یہ حقیقت ہے کہ انسان اشرف
المخلوقات ہے اور خالقِ کائنات نے انسان کو فرشتوں اور جنات سمیت ہر مخلوق
پر عظمت اور برتری عطا کی ہے۔ تمام انبیاء و رسلِ عظام علیہم السلام بھی
انسان ہیں، حتٰی کہ خاتم المرسلین، سید الکونین، عالِمِ ماکان و مایکون،
فخرِ موجودات ﷺ کو بھی لباس بشر ہی میں ہمارے سامنے بھیجا گیا۔
اللہ وحدہ لاشریک نے قرآنِ مقدس میں انسانوں اور جنات کی تخلیق کا مقصد
اپنی عبادت قرار دیا ہے اور ایک ہی آیت میں دونوں کو بالترتیب ذکر فرمایا
ہے۔
قرآن کی اصطلاح میں ’جن‘ ایک غیر مرئی مخلوق ہے۔ اس مخلوق کا ذکر قرآن حکیم
میں 8 سورتوں کی 12اور سورۃ جن کی 15آیات میں موجود ہے ۔
جنات کی تخلیق کب اور کس طرح ہوئی؟ بعض محققین اور تاریخ داں لکھتے ہیں کہ
جنات کو آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی دو ہزار سال قبل تخلیق کیا گیا
تھا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر اس طرح آیا ہے؛
ترجمہ: ’’اور ہم نے انسان کو کھنکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جِوسں کو
اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا ۔‘‘ (سورہ الحجر آیات 26-27)
ایک اور جگہ ارشاد مبارک ہے؛
ترجمہ: ’’اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے
سے پید ا کیا ‘‘۔ (سورہ رحمٰن آیات 14-15)
ابن ِکثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’صلصال‘ خشک مٹی کو کہتے ہیں
اور جس مٹی میں آواز ہووہ فخار کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ جو مٹی آگ میں پکی
ہوئی ہو اسے ’ٹھیکری‘ کہتے ہیں ۔ مارج سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابو
الجن کہا جا سکتا ہے جیسے سیدنا آدم علیہ السلام کو ابو الآدم کہا جاتا ہے۔
لغت میں مارج آگ سے پیدا ہونے والے شعلے کو کہا جاتا ہے۔
صاحبِ "بہارِ شریعت" صدرالشریعہ ، بدر الطریقہ، علامہ مفتی محمد امجد علی
اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم، تفسیر روح البیان، تفسیر الکبیر ،
النبراس، وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے اور اس کے تفصیلی حوالہ جات "بہار
شریعت " حصہ اول ، ملائکہ کا بیان میں عقیدہ نمبر 8 تا 10 میں ملاحظہ کیا
جا سکتا ہے کہ ؛
" (جنؔات آگ سے پیدا کئیے گئے ہیں، ان میں سے بعض کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ
جو شکل چاہیں بن جائیں، ان کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں اور ان کے شریروں کو
شیطان کہتے ہیں، یہ سب انسان کی طرح ذی عقل اور ارواح و اجسام والے ہوتے
ہیں، ان میں توالد و تناسل (یعنی اولاد پیدا ہوتی اور نسل چلتی ہے) کھاتے،
پیتے، جیتے اور مرتے ہیں۔
ان میں مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی، مگر ان کے کفار انسان کی بہ نسبت بہت
زیادہ ہیں اور ان میں مسلمان نیک بھی ہیں اور فاسق بھی سنی بھی ہیں اور بد
مذہب بھی اور ان میں فاسقوں کی تعداد بہ نسبت انسا ن کے زائد ہے۔ ان کے
وجود کا انکار کفر ہے)
ابنِ تیمیہ نے بھی لکھا ہے کہ " اکابرین امت میں سے کسی نے بھی جنات کے
وجود کا انکار نہیں کیا۔ اکثر کفار بھی ان کے وجود کے قائل ہیں کیونکہ جنات
کے وجود کے متعلق انبیائے کرام کے ارشادات حد تواتر تک پہنچے ہوئے ہیں، جس
کا یقینی طور پر معلوم ہونا لازمی ہے ۔ سوائے فلسفیوں کی ایک معمولی جماعت
کے علاوہ جنات کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا "۔
اس سے جنات کا وجود اور ان کی حقیقت تو ثابت ہو گئی۔ ویسے بھی تاریخ گواہ
ہے کہ زمانہ قدیم میں انبیاء کرام علیہم السلام اور پھر ہمارے پیارے آقا ﷺ
کی ظاہری زندگی میں جنات کا ظہور ہوتا ہے۔ روایات میں تو یہاں تک موجود ہے
کہ جنات گروہوں کی شکل میں بارگاہ مصطفےٰ ﷺ میں حاضر ہوتے رہے اور اسلام
بھی قبول کیا۔ مکہ مکرمہ میں ایک ایسی مسجد آج بھی موجود ہے جس کا نام "مسجد
جنؔ" ہے۔ وادی نخلہ میں جنات نے حضور ﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ بعض
دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں تشریف بھی
لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ
ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔
جیسا کہ مذکور ہوا کہ جنات میں اکثریت کفار اور فاسقین کی ہوتی ہے ، اور یہ
انسانوں کے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی لئیے فی زمانہ اکثر
سادہ لوح، ان پڑھے اور دین سے دور لوگ اس طرح کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جنات آج بھی دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں اور ان کی نسل بالکل ویسے ہی
بڑھ رہی ہے جیسے انسان کی۔ روزِ قیامت ان کو اپنے اعمال کا حساب بھی چکانا
پڑھے گا۔ موت کا شکار بھی ہوں گے اور جنت و جہنم میں بھی جائیں گے۔
آج کے اس مضمون میں صرف جنات کے تعارف پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ مختصر وقت
میں اتنا ہی ممکن ہو سکا۔ جنات کی شریر حرکات، ان کے بد اثرات، جنات کے
حملے، حملے کی وجوہات، اسباب اور علاج اگلے مضمون میں پیش کرنے کی کوشش
کروں گا۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ میری اس خدمت کو قبول فرمائے اور
عوام الناس کی رہنمائی اور بہتری کا سبب بنے۔ ہم سب کو رسولِ رحمت ﷺ کی
آغوشِ رحمت میں رکھے اور تمام مخلوقات کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا الٰہ
العالمین۔ |