ہم پاکستانی قوم بھی کیا عجیب
قوم ہے ،تضادات سے بھری زندگی تو گویا ہماری پہچان بن چکی ہے.بیشتر اوقات
ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ بلکہ حد تو یہ ہے کہ بسا اوقات ہمارا ضمیر
کسی کام کو کرنے کی ہمیں اجازت نہیں دیتا اور وہ ہمیں لعنت ملامت کررہا
ہوتا ہے لیکن کیا کرے کہ ''کہ مہذب دنیا،، کے ساتھ چلنے کی ہمیں ایسی لت
پڑچکی ہے کہ اکثر اوقات ہم اپنےضمیر کا گلہ گھونٹنے سے بھی دریغ نہیں
کرتے.ایسے مواقع تو خیر ہماری زندگی میں بار ہا آتے ہیں جب ہم اپنے ضمیر کو
اپنے ہی پیروں کے نیچے دباکر ان کے گلے پر چھری پیر لیتے ہیں لیکن آج ہم دن
کے مناسبت اسے اس واقعے کا تذکرہ کرینگے جنہیں ہم ویلنٹائن ڈے کہتے ہیں-
14 فروری کو ''ترقی یافتہ دنیا،، ویلنٹائن ڈے کو بڑے جوش و خروش اور نہائت
ہی ''احترام ،، سے مناتا ہیں وطن عزیز پاکستان میں اگر ہم چند سال پہلے یا
یوں سمجھ لیجیئے کہ الیکٹرونک میڈیا کا جن بے قابو ہونے سے پہلے کے حالات
کا جائزہ لے تو ہمارے ہاں ویلٹائن ڈے منانے کا کوئی تصور موجود نہ تھا اور
اگر کہیں ایلیٹ کلاس کے چند اوباش لڑکے ، لڑکیوں میں تھا بھی تو تب بھی ان
میں اتنی جراًت نہ تھی کہ وہ سر بازار اس بیہودہ رسم کو مناتے - لیکن
بدقسمتی سے جب سے پاکستانی الیکٹرونک میڈیا بے لگام ہوچکا ہے تب سے تو ایسا
لگ رہا ہے کہ ویلنٹائن ڈے انگریزوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں اور باالخصوص
پاکستانی مسلمانوں کا کوئی تاریخی رسم ہےاور چند سال پہلے جس دن کو منانے
کا ہمارے ہاں کوئی تصور ہی نہ تھا آج اس دن کے آنے سے کئی دن پہلے ہمارے
ہاں کا اسلام بیزار طبقہ اس دن کو منانے کی تیاریاں شروع کردیتی ہے.لیکن
ایک اہم سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ویلنٹائن ڈے محض ایک شوقیہ رسم
ہے یا اسکا کچھ اور پس منظر بھی ہے ؟ تو اس بارے میں جامعہ اشرفیہ لاہور کے
مولانا مفتی کفیل خان کا ایک بیان ملاحظہ بیان فرمائیں-'' عیسائی مذہب میں
جو شخص پادری بنتا ہے تو وہ شادی نہیں کرسکتا اسی طرح وہ خاتون جو چرچ کی
خدمت پر مامور ہوتی ہے اور جسے عیسائی مذہب میں ننس یا سسٹر کہا جاتا ہے وہ
بھی عیسائی مذہب کے رو سے شادی نہیں کر سکتی اسی بنا پر گرجا گھروں میں
جنسی بے راہ روی عام ہوتی ہے . سینٹ ویلنٹائن ایک عیسائی پادری تھا جنکا اس
زمانے کے لوگ بہت عزت کرتے تھے.اس زمانے میں بھی چونکہ لڑکے،لڑکیوں کے گھر
سے بھاگنا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن سینٹ ویلنٹائن نامی وہ پادری نہ صرف
گھر سے بھاگنے والے جوڑوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے بلکہ انکو اپنے چرچ
میں پناہ بھی دیتے تھے.کرتے کرتے ایک دن حضرت ویلنٹائن بھی اسی رو میں بہ
پڑے اور شاہی خاندان کے ایک لڑکی کے ساتھ انہوں نے بھی ہاتھ صاف
کردئیں.پادری صاحب کے اس کارنامے کی خبر جب بادشاہ وقت کو ہوا تو انکے حکم
سے پادری ویلنٹائن کو پکڑ لیا گیا اور اسکے بعد اسے انکے سیاہ کارناموں کی
وجہ سے قتل کردیاگیا.اسکے بعد وہ پادری جو کہ ایک عظیم جرم کے پاداش مین
قتل ہوگیا تھا، شہید محبت کہلایا. اور آج صدیوں بعد مسلمان بھی اصل حقائق
سے صرف نظر کرکے بڑے جوش و خروش سے نہ صرف ویلنٹائن ڈے خود منارہے ہیں بلکہ
اوروں کو اسکے منانے کی ترغیب بھی دیتے نظر آتے ہیں-
یہاں عوام الناس کی خدمت میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ویلنٹائن ڈے
کے حوالے سے حقائق تو آپ نے ملاحظہ فرمالیئں ہیں مزید ایک ،دو باتیں ملاحظہ
فرمائیے اور اس کے بعد جو اپکا ضمیر کہے اس پر بلا جھجک لبیک کہئیے.
1.ویلنٹائن ایک مذہبی پیشوا تھا اور اس زمانے کے لوگ اسکے انتہائی تکریم و
عزت کیا کرتے تھے لیکن اسنے پھر بھی غلط راستے کا انتخاب کیا .سوال یہ ہےکہ
اگر آج ہمارے ہاں خدانخواستہ کوئی مفتی یا عالم دین کسی کا لڑکی بھگا کر لے
جائے یا کسی لڑکی کا عزت لوٹ لے تو ایمانداری سے بتائیں کہ کیا آپ انکو وہ
عزت دینگے جو آپ آج ویلنٹائن ڈے مناکر ویلنٹائن کو دے رہے ہیں یا اپکا
ردعمل اسکے برعکس ہوگا؟اگر اپ اس مفتی یا عالم کو ویلنٹائن جیسے عزت دینے
کے لئیے تیار ہےتو پھر 14 فروری کو شوق سے ویلنٹائن ڈے منائیں لیکن اگر اس
مفتی یا عالم کا تھیکہ بوٹی کرنا چاہتے ہیں تو پھر حضرت ویلنٹائن سے اتنی
ہمدردی کیوں ؟ سوچئیے گا ضرور.
2.اللہ تعالٰی قرآن کرمیں ارشاد فرماتے ہے کہ "اے اہل ایمان یہود ونصارٰی
کو دوست مت بناؤ یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ،تم میں سے جو کوئی
بھی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہی میں سے ہے، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو
ہدایت نہیں دیتا-''سورۃ المائدہ آیت 51،، قرآن مجید کے ان واضح اور دو ٹوک
احکامات کے بعد اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ یا توقرآن حکیم کے احکامات کو من و
عن تسلیم کرکے دینا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوجائے یا پھر غیروں کی تقلید
کرتے ہوئے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے- |