انشورنس ایجنٹ

وہ گر میوں کی ایک جھلستی ہو ئی دوپہر تھی جب گھر میں نئے نویلے میاں بیوی باہوں میں باہیں ڈالے مستقبل کے منصوبے بنا رہے تھے۔اچانک ڈور بیل بجی اور ان کے سوچنے کے سلسلے رک گئے ۔

’’ا س وقت !کون ہوسکتا ہے ‘جاؤ دیکھو ‘کون آیا ہے ۔‘‘شوہر نے بیوی کو اشارہ کیااور بیوی دروازہ کھولنے چلی گئی ۔دروازہ کھولتے ہی اچانک اس کی چیخ نکل گئی ۔آنے والے کے ہاتھ میں پستول تھی جو اس نے سیدھی تان رکھی تھی اور بیوی کورگیدتا ہوا اند رچلا آرہا تھا۔بیوی سہم کر شوہر کے سینے سے لگ گئی‘اور شوہر بھی کسی انجانے خوف سے دہلنے لگا۔ اچانک آنے والا پستول جھکاتا ہوا قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔

’’صاحب !یہ نقلی بندوق ہے‘اس سے چڑیا بھی نہیں مرسکتی ۔‘‘اس کے قہقہے جاری تھے۔’’دیکھیے میں یہ بتانے آیا ہوں کہ موت انسان کے کتنے قریب ہے ‘وہ گھر کے اندر بھی آسکتی ہے اور آدمی اوپر جاسکتا ہے ۔یہ دیکھیے‘‘ کہتا ہوا بیٹھ کر وہ اپنا سوٹ کیس کھولنے لگا۔’’یہ دیکھیے‘یہ کیا ہے ؟رسّی‘یہ چاقو ‘چھری‘یہ ڈنڈا‘مطلب یہ کہ کو ئی کبھی بھی ان کے ذریعے آپ پر حملہ کرسکتا ہے اور آپ بے موت مارے جاسکتے ہیں مگر میرے پاس ایسی چیز ہے جس سے مرنے کے بعد آپ کو فایدہ ملتا رہے گا۔‘‘وہ بولتا جارہا تھا ۔

’’مگر ہمیں کو ئی مارے گا کیوں ہماری تو کسی سے دشمنی نہیں ہے نہ ہم نے کسی کا کچھ بگاڑا ہے ‘آپ ہمیں کیوں ڈرارہے ہیں۔‘‘شوہر نے ڈرتے ڈرتے کہا ‘بیوی ابھی تک اس کے بازؤں میں سمٹی ہو ئی تھی ۔

’’صاحب! دشمنی کی بات تو یہ ہے کہ ‘آج انسانیت نام کو نہیں ہے ۔ذرا ذرا سی بات لوگ مارنے کاٹنے کو دوڑ پڑتے ہیں۔تھوڑی سی ہی دیر میں اچھی خاصی دوستی دشمنی میں بد ل جاتی ہے۔لوگ بچوں کی آپسی لڑائی پر ہی سر پھٹول مچانے لگتے ہیں ایسے حالات میں بھلا زندگی کی کیا ضمانت ؟اس لیے آپ میری بات غور سے سنیں اور اس سے پہلے کہ آپ لوگ کسی انہونی سے دوچار ہوں اس پر جتنی جلدی ہو سکے عمل کر لیجیے۔میں’لائف لائن انشورنس کمپنی‘ کا ایجنٹ ہوں ۔ ہماری کمپنی مارکیٹ میں موجود تمام انشورنس کمپنیوں سے اچھی پالیسی دیتی ہے ‘اور بیمہ کا طریقہ بھی سب سے اچھا اور آسان ہے ‘زندگی ساتھ بھی ‘زندگی کے بعد بھی اس میں انسوٹمنٹ کر کے اور ہماری پالیسی لے کر آپ گھاٹے میں نہیں رہیں گے ہماری کمپنی ملک کی وہ واحد کمپنی ہے جسے بہتر کار کر دگی کے صلے میں حکومت کی طرف سے گولڈ میڈل بھی ملا ہے اور دنیا کی 10بہترین انشورنس کمپنیوں میں اس کا شمار ہو تا ہے۔‘‘انشورنس ایجنٹ سانس لیے بنا کہتا جا رہا تھا ۔ایک جگہ اس کا سانس ٹوٹا تو میاں بیوی کی اکھڑی سانسیں اپنی جگہ آئیں اور ان کا ڈر‘ ہوا ہو گیا۔

