وہ پنجاب سے معمول کے مطابق ٹرک
میں سامان لاد کر خیبر پختونخواہ لا رہا تھا اپنے ساتھی کیساتھ ہنسی مذاق
کرنا اس کی عادت تھی اس نے کنڈیکٹر کو آواز دی کہ اس مرتبہ نوشہرہ سے جاتے
ہوئے گھر کیلئے گڑ بھی لیکر جانا ہے اس لئے مجھے یاد کروا دو -جس پر
کنڈیکٹر نے اسے جوابا ٹھیک ہے استاد جی کہہ دیا اوراس نے بلند آواز میں
پشتو گانا شروع کردیا-وہ اس وقت راجن پور کی حدود میں داخل ہورہا تھا کہ
یکدم اس کی گاڑی کو دھچکے لگنے شروع ہوگئے اور اس نے ٹرک کو قابو کرتے ہوئے
یہ سمجھ لیا کہ گاڑی کا ایکسل ٹوٹ گیا ہے اسی باعث گاڑی ان بیلنس ہوگئی ہیں
اس نے گاڑی کو کنٹرول کرتے ہوئے روک دیا -شاگرد کو آواز دی کہ جیک لیکر
نیچے آجائو - خدائی خوار پھر لیٹ اپنے گائوں جائینگے یہ کہہ کر وہ ٹرک سے
نیچے اترا-کنڈیکٹر کی مدد سے اس نے اپنی گاڑی کا ٹائر تبدیل کرنے کیلئے جیک
لگاکر اسے اٹھانا شروع کردیا اور ٹائر اونچا ہوگیا اس کا شاگرد گاڑی کے
ٹائر کے نیچے پتھر رکھنے کیلئے ادھر ادھر بھاگ رہا تھا گاڑی بھی متوازن تھی
اس نے سوچا کہ ذرا پائوں سیدھی کرو تاکہ تھکن بھی اتر جائے -پھر ٹائر کو
تبدیل کرنے کی کوشش کرونگا اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی جیسے ہی اس نے
پائوں سیدھے کردئیے اسی وقت ٹرک کے نیچے لگے جیک کا ڈنڈا ہل گیا اور ٹرک اس
کی پائوں پر آگرا- درد کی لہر اس کی جسم میں پائوں کی طرف آئی اسے لگا جیسے
قیامت آگئی اور پھر اسے ہوش نہ رہا-
ہوش آنے پر اسے پتہ چلا کہ وہ راجن پور کے ایک مقامی بیسک ہیلتھ یونٹ میں
زیر علاج ہے جہاں پر اسے طبی امداد دی جارہی ہیں اس نے پائوں کو دیکھنے کی
کوشش کی لیکن اسے کنڈیکٹر نے کان میں کہہ دیا کہ استاد جی حرکت مت کرنا اور
اسی دوران قصاب نما ڈاکٹربھی آگیا اس نے ڈرائیورکو ہدایت کردی کہ دوسری طرف
منہ کرکے دیکھو وہ دوسری طرف دیکھنے لگا کہ یکدم دونوں پائوں سن ہوگئے اور
جیسے ہی اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا تو اس نے دونوں پائوں اس کے ہاتھ میں
دیتے ہوئے کہا کہ دونوں کا کاٹنا ضروری تھا اور بے بسی کی وجہ سے اس کے
آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن وہ کچھ ہی نہ سکا-اس وقت اس کے دل میں خواہش تھی
کہ کاش میرے گھر والے میرے پاس ہوتے اور اس ڈاکٹر سے پوچھتے کہ کیا تم نے
مریض سے پوچھا بھی ہے کہ نہیں اسی کی کے ساتھ اس طرح کی حرکت کوئی جانوروں
کیساتھ بھی نہیں کرتا کہ زندہ انسان کے پائوں کاٹ دئیے لیکن وہ یکدم مکمل
انسان سے معذور بن گیا اور اس کی اوقات ختم ہوگئی-
پندرہ سال تک بائیس ٹائر چلانے والا ڈرائیور آج بھی مکمل ہے صرف اس کے
پائوں نہیں لیکن اس پائو ں کے نہ ہونے کی وجہ سے اسے ہر جگہ حقارت کی نظر
سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ وہ کسی سے بھیک نہیں مانگتا اس کی خواہش ہے کہ وہ
