سوشل میڈیا کے معاشرے پر اثرات

ملک میں صحافتی آزادی کے باجود ہمارا میڈیا عوامی جذبات کی صحیح ترجمانی کرنے سے قاصر ہے۔ لوگ اپنی پریشانیاں شیئر کرنا چاہتے ہیں مگر نہ تو کسی ٹی وی چینل میں ان کے لئے کوئی جگہ ہے اور نہ کسی نیوز پیپر میں ان کو ایک کالمی جگہ مل پاتی ہے۔ ایک خاص طبقہ ہے جس نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر اپنا اثرو رسوخ قائم کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی کتنا بھی مجبور ہو اس کی آواز کو سننے والا اور اس کو شائع کرنا والا شاید کوئی نظر نہیں آتا۔چند ایک ایسے ادارے موجود ہیں جو اپنے صحافتی ذمہ داریوں کو محسوس کر تے ہوئے عوام کی آواز کو متعلقہ محکموں، اداروں اور افراد تک پہنچا رہے ہیں مگر ایسے اداروں کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر سمجھی جاسکتی ہے۔

چند ایسی چیزیں جن کو بیان کرنے کے بعد اس بات کو سمجھا جاسکے گا کہ معاشرے میں سوشل میڈیا نے اس قدر ترقی کیوں کی اور پھر اس کے ہمارے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ ایک تو وہیں وجہ تھی کہ جو اوپر بیان کی گئی ہے، کہ میڈیا پر ایک ایسے مخصوص طبقہ کا قبضہ تھا جس نے عام طبقہ کے میڈیا سے کوسوں دور کردیا۔ جس کے بعد اپنی آواز کو اٹھانے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا۔

سوشل میڈیا کے بڑھتے رجحان کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر فحاشی اور عریانی کو جس طرح عروج دیا جارہا ہے ہمارا معاشرہ اس کا ہرگز متحمل نہیں تھا۔ جب اس سیلاب بدتمیزی نے اپنی تمام ترحدیں عبور کر ڈالی اور اس کو روکنے کی خواہش رکھنے والے تمام تر کوششوں کے بعد تھک گئے تو انہوں نے سوشل میڈیا کو بطور ٹول استعمال کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ جو کہ ایک مثبت قدم تھا۔ اگرچہ اس کے بعد میں منفی اثرات بھی سامنے آئے مگر اب بھی اصلاح معاشرے کے لحاظ یہ ایک اچھا اقدام سمجھا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کے مستعمل افراد کی تعداد اس وجہ سے بھی بڑھی کہ جب میڈیا نے حقائق کو چھپانا شروع کردیا اور سچ اور جھوٹ کو ایسے خلط ملط کیا جانے لگا تو جو لوگ حقائق سے واقف تھے انہوں نے اپنے طور پر حقائق عوام کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس کا اور تو کوئی طریقہ نہ مل سکا تاہم سوشل میڈیا کے طور پر انہوں نے اپنی آواز کو اٹھانا شروع کردیا۔ جس سے وہ کسی حد تک سچ واضح کرنے میں کامیاب رہے۔

ذرائع ابلاغ کی یہ نئی قسم عوامی طاقت کے اظہار کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ سوشل میڈیا نے مثبت اثرات کے علاوہ معاشرے میں بہت سے منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ فحاشی کو فروغ دیا جانا، بے حیائی کا کھلے عام اظہار، غیر ضروری اور بے معنی استعمال کرنا، وقت کا ضیاع اور غیر رسمی تعلقات کا استوار کرنا۔
یہاں پر ایک خاص برائی جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے معاشرے میں پائی جا رہی ہے وہ ہے مذہبی طبقے کی غیر محتاطی۔ بہت سے ایسے افراد جو دین کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ مختلف غلط اور ناواقف فتوے دیتے نظر آتے ہیں۔جس سے نہ صرف عقیدے میں خرابی واقع ہوتی ہے بلکہ وہ لوگ عوام الناس کو بھی گمراہی کے رستے پر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے دیگر افراد جو سوشل میڈیا کو بطور ٹول استعمال کرتے ہیں وہ اپنے الفاظ کو معیاری خطوط پر استوار کریں۔ مذہبی رجحان رکھنے والا طبقہ خوب جان اور سمجھ کر مکمل ادارک کے ساتھ اپنی بات کو لوگوں میں پھیلائے ورنہ وہ شریعت سازی کرنے کا مرتکب ٹھہرے گا، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح بہتان ہوگا۔