’’دیکھیے ایجنٹ صاحب !ہمیں کسی پالیسی والیسی اور بیمے کی ضرورت نہیں ہے ‘پلیز آپ کو ئی بھی ہیں‘ آپ کی کمپنی کا کتنا ہی نام ہو ‘کتنے میڈل ملے ہوں ہمیں اس سے کو ئی مطلب نہیں ‘بس اب یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ ورنہ ‘‘

’’ورنہ کیا صاحب ؟‘‘انشورنس ایجنٹ جلدی سے بول پڑا۔

’’ورنہ ہم پولیس کو فون کر دیں گے۔تم نے کسی کے گھر میں آنے کی جرأت کیسے کی ‘نہ صرف جرأت بلکہ گھر والوں کو پستول دکھا کر دھمکا بھی رہے ہو ۔سو اس سے پہلے کہ ہم اپنی دھمکی پر عمل کر یں یہاں سے عزت سے نکل جاؤ ورنہ وہ حشر ہو گا کہ پہچانے نہیں جا ؤ گے۔‘‘اس بار میاں بیوی دونوں ہی اس پر چڑھ دوڑے اور وہ ہاتھ جوڑ کر ان سے درخواست کر نے لگا۔

’’نہیں صاحب !پولیس کو فون مت کیجیے‘میری پالیسی لے لیجیے‘ورنہ میری نوکری کے لالے پڑ جائیں گے ‘صاحب !میں نے ابھی تک اپنے مکان کا کرایہ نہیں دیا ‘گھر میں دو دن سے راشن بھی نہیں ہے ‘مجھے ناکام پھرتے آج تیسرا دن ہے ۔صاحب! آپ تو بڑے دل والے ‘گھر والے اور پیسے والے ہیں ‘خدا کے لیے میری پالیسی لے لیجیے۔‘‘وہ گڑ گڑا رہا تھا ۔

’’نہیں چا ہیے ہمیں تمہاری پالیسی ‘کہہ دیا نا ہمیں انشورنس وغیر ہ میں کو ئی دل چسپی نہیں ہے ‘بہت ہو گیا بس یہاں سے چلے جاؤ ۔‘‘شوہر کی آواز بجلی کی کڑک سے بھی تیز تھی ۔اچانک انشورنس ایجنٹ اٹھا اور پستول تان کر شوہر‘ بیوی کی طرف دوڑ پڑا اور دونوں سہم کر پہلے کی طرح ایک کونے میں چلے گئے ۔انشورنس ایجنٹ کہہ رہا تھا ’’ یہ پستول نقلی نہیں ہے اس میں سچ مچ گولی ہے ‘یاتو جلدی سے میری پالیسی لیجیے ور نہ میں دس تک گنوں گا ‘اس کے بعد کیا ہوگا خود مجھے بھی نہیں پتااور پھر وہ گنتیاں گننے لگا۔’’ایک دو  تین  پانچ سات‘‘

’’دیکھو بھیا! میری بات سنو  پستول نیچے کر و۔‘‘بیوی گھگھیائی ۔’’اگر تمہیں پیسہ چاہیے تو وہ ہم دیدیں گے مگر پالیسی نہیں لیں گے۔چا ہے یہاں ایڑیاں رگڑکر مر جاؤ۔‘‘

’’نہیں میم صاحب !آپ کو پالیسی تو لینی ہی ہو گی !‘‘وہ سر ہو رہا تھا ۔’’یہ میری نوکری کا مسئلہ ہے ‘لے دے کہ ایک نوکری ملی ہے اوروہ بھی اتنی کانٹے دار ‘‘انشورنس ایجنٹ وہیں بیٹھ گیا۔میاں بیوی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس ضدی اور خود سر انسان کے لیے کیا کریں ‘آخر کب تک اس کبا ب کی ہڈی کو برداشت کر تے رہتے ‘بیوی نے آس پاس کے لوگوں کو شور مچاکر جمع کر لیا اور انشورنس ایجنٹ کو اتنے سارے لوگ اور شعلہ بار آنکھیں دیکھ کر اپنا سامان لے کر وہاں سے جانے میں ہی عافیت نظر آئی۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62301 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More