اعتراضات:
خدا کا لفظ غیر اسلامی اور مشرکانہ ہے جسے مشرک ایرانیوں نے رواج دیا۔اللہ
اسم اعظم ہے صرف اللہ ہی پکارنا اور کہنا لکھنا چاہئے۔کتاب اللہ میں تین
مقامات پر صاف صاف فرمادیا گیا ہے ہے کہ
٭ اللہ کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے ( القرآن پہلی آیت )
٭ یقینا میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ( سورۃ طہ آیت ١٤)
٭اور اللہ کے صفاتی نام بھی اچھے ہیں پس اسکو صرف اسکے ان ہی ناموں سے پکار
و اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جو اللہ کے ناموں میں کج روی و گمراہی پیدا کرتے
ہیں ایسے گمراہ لوگ اپنی حرکت کی سزا پاکر رہیں گے ( سورۃ اعراف ۔ آیت ١٨٠)
مندرجہ بالا تینوں آیات قرآنی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ اللہ کا ذاتی نام تو
صرف '' اللہ '' ہے تاہم اس کے صفاتی نام متعدد ہیں چونکہ اللہ کا ذاتی نام
( اسم اعظم ) صرف اور صرف ''اللہ '' ہے اس لئے اس اسم اعظم کا کوئی ترجمہ
ہرگز نہیں کیا جاسکتا لہٰذا ''اللہ ''کا ترجمہ '' خدا '' کیا جائے یا ''گاڈ(God)''
کیا جائے دونوں ہی غلط ہیں۔ اولاً تو '' اللہ '' کا کوئی ترجمہ کرنا ہی غلط
ناجائز اور گناہ ہے پھر اگر ترجمہ بھی '' خدا '' جیسے مشرکانہ لفظ سے کیا
جائے تو وہ گناہ در گناہ اور حرام در حرام بھی ہوگا ۔
پیش کردہ ان تمام حقائق کی روشنی میں تمام مسلمانوں کو یہ پختہ عظم کرنا
چاہئے کہ آئندہ وہ ہمیشہ صرف اور صرف'' اللہ '' ہی پکاریں گے کہیں گے اور
لکھیں گے اور حکم الٰہی کی ہرگز حکم عدولی نہیں کریں گے۔
جوابات:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے تقریباً 100سال پہلے مسلمانوں کا طریقہ یہ تھا :
١۔ عام مسلمان قرآن کریم کی تلاوت محض ثواب کی غرض سے کرتے تھے قرآن مجید
کا ترجمہ کرتے ہوئے ڈرتے تھے وہ جانتے تھے کے بے علم و فہم اس کے ترجمے کو
ہاتھ لگانا اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے نیز قبر میں ہم سے قرآن مجید کے
ترجمے سے متعلق سوال نہ ہوگا بلکہ عبادت و معاملات کا ہوگا لہٰذا اس پر
محنت کرتے تھے-
٢۔ علماء و فضلاء کا طریقہ یہ تھاکہ تقریباً 21علوم میں محنت کرتے تھے مثلاً
نحو، معانی ، بیان ، بدیع ، ادب لغت حساب جیومیٹری، فقہ ، تفسیر ، حدیث ،
تواریخ، تصوف ، اصول وغیرہ وغیرہ میں مہارت کاملہ حاصل کرنے کے بعد قرآن
مجید کے ترجمہ کی طرف توجہ کرتے وہ بھی محکمات تک متشابہات کو ہاتھ نہ
لگاتے اور اس ترجمہ کرنے میں بھی مفسرین ، محدثین و فقہاء کے فرمانے کے
مطابق کرتے تھے۔
اس طریقہ سے فائدہ یہ تھا مسلمان بد مذہبی و لادینی کا شکار نہ ہوتے تھے
مگر اب بعض نادان دوستوں اور دوست نمادشمنوں نے یہ خیال پھیلادیا ہے کہ
قرآن کاسمجھنا آسان ہے ہر شخص اپنی عقل و سمجھ سے ترجمہ کرسکتاہے احکام
نکال سکتا ہے اسکے لیے کسی علم کی ضرورت نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خواندہ
و ناخواندہ انگریزی تعلیم یافتہ لغت کی تھوڑی باتیں یادکرکے بڑے دعوے سے
قرآن کا ترجمہ کررہا ہے اور جو کچھ اس کی ناقص سمجھ میں آتا ہے اسے وحی
الٰہی سمجھتا ہے اور جو اس کی نہ مانے اسے کافر و مشرک گردانتا ہے جیسا کہ
ایک شخص نے لفظِ خدا کے استعمال کے بارے میں لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
(الف): لفظِ '' خدا '' لفظ اللہ کا ترجمہ ہے ( ب) مشرکین ایران نے اسے اپنے
