ہیرا اور جوہری

دنیا کی تاریخ میںروز اوّل سے یہ ہوتا چلا آیا ہے کہ ہر بالادست طبقہ زیر دست اور بکھرے ہوئے طبقے کو لوٹتے چلا آیا ہے۔ اپنے مفادات کے حصول کے لئے دوسروں کے وسائل کو اپنی تحویل میں رکھنا اُس کا وطیرہ رہا ہے ۔ جب انسان پہاڑوں اور غاروں میں زندگی گزار رہا تھا، تو اُس وقت بھی طاقتور لوگ اچھے غاروں اور سہولت والی جگہوں پر قبضہ کیا کرتے تھے اور مال مویشی میں اضافے کی خاطر اچھی چراگاہوں کے زبردستی مالک بن جاتے تھے۔کمزور اور طاقتور، بالادست اور زیر دست کی کہانی محض آج ہی نہیں ہے، بلکہ یہ داستان ازل سے دہرائی جاتی رہی ہے۔جو قومیں اپنی مٹی اوراپنی جغرافیائی حدود سے بے خبررہتی ہیں اور اپنی اقدار و روایات کو بھول جاتی ہیں ،وہ ہمیشہ محتاج اور انتشار کا شکار رہتی ہیں۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے،جب صحرائی علاقوں میں جہاں پانی ناپید ہوتا تھا اور کاشت کاری صرف باران پر منحصر ہوا کرتی تھی، اُن علاقوں میں بارانی زمینوں کو حاصل کرنے کی خاطر جنگیں ہوا کرتی تھیں، لاشوں کے انبار لگتے تھے۔جوں جوں انسان ترقی کرتا رہا اس ترقی کے ساتھ ساتھ مفادات اور عزائم نے بھی ترقی کی۔ایک طرف مہذب انسان ، تو دوسری طرف مہذب مفادات۔آج کا انسان اس حد تک مہذب ہوچکا ہے کہ اپنی حفاظت اور دوسروں کی بربادی کے لئے ،ایٹم بم تک بنا رکھا ہے، جس کے مضر اثرات نہ صرف انسانوں پر، بلکہ اس کرّہ ¿ ارض پر بھی پڑ تے ہیں۔ آج یہ واضح ہورہا ہے کہ جہاں میدانی علاقہ ہے ،جہاں صاف پانی ہے، جہاں بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، اور جہا ںکی جغرافیائی حدود بھی اہمیت کی حامل ہیں، وہاں بے چینی،فساد اور اندرونی و بیرونی دہشت گردی عروج پر ہے۔دیکھیں ہیرے کا مطلب فقط ہیرا ہی نہیں ہوا کرتا، بلکہ ہر وہ چیز، جس کی زمانے میں انسان کو اشد ضرورت ہو، وہی چیز ہیرا کہلاتی ہے۔جوہری کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ ہیرے کی پہچان اور تلاش میں رہتا ہے۔ اگر اُس کو معلوم ہو کہ فلاں جگہ یا فلاں آدمی کے پاس ہیرا ہے، تو وہ فوراً اُس جگہ پہنچ جاتا ہے اور ہیرے کو کسی بھی طریقے سے خریدنے کی کوشش کرتا ہے ۔اگر ہیرے کامالک اپنے ہیرے کو فروخت کرنے پر رضامند نہ ہو تو بھاری رقم کی پیشکش کی جاتی ہے حتیٰ کہ ہیرے کے مالک کے قریبی اقارب تک کو بھی ورغلایا جاتا ہے۔ اور ناکامی کی صورت میں جوہری اپنے وہ سارے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، جو اُس کی دسترس میں ہوں۔ بےشک مالکان رہیں یا نہ رہیں ،ہیرا اُسے حاصل ہونا چاہیے۔آپ نے دیکھا ہوگا قیمتی پتھروں کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو مشینوں کے ذریعے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل دے کر بڑی مارکیٹوں میں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ کر ہمارے وسائل کو نیلام کرنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔ اگر ہم ان مذکورہ حقائق سے باخبر ہونے کے بعد اپنی سر زمین گلگت بلتستان پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ایساکونسا نایاب خزانہ ہے ،جو ہمارے خطے میں موجود نہیں۔ دنیا کی نایاب ترین دھاتیں یہاں موجود ہیں، صاف و شفاف پانی کا منبع ،ہمارے پاس اور جغرافیائی لحاظ سے دنیا کا اہم ترین خطہ ہماری زمین، ہم مالک کی عطا کردہ کن کن نعمتوں کا ذکر کریں۔اب آپ بتائیں کیا دنیا کے بڑے بڑے جوہری ہمیں توڑنے میں کس قدر مصروف عمل ہیں، لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ اب تک ہمیں توڑنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم دراڑیں ڈالنے میں وہ کامیاب تو ہوئے ہیں۔ جب کسی پتھر یا چٹان میں دراڑ پر جائے تو اُسے توڑنا کافی آسان ہوجاتا ہے اور ہم اب اسی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ہماری مثال ایسی ہے کہ ایک حسین وجمیل لڑکی کے گھر کے سارے مرد کہیں قید میں ہوں تو اَوچھے نوجوان اُس کے گھر کے آس پاس ہی منڈلایا کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اُنہیں معلوم ہے گھر میں کوئی مرد موجود نہیں اور وہ ایسی نازیبا حرکات کرنے سے گھبراتے نہیں ہیں۔ یوں ہم ذہنی طور پر فرقہ واریت،نسلی، مفادات اور مذہبی جنونیت جیسی قیود میں جکڑے ہوئے ہیں ۔کاش ہم ذہنی طور پر آزاد ہوتے ،تو آج ہمارا علاقہ اس حد تک پسماندہ نہ ہوتا، جہالت نہ ہوتی اور بھائیوں کے مابین نفرتیں نہیں ہوتیں۔جب تک ہم اپنی سر زمین، اپنی جغرافیائی حدود اور اپنی روایات و اقدار پر قائم نہیں رہیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کے حصول پر گامزن نہیں ہونگے ،تب تک تباہی ہمارے بین بین چلتی رہے گی۔ہمیں اپنے خول سے باہر آکردنیا کی پالیسی پر نظر رکھنی ہوگی ۔آج کے جدید دور میں قومیں کس طرح اپنے آپ کو باوقار طور پر برقرار رکھ سکتی ہیں، ہم اُس صورت کو اپنانا ہو گا،کیونکہ جوہری اس ہیرے کو توڑ کر دنیا کی مارکیٹوں میں فروخت کرنے کے لئے ،ہمارے درمیان گُھس آئے ہیں۔ ہمیں ذہنی بیداری کا ثبوت دینا ہوگا۔ اپنے لئے نہیں تو کم از کم اپنی دھرتی کے لئے ،اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کی خاطر ہی ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔مبادہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کے سامنے بے آبرو ہوجائیں۔ہماری دھرتی کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں کوئی ایک کھیل نہیں ،بلکہ کئی قسم کے کھیل کھیلے جارہے ہیں ۔ہمیں تقسیم در تقسیم ہونے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ہمارے مفادات اور نقصان مشترکہ ہیں ہم ایک قوم ہیں، سب مسلمان بھائی بھائی ہیں،۔آئیں ہم سب مل کر صدق دل سے اپنے مالک کے حضور دُعا کریں کہ پروردگار عالم ہمیں ایک لڑی میں پروئے رہنے کی توفیق عطا فرمائے باری تعالیٰ ہمارے اذہان کو کھول دے اور ہمارے دلوں سے بغض و عناد کو دور فرمائے (آمین)
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 25986 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More