سوشل اور سائبر میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کے درست استعمال کے لئے کوششیں تیز کی جائیں۔ اس قسم کا میڈیا ہمارے ملک میں طاقتور حلقوں کے استحصال کا شکار طبقات کے لئے امید کی نئی کرن بھر کر ابھرا ہے اور لوگ بھرپور طریقے سے اس کو اظہار خیال کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
خاص کر دینی اور نظریاتی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے پیغام رسانی کا استعمال بڑھائیں۔ نیوز لیٹرز، بلاگز، آڈیو ویڈیو شئیرنگ ویب سائٹس، سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ ان وسائل کو انتشار اور بدامنی پھیلانے کی بجائے اچھی روایات کی ترویج کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔ سماجی اور دینی حلقے بھرپور منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ اصولوں پر عمل پیرا ہو کر غیر ملکی کلچر کے اثرات میں کمی، بے ہودگی اور فحاشی کی روک تھام، ملکی روایات کے فروغ جیسی منازل حاصل کر سکتے ہیں۔

مختلف سماجی اور دینی تنظیموں کی جانب سے میڈیا ورکشاپس اور سائبر ٹیمیں تشکیل دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جو کہ انٹرنیٹ پر جاری ہونیوالے ایسے مواد کا جواب دے سکے جو کہ ملک اور مذہب کے خلاف ہو۔ اسی طرح موبائل کلپس سے عوامی شعور کی بیداری کا کام لیا جا سکتا ہے تو ایس ایم ایس روزانہ کی بنیاد پر اچھی باتوں کو پھیلانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ای میلز ، آن لائن گروپس ، چیٹنگ اور دیگر سہولیات سے فائدہ اٹھا کر بڑے پیمانے پر پڑھے لکھے طبقے تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ موبائل ٹونز معاشرتی اقدار کے اظہار کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں تو دوسری جانب آن لائن آڈیو ویڈیو چیٹنگ فورمز کے ماحول کو بھی مثبت طریقے سے بدلنے کی ضرورت ہے۔

اچھی ویب سائٹس کے ذریعے ملک اور مذہب کے بارے میں بیرونی پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جا سکتا ہے۔ فیس بک اور ٹوئیٹر جیسی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ہر قسم کے مواد کو پھیلانے کا باعث ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر اس میدان کو شرپسندی پھیلانے پر مامور قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو اس سے معاشرتی بگاڑ جنم لینے کا خدشہ ہے اس لئے صحیح اسلامی اور ملکی روایات کے امین حلقوں کا فرض ہے کہ وہ اس بارے میں اپنا کردار ادا کریں۔

جماعة الدعوة میڈیا سیل کراچی کی جانب سے 24 فروری کو ”چھٹی ایک روزہ سوشل میڈیا ورکشاپ“ کا انعقاد ایک اچھا اقدام ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی تنظیمیں سائبر جنگ میں اپنا پھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ جماعة الدعوة کے تحت ہونے والی ورکشاپس سے نوجوان طبقہ بھرپور فوائد سمیٹ رہا ہیں۔ ایسی ورکشاپس سے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی طرف رہنمائی حاصل ہوگی۔ جس سے معاشرے میں اس کے منفی اثرات زائل ہونگیں۔

جہاں پر مذہبی حلقوں کی ذمہ داری بنتی ہے وہیں حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فون پر لوگوں کی جانب سے پھیلائے گئے پیغامات اور ان کے جذبات کا احساس کریں۔ ضروری نہیں کہ عوامی اشتعال کے بے قابو ہونے کا ہی انتظار کیا جائے بلکہ بہت سے طوفانوں کو اچھی منصوبہ بندی سے روکا جا سکتا ہے۔
Arif Ramzan
About the Author: Arif Ramzan Read More Articles by Arif Ramzan: 81 Articles with 76183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.