خداؤں کے لیے رواج دیا ہے لہٰذا یہ مشرکانہ لفظ ہے لہٰذا جب بھی کوئی
مسلمان لفظ خدا ادا کرتا ہے تو ہر بار وہ شرک کا گناہ کرتا ہے۔
ہم مرحلہ وار اس پر گفتگو کریں گے اقول باللہ التوفیق
معترض کا پہلا اعتراض کہ یہ لفظ '' خدا '' اسم جلالت اللہ کا ترجمہ ہے اس
کا جواب یہ ہے کہ یہ اسم جلالت اللہ کا ترجمہ نہیں جیسا کہ معترض نے گمان
کیا بلکہ یہ اللہ عزوجل کے صفاتی نام '' مالک '' کا ترجمہ ہے چنانچہ معترض
نے جس آیت سے استدلال کرنا چاہا ہے کہ بقیہ آیتوں کا نفس مسئلہ سے تعلق ہی
نہیں بنتا لہٰذا ہم اسی آیت کہ جس کا نفس مسئلے سے تعلق ہے اسکی تفسیر پیش
کرتے ہیں چنانچہ عمدۃ المفسرین حکیم الامت محسن اہلسنت مفتی احمد یا رخان
نعیمی علیہ الرحمۃ اپنی تفسیر نور العرفان میں اسی سورہ اعراف کی آیت ١٨٠
کے تحت فرماتے ہیں : خیال رہے کہ خدا اللہ عزوجل کا نام نہی ہے بلکہ مالک
کا ترجمہ ہے گویااس کا ایک وصف ہے ( نورالعرفان صفحہ ٢٧٦ پیر بھائی کمپنی )
دوسرے اعتراض کا عقلی جواب یوں ہے
( (عقلی جواب)غیر مسلم تو بتوں کو معبود ، مالک ، رب بھی کہتے ہیں معترض کی
دلیل کے مطابق اللہ تعالیٰ کو معبود ، مالک ، رب کہنا بھی ناجائزہوجائے گا
حالانکہ کوئی جاہل سے جاہل بھی اس کا قائل نہیں۔)
دوسرے اعتراض کا جواب ہے کہ صرف اتنی بات سے کہ مشرکین اسے اپنے خداؤں کے
لیے استعمال کرتے تھے لفظ خدا کو اللہ عزوجل کے لیے پکارنے پر شرک کا حکم
نہیں لگایا جاسکتا ورنہ لفظ الہ میں بھی یہی حکم لگے گا ( معاذ اللہ عزوجل
)کہ مشرکین نے اس لفظ کو بھی اپنے خداؤں کے لیے استعمال کیا ہے لہٰذا معترض
کی رو سے اسے اللہ عزوجل کے لیے استعمال کرناشرک کا گناہ ہوگا ( معاذ اللہ
عزوجل ) ارشاد ربانی ہے : واذ قال اللہ یا عیسی ابن مریم ء انت قلت للناس
اتخذونی و امی الھین من دون اللہ یعنی: جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے
عیسیٰ کیا تونے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو خدا بنالو
اللہ کے سوا ( سورہ مائدہ آیت ٧٣ ترجمہئ کنزالایمان )
اس سے ثابت ہوا کہ لفظ الہ کا اطلاق مشرکین اپنے خداؤں کے لیے کرتے تھے اور
اب دیکھئے کہ اسی لفظ الہ کو خدا ئے بزرگ و برتر نے اپنے لیے استعمال
فرمایا ہے چنانچہ فرماتا ہے عزوجل : والھکم الہ واحد لاالہ الا ھو الرحمن
الرحیم o اور تمہارا معبود ایک معبود ہے اسکے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی
بڑی رحمت والا مہربان ( بقرہ آیت ١٦٣ کنزالایمان)
اس نص قرآنی سے یہ معلوم ہوا کہ مشرکین کسی لفظ کو اپنے بتوں کے لیے
استعمال کریں مگر اس لفظ میں کوئی قباحت نہ ہو تو اس لفظ کو اللہ عزوجل کے
لیے استعمال کرنا ہرگز ہرگز شرک نہیں یاد رہے کہ کسی لفظ کو اللہ عزوجل کی
ذات مقدس کے لیے استعمال کرنا دو باتوں پر مبنی ہے (١)آیا اس کا استعمال
جائز ہے (٢) یا پھر اس کا استعمال رب تعالیٰ کے لیے جائز نہیںاور جائز و
ناجائز ہونا یوں معلوم ہوگا کہ وہ لفظ رب العلمین کی شان اقدس کے لائق ہے
یا لائق نہیں ہے سو اگر وہ لفظ شان اقدس کے لائق ہے تو اس کا استعمال بلا
شبہ جائز ہے جیسا کہ لفظ خدا کہ اس میں بذاتِ خود ایسی برائی نہیں کہ اسے
شان اقدس کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے چنانچہ مفتی احمد یا ر خان نعیمی
علیہ الرحمۃ اسی سورہ اعراف کی آیت ١٨٠ کے تحت اسی صفحے پر فرماتے ہیں :
