آج معاشرہ تباہی و بربادی کی طرف
تیزی سے گامزن ہے ،عریانیت اور فحاشی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا مشکل ہو
رہا ہے ،ہر چہارجانب سے العتش العتش کی صدا بلند ہو رہی ہے ۔اہل وطن جنہوں
نے مغربی تہذیب کو اپنے سینے سے لگایا تھا ۔اب وہ خود اس سے بیزار ہو چکے
ہیں کیونکہ آج انکی آنکھوں کے سامنے انکی حمیت و غیرت کو للکارا جا رہا ہے
۔کہیں آزادی نسواں کے نعرے لگائے جا رہے ہیں تو کہیں عورتوں کی خود مختاری
کے نام پر اپنے فرـض کی آدائیگی سے چھٹکارا اور اہ فرار اختیار کرنے کی
سازش رچی جا رہی ہے ،جسے دیکھ کر عجل بھی کھڑی کھڑی مسکرا رہی ہے ،پورا
ہندوستان ایک ایسے قانون کی متلاشی ہے جس کو نافذ کر کے اسے سکون و راحت
میسر آئے ۔ایسے حالات میں ہمارے اوپر ایک ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ ہم
ان پیاسوں کی پیاس بجھانے کیلئے فرض منصبی کو ادا کریں ۔
یہ وقت ہے کہ برادران وطن کے سامنے قرآن اور محمد ﷺ کے طریقہ کو پیش کریں
اور انہیں بتایا جائے کہ یہ ہے وہ مطلوب جس کی طلب میں تمہاری روحیں بے
قرار ہیں ،یہ ہے وہ امرت رس جس کے تم پیاسے ہو ،یہ ہے وہ شجر طیب جس کی اصل
بھی صالح ہے اور شاخیں بھی صالح ،جس کے پھول خوشبودار بھی ہیں اور بے خار
بھی ،جس کے پھل میٹھے بھی ہیں اور جاں بخش بھی ۔یہاں تم کو حکمت عملی ملے
گی ،یہاں تمہاری فکر کو صحیح نقطہ آغاز ملے گا ،یہاں تم کو وہ علم ملے گا
جو انسانی سیرت کی بہترین تشکیل کرتا ہے ،یہاں تم کو اخلاق اور قانون کے وہ
بلند اور پائدار قواعد ملیں گے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ،یہاں تمہیں
غوروفکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیسا قانون بنا نا چاہئے جس سے کہ ہم اس
طرح کے جرائم کا سد باب کر سکیں ،یہاں تو آج سے چودہ سو سال پہلے ہی وہ
زریں اصول وضح کر دئے گئے ہیں کہ دنیا اگر اس کو اپنا لے تو دنیا کی ہر
خوشی ایسے میسر ہو جائے گی ۔اس لئے مسلمانوں کو اپنا فرض منصبی پورا کرنے
کا وہ سنہرہ موقع آگیا ہے جس کو پورا کرنے میں کوتاہیاں برتی جا رہیں تھی
۔برادران وطن کے سامنے اسلام کی حقانیت کو اس طرح پیش کردیا جائے کہ وہ
پکار اٹھیں لبیک اﷲم لبیک ۔ |