بھارت سمیت غیروں کی جیلوں سے پاکستانیوں کو آزاد کروایا جائے

تحریر: محمد اسلم لودھی

آزادی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر ان سے پوچھیں جو کسی نہ کسی وجہ سے جیلوں میں قید ہیں ۔ ویسے تو اپنے ملک کی جیلیں بھی انسانیت سوز سلوک اوربدترین ماحو ل کی وجہ سے کسی سے کم نہیں ہیں لیکن اگر جیل بھی غیروں کی ہو اور بطور خاص بھارت کی ہو تو نہ صرف قید ہونے والا انسان زندہ درگورہوجاتا ہے بلکہ جتنے جرائم بھی اس پر ناجائز طور پر ڈالے جائیں وہ سب کا اقرار کرلیتا ہے ۔ آج تک جتنے بھی پاکستانی بھارتی جیلوں سے کسی نہ کسی طرح آزاد ہوکر وطن واپس لوٹے ہیں وہ تمام کے تمام بے پناہ جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہی ہوتے ہیں انہیں یہ خبرنہیں ہوتی کہ پاکستان میں ان کا گھر کہاں ہے اور گھر میں کون کون ان کا انتظار کرتا ہوا قبروں میں اتر چکا ہے ۔ابھی چند دن پہلے تین پاکستانیوں کو واہگہ سرحد پر رینجر ز کے سپرد کیا گیا ان تینوں پاکستانیوں پر بھارت کی جیلوں میںاس قدر مظالم توڑے گئے کہ وہ اپنا ذہنی توازن ہی کھو بیٹھے ہیں ۔اس سے پہلے بزرگ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر خلیل چشتی ایک ناکردہ جرم کے الزام میں 20 سال بھارت میں قید رہے اور 19 سال مقدمہ چلانے کے بعد ان کو عمر قید سنادی گئی ۔ شومئی قسمت کہ صدر پاکستان نے پہلی مرتبہ بھارتی وزیر اعظم کو ذاتی طور پر ڈاکٹر خلیل چشتی کو رہا کرنے کی درخواست کی تب ان کی جان چھوٹی اور وہ اب حکومت پاکستان کی ضمانت پر کراچی پہنچ چکے ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ جب اپنے ایک عزیز کے گھر موجود تھے کہ وہاں دو افراد کے مابین جھگڑا ہوگیا ان میں سے ایک شخص قتل ہو گیا۔ واقعے کی تفتیش کے لیے جب وہاں پولیس آئی تو پاکستانی کی حیثیت سے ڈاکٹر خلیل کو دانستہ طور پر قتل کیس میں دھر لیاگیا ۔کشمیر ی رہنما افضل گورو کو جس طرح بھارتی ایجنسیوں نے اپنے دام میں پھنسایا اور پھر انصاف کے تمام تر تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 9 فروری 2013ءکو پھانسی دے کر جیل میں ہی دفن کرکے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دی گئی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ بھارت میںکشمیریوں اور پاکستانیوں کی جان و مال کس حد تک خطرے میں ہے ۔یہ تو چند پاکستانیوں کی داستان ہے جو صرف بھارت میں ناجائز طور پر قید تھے اور ان کے ساتھ بھارت نے کیا کچھ نہیں کیا لیکن اس کے برعکس پاکستانی جیلوں میں قید سربجیت سنگھ جیسے دہشت گردوں ( جوخود جاسوس ہونے اور بم دھماکوں کرنے کا خود اعتراف بھی کر چکے ہیں ) کو نہ صرف وی آئی پی قیدی کی حیثیت حاصل ہے بلکہ اس کی رہائی کے لیے پاکستانی حکومت حد سے زیادہ خیر سگالی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔اس لمحے ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستانی ہی اتنے لاوارث ہو چکے ہیں کہ جن کو جہاں چاہو اور جس الزام میں چاہو دھر لیا جائے ۔ پاکستانی حکمران اور پاکستانی سفارت خانہ بھی بھارت کی ناراضگی کے ڈر سے نہ تو بھارت میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے قانونی جنگ لڑتا ہے اور نہ ہی بھارتی حکمرانوں پر کسی قسم کا دباﺅ ڈال کر اپنے ہم وطنوں کو رہا کرانے کی جستجو کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1965 اور 1971 کے پاک بھارت جنگوں کے سینکڑوں سویلین اور فوجی ( سپاہی مقبول حسین کی طرح ) بھارتی جیلوں میں نہ جانے کب سے قید ہیں اور وہ کس حالت میں ہیں حکومت پاکستان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے ۔چند دن پہلے پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے قومی اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ اس وقت بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں 8 ہزار 715 پاکستانی قید ہیں ۔ ان ممالک میں سعودی عرب ، برطانیہ ، عرب امارات ، چین ، یونان ، ہانگ کانگ ، جرمنی ، ہنگری ، فرانس ، اٹلی ، ایران ، ملائیشیا ، اومان ، قطر ، سری لنکا ، تھائی لینڈ، افغانستان اور امریکہ شامل ہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان تمام ممالک میں پاکستانی سفارت خانے موجود ہیں اور ان کے سالانہ بجٹ کا تخمینہ بھی یقینا اربوں میں ہوگا ۔ یہ سفارت خانے پاکستانی حکمرانوں کی عیاشیوں اور اللوں تللوں پر تو سرکاری خزانے سے بے دریغ خرچ کرتے ہیں لیکن کسی مصیبت زدہ پاکستانی کو جیل سے رہائی دلانے کے لیے نہ تو ان کے پاس پیسے ہیں اور نہ ہی وقت ۔ سید یوسف رضاگیلانی کے دور میں اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ فرانس میں پاکستانی سفارت خانہ وزیر اعظم کی بہن کے مکان کا کرایہ اور دیگر تمام اخراجات بھی چاپلوسی کے طور پر سرکاری خزانے سے ادا کررہا ہے بے شک یہ خبر تو صرف ایک ملک اور وزیر اعظم پاکستان کے صرف ایک عزیز کی تھی لیکن جب صدر آصف علی زرداری ، وزیر اعظم اور وزراءسرکاری و غیر سرکاری دوروں پر بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کی سرکاری اور غیر سرکاری مصروفیات ، خریداریوں اور ہوٹلوں کے کرایے بھی یقینا پاکستانی سفارت خانے ہی ادا کرتے ہوں گے ۔چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چودھری جیسے کسی محب وطن شخص نے آج تک پاکستانی سفارت خانوں کا احتساب نہیں وگرنہ کرپشن اور اقربا پروری کی ایسی ایسی داستانیں منظر عام پر آئیں کہ دانتوں میں انگلیاں لے کر قوم بیٹھ جائے ۔ یہ چشم پوشی اور بے حسی کا عالم صرف سفارت خانوں اور اس کے عملے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں کو اپنی فضولیات سے فرصت ملے تو دوسرے ملکوں میں قید پاکستانیوں کو رہا کروانے کا حکم جاری کریں ۔جن جن خاندانوں اور گھرانواں کے افراد دوسرے ملکو ں کی جیلوں میں قید ہیں ان پر حقیقت میں کیا گزرتی ہوگی اور وہ کس طرح زندہ ہیں یہ تو وہی جانتے ہیں دنیا کا کوئی پیمانہ ایسا نہیں جو ان کے درد کی پیمائش کرسکے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان مر جاتا ہے تو اپنے ہاتھوں سے دفن کرکے صبر آجاتا ہے لیکن بھارت جیسے دشمن ملک اور غیروں کی جیلوں میں قید گمنام لوگوں کے لواحقین کی دلی کیفیت اور درد کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔بھارت کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میںپاکستانیوں کی اکثریت غیر قانونی امیگریشن کی وجہ سے قید ہے اور غیر قانونی امیگریشن کی ذمہ داری پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی غیر قانونی اور جعل سازی میں مصروف ٹریول ایجنسیاں اور ادارے ہیںجو لوگوں کوسہانے خواب دکھاکر نہ صرف لوٹتے ہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں جیلوں کا ایندھن بھی بنا کر ملک کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ جہاں میں پاکستانی حکمرانوں کو کہوں گا کہ وہ اپنی شاہ خرچیوں سے بچا کر کچھ رقم پاکستانی سفارت خانوں کو فراہم کریں تاکہ پاکستانیوں کو باعزت طور پر واپس لا یاجاسکے ۔ وہاں ایسی ٹریولنگ ایجنسیوں اور بیرون ملک تعلیم دلانے کا جھانسہ دے کر دوسرے ملکوں میں بھیجنے والے اداروں کی نہ صرف جانچ پڑتال کی جائے بلکہ جو روزگار کی تلاش اور بہتر مستقبل کی خاطر پاکستان سے باہر جانے والوں کو نہ صرف مالی طور پر شدید ترین نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ جان و مال کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں میں ان کے بھیجے ہوئے افراد پاکستان کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں ایسے تمام ایجنسیوں اور اداروں کے خلاف کسی امتیاز کے بغیر سخت ترین اقدامات کیے جائیں اور عدالتوں کے ذریعے ذمہ دار افراد کو قرار واقعی سزا دلوانا اشد ضروری ہے ۔ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم نہ صرف غیروں کے سامنے بھکاری کا روپ دھار چکے ہیں بلکہ دنیا بھر میں صرف اور صرف پاکستانی شہری لاوارث ہیں ۔جن کے نہ اندرون ملک کوئی حقوق ہیں اور نہ ہی دوسرے ملکوں میں ان کی کوئی عزت اور وقار ہے جس کا جی چاہتا ہے پاکستانیوں کو پکڑ کر جیلوں میں بند کردیتا ہے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔اس کے برعکس ریمنڈ ڈیوس امریکی جاسوس تھا وہ پاکستان میں امریکہ کے لیے جاسوسی کا نٹ ورک پھیلانے کا ذمہ دار تھا اس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کا قتل ہونے کے باوجود پاکستانی قانون اسے اس لیے سزا نہ دے سکا کیونکہ دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو اپنے شہریوں کی حفاظت امریکی حکمرانوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔دوسری جانب پاکستانی کی بیٹی عافیہ صدیقی کو عورت ہونے کے باوجود جس طرح امریکی فوجیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں گھر سے اغوا کرکے تشدد اور جنسی جرائم کانشانہ بنایا اور امریکی عدالت کی جانب سے سزا بھی عافیہ صدیقی کو ہی سنائی گئی وہ نہ صرف پاکستانی قوم اور حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے بلکہ امریکہ کی انصاف پسندی پر ایسا سیاہ دھبہ ہے جو کبھی دھویا نہیں جاسکتا۔اس وقت بھی عافیہ صرف اس لیے امریکی جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بن کر اذیت ناک زندگی گزار رہی ہے کہ وہ امریکی نہیں پاکستانی شہر ی ہے اس کے برعکس اگروہ امریکی شہری ہوتی تو تمام تر جرائم کے باوجود وہ امریکی حکمرانوں کے ایما پر رہا ہوچکی ہوتی ۔

صرف امریکہ ہی نہیں دوسرے مہذب ممالک کا بھی یہی عالم ہے اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے سربراہان مملکت تک بھی مداخلت سے گریز نہیں کرتے ۔سعودی عرب ، چین ، سری لنکا ، قطر ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور ایران سے تو پاکستان کے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں صدر یا وزیر اعظم ذاتی طور پر ان ممالک کے ہم منصبوں سے بات کرکے پاکستانیوں کو جیلوں سے رہائی دلوا سکتے ہیں اگر وہ چاہیں تو ۔ کاش پاکستانی حکمرانوں کے دلوں میں اپنے ہم وطنوں کے بارے میں تھوڑی سی محبت پیدا ہو جائے اور لاوارث پاکستانیوں کو بھی غیروں کی جیلوں سے رہائی میسر آجائے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.