اپنے بچوں کیلئے حلال رزق اپنے ہاتھوں سے کمائے لیکن اسے مواقع نہیں مل
رہے-حالانکہ اپنے اور اپنے گھروالوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے اس نے اس نے
تین پہیو ں والی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر مختلف مزدوریاں کیں-کارخانو مارکیٹ
سے لیکر راولپنڈی تک کپڑے لے جانے کی کوشش وہ کرتا رہا تاکہ اس کے بچوں کو
حلال رزق کما سکے اور اس میں و ہ بہت حد تک کامیاب بھی رہا لیکن پھر بڑے
بڑے لوگ اس کاروبار میں آئے اور درہ آدم خیل کے علاقہ شریکرہ سے تعلق رکھنے
والے اس شریف اور غریب ڈرائیور کی اوقات نہیں رہی کیونکہ پھر پولیس اور
کسٹم بھی اسے تنگ کرنے لگے اسی باعث وہ اپنے علاقے میں پہنچ گیا اور یہ
کاروبار ختم کردیا اب اپنے علاقے میںوہ روزگار کیلئے کوشاں ہے -
تاج محمد نامی ٹرک ڈرائیور جو اب معذور ہے کئی مہینوں سے راقم کیساتھ فون
پر رابطے میں ہیں اور اس کی خواہش ہے کہ اسے معذوروں کیلئے بننے والی
جاپانی گاڑی فلائنگ کوچ اور موٹر کار اگر فراہم کی جائے تو وہ اپنے بچوں
کیلئے حلال رزق کما سکتا ہے اس کی خواہش ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ
اپنے جیسے لوگوں کو روزگار کے مواقع دے چونکہ وہ ڈرائیور ہے اس لئے سمجھتا
ہے کہ بحیثیت ڈرائیور وہ سپیشل افراد کیلئے بننے والی گاڑی کو بہتر طور پر
چلا سکتا ہے جو اس وقت بھی جاپان سے پاکستان میں لائی جارہی ہیں جس کی
منظوری بھی ٹریڈ پالیسی میں دی جا چکی ہیں لیکن اس کا پراسیس اتنا مشکل ہے
کہ تاج محمد جیسا معذور تو دور کی بات ہے راقم جس کا الحمد اللہ جسم کا ہر
حصہ مکمل ہے لیکن اتنے چکروں کی راقم میں اتنی ہمت نہیں-
موجودہ حکومت نے سال 2010 ء میں معذور افراد کی سہولت کیلئے ساڑھے تیرہ سو
سی سی کی گاڑی امپورٹ کرنے کی منظوری دی تھی لیکن یہ سب کچھ کاغذوں میں ہے
عملی طور پر اس حوالے سے کچھ نہیں ہورہاجو معذور افراد ہے ان کی رہنمائی
کیلئے کوئی ادارہ کام نہیں کررہا جبکہ ان سپیشل افراد کے نام پر بہت سارے
جاپان سے گاڑیاں منگوا کر استعمال بھی کر چکے ہیں اور کررہے ہیں لیکن جن کا
حق ہے انہیں نہیں مل رہا- ہم وہ بے حس لوگ و قوم ہیں جو لوگوں کو معذور تو
کرسکتے ہیںلیکن انہیں سہولت فراہم نہیں کرسکتے انہیں زبانی جمع خرچ پر
سپیشل کہنے سے کچھ نہیں ہوتا تاج محمد جیسے کتنے لوگ ہیں جو اس معاشرے میں
موجود ہیں اور حق حلال کی کمائی چاہتے ہیں لیکن انہیں راہ آسانیاں فراہم
کرنے والا کوئی نہیں - وزارتیں تو ان سپیشل افراد کے نام پر بھی وجود میں
آئی ہیں لیکن ان میں حکمران اپنی یاریاں دوستیاں نبھانے میں لگے ہیں اور ان
میں کام کرنے والے پیدا گیری میں ایسے میں تاج محمد جیسے لوگ جائی تو جائیں
کہاں- |