خیال رہے کہ خدا اللہ عزوجل کا نام نہی ہے بلکہ مالک کا ترجمہ ہے گویااس کا
ایک وصف ہے لہٰذا اسے خدا تو کہہ سکتے ہیں مگر
رام یا پربھو نہیں کہہ سکتے ۔ جیسے ستار کا ترجمہ پردہ پوش کرلیا جائے (
نورالعرفان ص٢٧٦)
مفتی اعظم ہند ابو البرکات مصطفی رضا خان علیہ الرحمۃ ( المتوفی ١٤٠٢ھ
فتاوی مصطفویہ ) میں فرماتے ہیں : اللہ عزوجل پر ہی خدا کا اطلاق ہوسکتا ہے
اور سلف سے لے کر خلف تک ہر قرن میں تمام مسلمانوں میں بلا نکیر اطلاق ہوتا
رہا ہے اور وہ اصل میں '' خود آ'' ہے جس کا معنی ہیں وہ جو خود موجود ہو
کسی اور کے موجود کیے موجود نہ ہوا ہو ۔ اور وہ نہیں مگر اللہ عزوجل ہمارا
سچا خدا واللہ اعلم ( فتاوی مصطفویہ ٣١ برکاتی پبلشرز کراچی )
تیسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ثابت کر ہی چکے کہ لفظ خدا کا
اطلاق اللہ پر ہوسکتاہے لہٰذا یہ لفظ مشرکانہ نہ ہوا اور نہ ہی اس کے ادا
کرنے کے سبب سے مسلمان شرک کے گناہ میں مبتلا ہوگا یہاں ایک بات کرنی ضرور
ہے اور وہ یہ بات بات پر مسلمانوں پر شرک کا حکم لگادینا کہاں کا انصاف ہے
شرک ایک ایسا گناہ ہے جسکی بابت رب عزوجل نے ارشاد فرمایا ان اللہ لایغفر
ان یشرک بہ ..........الخ (سورۃ نساء ١١٦) بیشک اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہ
بخشے گاکہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ۔ تو پتہ چلا شرک ایک ایسی نحوست ہے جو
جھنم میں ہمیشہ کے داخلے کا سبب بن سکتی ہے شرط یہ ہے توبہ نہ کرے شرک کے
لغوی معنی ہیں حصہ یا ساجھا شریک کا معنی ہیں حصہ دار شرک کی حقیقت یہ ہے
کہ کسی کو جب تک اللہ تعالیٰ کے برابر نہ مانا جائے تب تک شرک نہ ہوگا تو
اب سوال یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تبارک و تعالیٰ کولفظِ خدا کے ذریعے پکارتا
ہے تو وہ مشرک کسطرح ہوگا حالانکہ اس نے سوائے رب عزوجل کے کسی اور کو
پکارا ہی نہیں ہے برابر جاننا تو بہت دور کی بات ہے پھر اکثر سلف سے لیکر
خلف تک تمام مسلمان جنہوں نے یہ لفظ اللہ عزوجل کے لیے استعمال کیا کیا وہ
سب مشرک تھے ( معاذ اللہ ) کیا انکے پاس علم نہ تھااور پھر کسی گمراہی پر
اجماع کیسے کرسکتے ہیںحالانکہ حضور ؐ کا فرمان ہے لاتجتمع امتی علی ضلالۃ
ترجمہ : میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی
( انوار محمدیہ علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی علیہ الرحمۃ ص ٤٠٦ مکتبہ
نبویہ لاہور)
نیز آپ ہی کا فرمان ہے مجھے اپنی امت پر شرک کا خوف نہیں وہ بت پرستی یا
ستارہ پرستی تو نہیں کریں گے البتہ عبادت ریا کے ساتھ کریں گے ( کیمائے
سعادت مترجم ص ٥٥٥)
تو جب آپ کا فرمان اقدس بھی موجود کہ آپکو امت کے بارے میں شرک کا خوف نہیں
تو اب معترض کو کیا حق پہنچتا ہے کہ مسلمانوں کو محض اپنی خیالی تک بندیوں
کے ذریعے مشرک قرار دے -
خلاصہ کلام یہ ہے کہ لفظ خدا سے اللہ عزوجل کو ندا کرنا ہرگز شرک نہیں ۔
مشرکین کسی لفظ کو اپنے معبودوں کے لیے استعمال کرتے ہوں اور اس لفظ میں
کوئی قباحت شرعی نہ پائی جاتی ہو تو اسے رب تبارک و تعالیٰ کے لیے استعمال
کرسکتے ہیں جیسے لفظ خدا کہ اس کے استعمال پر امت کا علماء کا اجماع ہے کسی
نے اسکا انکار نہ فرمایا ( روح المعانی ص ١٧٧ پارہ ٣٠ سورۃ اعراف آیت ١٨٠
مطبوعہ بیرو ت)
اللہ تعالیٰ عقل سلیم عطا فرمائے اور حق بات کو قبول کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |