تدابیر سے خود کو
بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ یعنی شر میں اپنی خیر سمجھتے ہیں فارسی ضرب المثل
ہے کہ :"شرما بخیزد کہ خیر ماباشد "۔ خود کو نقصان پہنچا کر یہ کوشش کرتے
ہیں کہ شاید اس طرح سے افغانستان جانے یا افغانستان کی جنگ سے بچ جائیں گے
۔
سب سے پہلے تو خود کو پاگل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ ان کے قانون
میں جنونی جنگ میں حصہ نہیں لے سکتا ۔ دوسرا خود کو خنجر ، چھری یا گولیوں
سے ایسا زخم لگاتے ہیں کہ جس سے معذور ہوں یا مر جائیں ۔ اور یاایسے زخمی
کردیتے ہیں جو ان کی جنگی اصولوں کے مطابق جنگ کے قابل نہیں ہوتے ۔ تیسرا
کسی اور کو گولی سے ماردیتے یا زخمی کردیتے ہیں ، یا چوری اور ڈاکے کا
ارتکاب کرلیتے ہیں ، یا سخت جرائم کے مرتکب ہوکر حکومت کی جانب سے گرفتار
اور قید کرلیے جاتے ہیں اس طرح سے جنگوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرلیتے ہیں ۔
عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے حالیہ دنوں میں خودکشیوں کے بارے میں جو
رپورٹیں نشر ہوئی ہیں ان میں خودکشی کرنے والے فوجیوں کے اعداد وشمار کے
متعلق سروے میں کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد 55فیصد سالانہ تک پہنچ گئی ہے ۔
N.B.Cٹی وی کے مطابق افغانستان میں جو فوجی یا افسران جنگ میں مارے جاتے
ہیں خود کشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد ان سے زیادہ ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے دوران خودکشی کرنے والے فوجیوں کی خبروں کا
نشر ہونا پریشان کن ہے کیوں کہ اس سے پتہ چلتا ہے امریکی فوجیوں میں خودکشی
کے واقعات دن بدن بڑھ رہے ہیں ۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 6سالوں میں امریکی فوجیوں کی خودکشی کی
واقعات سالانہ55فیصد تک پہنچ گئے ہیں ۔ امریکی وزارت دفاع پینٹا گون اگرچہ
اپنے فوجیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے گرتے مورال کو سنبھالا دینے کے لیے
میلینوں ڈالر خرچ کررہا ہے مگر امریکی فوجی پھر بھی خودکشی کررہے ہیں ۔
رپورٹ میں حیرت انگیز طورپر کہا گیاہے کہ جب سے امریکی پینٹاگون نے
خودکشیوں کی روک تھام کے لیے پروگرام کا آغاز کیا ہے امریکی فوجیوں میں
خودکشی کے واقعات میں 9فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ اس سے پہلے بھی ایک رپورٹ
میں کہا گیا تھا کہ 30امریکی فوجی روزانہ افغانستان میں خودکشی کی کوشش
کرتے ہیں جن میں سے 5یا 4اس کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔ ان اعداد
وشمار کے ذریعے افغانستان میں امریکیوں اور دیگر جارحیت پسندوں کی ہلاکتوں
کا صحیح اندازہ معلوم کیا جاسکتا ہے ۔ اگرچہ امریکا نے گذشتہ افغانستان میں
اپنے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی کل تعداد 400سے کچھ زیادہ بتائی ہے مگر آزاد
ذرائع ، طالبان اور عینی شاہدین اس گنتی کو کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں اور ان
کی باتوں کو جھوٹ قراردیتے ہیں ۔
یہ ایسے واقعات ہیں جن کو پوشیدہ بھی نہیں رکھا جاسکتا ۔یہاں تک کہ ایسے
واقعات بھی ہوئے ہیں کہ بہت سی امریکی خواتین اپنے شوہر یا Boy Friendsکے
افغانستان جانے پر خودکشی کرلیتی ہیں ، پھر افغانستان جانے والے دستے کی
روانگی کے وقت ایک دستے کے فوجیوں میں سے بہت سوں کو دست کی بیماری لگ جاتی
ہے ایسے فوجی بھی جنگ کے قابل نہیں ہوتے بالآخر 100 میں سے 45فوجی
افغانستان بھیجے جاتے ہیں ۔
اب امریکا میں یہ بات مشہور ہے کہ امریکی فوجی آپس میں یہ کہتے ہیں کہ
افغانستان کی ہاری ہوئی جنگ میں طالبان مارتے ہیں ہم اپنے آپ کو خود ہی
ماردیں تو زیادہ بہتر ہے ۔جو کوئی ایک فوجی دستہ ایک مرتبہ افغانستان آیا
ہے اور اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے پھر وہ کبھی بھی افغانستان نہیں آیا ،
یا تو افغانستان میں قتل اور زخمی ہوجاتے ہیں یا دوبارہ افغانستان جانے کے
خوف سے خود کشی کرتے ہیں اور یا خود کوہمیشہ کے لیے معذور کردیتے ہیں ۔
اقتصادی طاقت ، فوجی طاقت اور پچھلے رعب ودبدبہ میں سے اب کچھ بھی باقی
نہیں رہا کئی کئی بار اقتصادی بحران کا راستہ روکنے کے لیے بند باندھا گیا
مگر سب بے سود ثابت ہوا ۔
اور وہ جو وہاں افغانستان میں موجود ہیں افغان جنگ کی پریشان کن صورتحال سے
جن کے دل پھٹے جارہے ہیں وہ تو ایک الگ ہی موضوع ہے ۔ مجاہدین کا رعب ان کے
دلوں میں ایک بیماری بن چکا ہے کئی امریکی سول عوام جو ذرائع ابلاغ پر
طالبان کے بارودی سرنگوں کے دھماکے دیکھتے ہیں ، اپنے پیاروں کی ہلاکتیں
دیکھتے ہیں یا اپنے رشتہ داروں کے ٹکڑے ٹکڑے جسم دیکھتے ہیں وہ گھروں میں
بیٹھے بیٹھے پاگل ہوجاتے ہیں ۔ کبھی کبھی تو بچوں کو بھی طالبان کے نام سے
ڈراتے ہیں ۔بچے جب شور کرتے یا روتے ہیں تو اپنی زبان میں یوں کہتے ہیں
Keep Quiet Don’t Cry The Taliban They Will Com۔" چپ ہوجاؤ ،رونا مت
طالبان آجائیں گے"۔ اب پانی سر سے گذرچکاہے امریکا اپنے کیے پر یقینا پچھتا
رہا ہے ، امریکی فوجی اس جنگ میں یا تو مارے جاتے ہیں اوریا اپنے گلے میں
خود پھندا ڈالتے ہیں ۔ اقتصاد سے لے کر جانی نقصان تک کچھ بھی نہیں بچا جس
سے توقع رکھیں ۔ تاریخ میں اس کا ایسا براانجام رقم ہورہاہے کہ شاید آئندہ
کبھی بھی متکبرانہ لہجے میں کوئی بڑا دعوی نہ کرسکے ۔
بشکریہ. فیس بک- |