کچھ دن قبل فیس بک پر ایک ساتھی
نے نظام تعلیم کے حوالے سے ایک تصویر شیئر کی جس میں دکھایا گیا تھا کہ بچے
ہاتھوں میں بستہ اور کتابیں اٹھائے ایک جگہ کہ جو کتاب تھی اور اس کی تشبیہ
تعلیمی اداروں کے حوالے سے دی گئی تھی میں داخل ہورہے تھے جبکہ دوسری طرف
سے نکل کر آنیوالے لوگوں نے ڈگریاں اٹھائی ہوئی ہیں لیکن ان کے سرگدھے کے
تھے یعنی نظام تعلیم سے نکل کر آنیوالے گدھے ہی تھے-یہ تصویر دیکھ کر عجیب
سا لگا لیکن یہ سچ بھی ہے جسے ہمارے لوگ برداشت نہیں کرپارہے ہمارے معاشرے
میں کچھ سا فیشن چل پڑا ہے کہ طالب علم اپنی تعلیمی اداروں کے نام اب
گاڑیوں پر سٹکر کی صورت میں لگاتے ہیں یعنی انگریزی زبان میں ادارے کے نام
کیساتھ IAN آخر میں لگاکر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم نے بڑے نامی گرامی تعلیمی
ادارے میں تعلیم حاصل کی ہے جسے دیکھ کر میری طرح ٹاٹ پر تعلیم حاصل کرنے
والے انہیں دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم TATARIAN
لگا نہیں سکتے اور اگر لکھ بھی ڈالے تو لوگوں کو سمجھ نہیں آئیگی کہ یہ
کونسا ادارہ ہے شائد لوگ اسے دیکھ کر مرعوب بھی ہو جائیں کہ ہو سکتا ہے یہ
بھی بڑے تعلیمی ادارہ ہو لیکن ہمیں ڈر ہے کہ اگر کسی نے پوچھ لیااور ہم نے
سچ بتا دیا کہ ہم ٹاٹ پر پڑھے ہوئے ہیں اور لفظ TATARIAN ہمارے لئے مزید
احساس کمتری پیدا کرنے کا سبب بن جائے-
اکیس سال قبل جب ہم میٹرک میں تھے اس وقت ہمارے اساتذہ ہمیں نصیحت کیا کرتے
تھے کہ نالائقوں خوب پڑھنا ہے جہاں سے ہمارا تعلق ہے اس علاقے میں میٹرک تک
تعلیم اعلی تعلیم تھی اس لئے اساتذہ سمجھاتے تھے کہ میٹرک کی اہمیت نہیں
بقول ان کے آج کے گدھے کی اگر دم اٹھا کر دیکھ لی جائے تو اس پر لکھا ہوتا
ہے کہ میٹرک پاس اور ہم اپنے اساتذہ کی ان مثالوں پر حیران ہوتے کہ اتنی
سمجھ بوجھ والے لوگ کیسی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن اب تقریبا اکیس سال بعد
اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی باتوں کیں کتنی سچائی تھی اب تو گدھے ماسٹر بھی
کرلیتے ہیں لیکن گدھے ہی رہتے ہیں- شائد ہماری بات گدھو ں میرا مطلب ہے
ماسٹر کرنے والوں کو بھی بری لگ جائے لیکن یہ حقیقت بھی ہے کہ ماسٹر کرنے
والے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے شعبے میں ماسٹر بن گئے ہیں لیکن حقیقت میں کیسے
ماسٹر ہے اس کا اندازہ گذشتہ دنوں پشاور یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ میں
زیر تعلیم طلباء سے بات چیت کے دوران پتہ چلا انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے اس
دور میں ان طلباء کو نصاب 80 کی دہائی کا پڑھایا جارہا ہے اور انہیں پڑھانے
والوں کی سوچ90ء کی دہائی کی ہے ایسے میں ماسٹر کرکے آنیوالے کیسے ہونگے اس
کا اندازہ اس لطیفے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک چوزہ سڑک کراس کرتے ہوئے کسی
گاڑی سے ٹکراگیا گاڑی کے ڈرائیور نے بے ہوش ہونیوالے چوزے کو اٹھایا اور
