انسان اپنی ذات میں ایک بادشاہ
ہے مگر دنیا میں بہت کم لوگ اس بادشاہت سے مستفید ہوتے ہیں۔ انسان کو خالق
کائنات نے اشرف ا لمخلوقات بنایا اور پھر دنیا میں اپنا خلیفہ (نائب) کے
عظیم عہدہ سے نوازا۔ انسان کو بے حساب نعمتوں سے نوازا اور اس پر سب سے بڑا
احسان یہ کیا کہ اس کو اس کی استطاعت کے مطابق جوابدہ ٹھرایا۔ مگر تھوڑی سی
شرائط و ضوابط عائد کیں وہ بھی اس کی بہتری اور فائدے کے لیے۔ اس کی زندگی
کو مزید رنگین کرنے کے لیے اس کی جبلت میں کچھ ضروریات اور خواہشات بھی رکھ
دیں ساتھ ہی ان کی تکمیل کا نہ صرف ساماں کر دیا بلکہ اپنے ذمہ لے لیا۔۔
اور مزید سب سے بڑھ کر یہ احسان کیا کہ اس کو اچھے اور برے میں تمیز کے لیے
عقل سے نواز دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی بادشاہت سے مستفید ہو رہے ہیں یا
نہیں۔ یہ ہم میں سے ہر کوئی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے اور اگر نہیں تو کیوں؟
یہ کوی اتنے بڑے راز کی بات نہیں ہے مگر ضرورت ہے سوچنے کی۔ انسان کے اشرف
المخلوقات ہونے کا راز اس کی سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے جو اسے
دنیا میں دوسری مخلوقات سے برتر کرتی ہے۔ تو سمجھ یہ آیا کہ انسان کی سوچ
ہی ہے جو اسے عظیم بھی بناتی ہے اور زلیل بھی کرتی ہے۔ آئے تھوڑی دیر کے
لیے سوچتے ہیں کہ کیوں ہم اپنی بادشاہت سے مستفید نہیں ہو پا رہے؟
کہا گیا کہ جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر یہ ٹھیک ہو گیا تو سب ٹھیک
ہو گیا اور اگر یہ ٹھیک نہ ہوا توسارے اعمال ہی خراب ہو جائیں گے۔ پھر کہا
گیا کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر انسان کے
سوچ اچھی ہوگی تو اعمال بھی اچھے ہونگے اور اگر سوچ غلط ہوگی تو اعمال بھی
غلط ہونگے۔ پھر سوچ کا اثر انسان کے رویے پر ہوتا ہے اگر سوچ اچھی ہوگی تو
رویے بھی اچھے ہونگے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ زیادہ تر مسائل انسان کے
اپنے رویے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اچھا رویہ بذات خود ایک بہت بڑی سافٹ پاور
ہے۔ اگر انسان کا رویہ ٹھیک ہو تو اس کے اندر بہت ساری ایسی پاورز جنریٹ ہو
جاتی ہیں کہ پہلے تو وہ مسائل کو اتنی بڑی مشکل ہی نہیں سمجھتا اور دوسرا
وہ اس کو بڑی ہی حکمت سے حل کر لیتا ہے۔ پھر مثبت سوچ ایک ایسی دولت ہے جو
نہ صرف دوسروں کی نظروں میں انسان کو مقرب کرتی ہے بلکہ اس کے اپنے اندر
بہت ساری خوبیاں پیدا کرتی ہے اور انسان کو پراعتمادی کی دولت کے ساتھ ساتھ
اس کی صحت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ جب انسان کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے تو وہ
اپنے اندر ایک عجب سا سکوں محسوس کرتا ہے اور اس کا اثر اس کے چہرے سے صاف
عیاں ہوتا ہے۔ جسے لوگ عام زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کے چہرے پر کتنا
نور ہے۔
انسان جب اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو وہ اپنی ضروریات اور خواہشات کو
اعتدال میں رکھتا ہے۔ اپنی ضروریات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا اور
نہ ہی اپنی خواہشات کو اس حد تک بڑھاتا ہے کہ وہ اس کی زندگی کا سکون تباہ
کر دیں۔ خواہشات کے حصار میں رہنے والوں کو دنیا میں گنی چنی خوشیاں نصیب
ہوتی ہیں کیونکہ خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی اور اس کی میں ایک مثال دینا
چاہوں گا کہ اگر انسان کے پاس سائیکل ہو اور اس کی خواہش موٹر سائیکل پر جا
چکی ہو اور جب موٹر سائیکل ملے تو گاڑی اس کی خواہش بن چکی ہو تو اسکو نہ
سائیکل کی خوشی ہوگی اور نہ موٹر سائیکل کی۔ اس لیے سمجھدار انسان وہی ہے
جو اپنے آپ کو فضول ضروریات اور خواہشات سے آزاد رکھے۔
سادگی بہت بڑی نعمت ہے اور انسان بہت ساری سر دردیوں سے بچ جاتا ہے اور نہ
صرف خود سکون میں رہتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک ماڈل ہوتا ہے۔ سادہ
انسان میں نہ تو بڑا بننے کا شوق ہوتا ہے اور نہ وہ فضولیات پر یقین رکھتا
ہے۔ جو وہ ہوتا ہے اس کی اصلی حالت سب کے سامنے ہوتی ہے اور اس کی سادگی
اور سچائی ہی اس کی پہچان ہوتی ہے۔
قناعت پسندی بہت بڑی نعمت ہے اور انسان کے اندر صبر اور شکر بہت بڑی خوبی
اور صلاحیت ہے۔ جو لوگ ان پر کار بند رہتے ہیں ان کی زندگی میں بہت سکون
ہوتا ہے اور وہ کبھی کسی کے محتاج نہیں ہوتے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو
شکر ادا کرتا ہے میں اسے اور دیتا ہوں اور اسی طرح فرماتے ہیں کہ اللہ صبر
کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ
صبر دو طرح سے ہوتا ہے جو مل جا ئے اس پر شکر کرنا اور جو نہ ملا ہو اس کا
انتظار کرنا۔ جس انسان کے اندر یہ خوبیا ں ہوں اسے کوئی تکلیف آبھی جائے تو
وہ خندہ پیشانی سے سامنا کر لیتا ہے اور اسے تکلیف تکلیف ہی نہیں لگتی۔ ہو
اللہ کی مرضی پر خوش ہو جاتا ہے۔
دوسروں کے لیے بھلائی کا جزبہ ہونا بہت بڑی خوبی ہے۔ یہ جزبہ نہ صرف لوگوں
کے دلوں میں جگہ پیدا کرتا ہے بلکہ خالق کائنات کے قرب کا بھی زریعہ بن
جاتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو دوسرے انسانوں کی بھلائ میں لگا ہوتا
ہے میں اس کے کاموں میں لگ جاتا ہوں۔ اور جو دوسروں کے لیے دعائیں کرتا ہے
فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور اللہ اس بندے کے حق میں وہی دعاہیں
قبول کر لیتے ہیں۔
دنیا کی تمام تعمتیں اللہ نے انسان کے لیے پیدا کی ہیں اور ان کا حصول
انسان کا حق ہے۔ اسی ظرح حلال روزی کمانا بھی عین عبادت ہے۔ مگر ضرورت ہے
حلال و حرام کی تمیز کی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر تمیز نہ کرنی ہو تو بہتر
ہے کہ ایسے سکوں کی تلاش کی بجائے یوں ہی سکوں میں رہے: ایک صاحب گھنے درخت
کے سائے تلے بیٹھے رہتے تھے۔ کسی دوست نے کہا ہر وقت فارغ بیٹے رہتے ہو کچھ
کیا کریں۔ تو وہ صاحب بولے پھر کیا ہوگا؟ دوست نے جواب دیا کچھ کرنے سے
دولت آئے گی ۔ وہ صاحب کہنے لگے پھر کیا ہوگا؟ دوست نے کہا پھر تم اس دولت
سے آسائیشیں پائو گے۔ وہ صاحب بولے آسائشوں کے بعد کیا ملے گا؟ دوست نے
جواب دیا۔ سکوں! تو وہ صاحب کہنے لگے تو پہلے کیا ہے ۔ میں سکوں سے ہی تو
بیٹھا ہوا ہوں۔ اگر اتنی زیادہ محنت کے بعد بھی سکوں ہی پانا مقصود ہے تو
میں تو پہلے ہی سکوں سے بیٹھا ہوا ہوں۔ تو بات ہے صرف سمجھنے کی ۔
انسان کے لیے مسرتوں سے بھر پور زندگی کا راز نہ تو زیادہ مال و دولت، بہت
بڑا مقام اور نہ جاہ وجلال میں ہے بلکہ انتیائی سادہ اور حقیقت پسندانہ
زندگی میں ہے جو خالق کائنات کے بتائے ہوئے طریقوں اور اصولوں پر گزاری
جاے۔ اور خوش قسمت ہے وہ انسان جس کو اس راز کی سمجھ آجاے اور وہ اللہ کے
فضل و کرم سے دنیا کے دھوکے والی زندگی سے اپنے آپ کو آزاد رکھنے میں
کامیاب ہو جائے ۔ انسان کی حقیقی بادشاہت اسی میں ہے اور وہ انسان دنیا میں
بھی خوش وخرم رہتا ہے اور پھر اسے دنیا سے جانے کا بھی غم نہیں ہوتا۔ |