گھر لے جا کر پنجرے میں بند کردیا چوزہ جب ہوش میں آیا تو اپنے آپ کو پنجرے
میں دیکھ کر سوچنے لگا کہ آہ لگتا ہے کہ ڈرائیور مر گیا ہے کیونکہ میں جیل
میں بند ہوں اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل
ہونیوالے کیسے کیسے ماسٹر بن کر نکل رہے ہیں-
کچھ عرصہ قبل ماسٹر کرکے آنیوالے ایک طالب علم نے ایک جگہ انٹرویو دیا - cv
میں موصوف کہیں سے cutاور کہیں سے paste کرکے بناکردی تھی آخر میں اس نے
REFRENCE کی جگہ لکھا کہ اگر پوچھا گیا تو بتا دیا جائیگا چونکہ cv انگریزی
زبان میں تھی سو انٹرویو کرنے والے نے اس سے انگریزی زبان میں پوچھا کہ کون
ہے ریفرنس جس کے بعد ماسٹر کرنے والے کے پائوں سے زمین نکل گئی کہ یہ
ریفرنس کیا بلا ہے اس نے سمجھے بغیر لگا تھا سوجلدی میں موصوف نے ریفرنس
لکھ کر کسی کو ایس ایم ایس کرنا چاہا کہ اس کا مطلب کیا ہے غلطی سے اپنے
کسی دوست کو بھیجنے کے بجائے اس نے انٹرویو کرنے والے کو میسج کردیا کہ اس
کا مطلب کیا ہے انٹرویو کرنے والے کو بھی حیرانی ہوئی لیکن اسے اندازہ ہوا
کہ ماسٹر کرکے انٹرویو دینے والا قابلیت کے کس معیار پر ہے ان حالات میں
ماسٹر کرنے والے یہ گلہ کرتے ہیں کہ انہیں روزگار نہیں ملتا-
ہماری مصیبت بھی یہ ہے کہ ہم تعلیم روزگار کیلئے کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب
ڈگریوں کی بھی اہمیت نہیں رہی ڈگریوں کی قطار رکھنے والے اندر سے کتنے
چھوٹے اور نالائق ہوتے ہیں اس کا اندازہ تو ہمیں زندگی کی بہت سارے تجربوں
سے ہوا ہے کیونکہ کسی زمانے میں سننے میں آتا تھا کہ 70 کی دہائی کا میٹرک
پاس 90 کی دہائی کے BA پاس کا مقابلہ کرسکتا ہے اور اس معاملے میں لائق بھی
ہوتا ہے لیکن اب تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ 90 کی دہائی کا بیچلر آج کل
کے دور میں PHD ڈاکٹریٹ کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہے کسی کو
یقین نہ آئے تو ان کی واضح مثال اپنے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ملک صاحب
ہے جنہیں ایک یونیورسٹی نے ڈگری دی ہے اور اب سندھ یونیورسٹی نے بھی اپنے
رینٹل راجہ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے کا اعلان کیا ہے جو ان کی خدمات کے
اعتراف میں انہیں دی جارہی ہیں جس کی منظوری بھی بیوی کی طرح ہر ہفتے روٹھ
کر میکے جانے کی دھمکی دینے والی پارٹی ایم کیو ایم کے گورنر نے دیدی ہے اب
یہ نہیں پتہ کہ رینٹل راجہ کو ڈگری قوم کو اندھیروں میں رکھنے اور اپنے
سیالکوٹیے ملک صاحب کو ڈگری شائد موبائل فون سروس کی لوڈشیڈنگ کرنے کے
اعتراف میں دی جارہی ہو لیکن یہ صاحب بھی PHDہو جائینگے اب کو یہ کہے کہ یہ
تو اعزازی ڈگری ہے لیکن یہاں پر ان کیلئے ایک ہی جملہ ہے کہ"ڈگری ڈگری ہوتی
ہے خو اہ اعزازی ہو یا اپنی محنت سے حاصل ہونیوالی ڈگری" ویسے بھی ڈگریوں
کو چیک کرنے والے ہائیر ایجوکیشن کمیشن پانچ سال بعد خواب خرگوش سے بیدا ر
ہو گئی ہیںحالانکہ جعلی ڈگریوں سے پانچ سال تک لیڈر نما چوروں نے بڑے مزے
بھی کرلئے- |