مجھے یقین ہے کہ پھولوں پہ سورہا
ہے وہ
ہر ایک لب پہ جو زندہ ہے اک دعا کی طرح
یہ بات روزِ روشن کی طرح نمایاں ہے کہ شہید کا عمل اور رزق قیامت تک جاری
رہے گا۔شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے وہ اپنی فانی زندگی کے بدلے دائمی زندگی
حاصل کر لیتا ہے۔شہادت کے بیشمار درجات ہیں اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا
ہے کہ ”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو،بلکہ وہ
زندہ ہیں مگر تم اِن کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے“۔بلاشبہ پیغمبر ﷺ کی نیند
وضو نہیں توڑتی اورشہید کی موت غسل نہیں توڑتی۔شہید کوحق تعالیٰ کا قربِ
خاص اور مقامِ عالی نصیب ہوتاہے ۔اُسے قسم قسم کی نعمتیں ملتی ہیں ۔شہید کو
وہ ممتاز زندگی عطا ہوتی ہے جِس کے سامنے دنیا کی فانی زندگی کوئی حیثیت
نہیں رکھتی۔شہادت وہ رتبہ ،وہ مقام ہے جِس کی آرزو ہمارے پیارے آقا محمدِ
مصطفیٰ ﷺ نے ہمیشہ ظاہر کی ۔کِسی اعلیٰ ظرف نے کیا خوب کہا ہے کہ
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال ِ غنیمت نہ کشور کشائیسر کار دو عالم حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کی ایک
حدیثِ مبارک کا مفہوم ہے کہ” شہید کا خون زمین پر گرنے سے پہلے وہ (شہید)جنت
الفردوس میں پہنچ جاتا ہے“ اور پاکستانی مسلح افواج کاہر فرد اس موقف کی
سچائی پر بھر پور ایمان رکھتا ہے۔یہی سبب ہے کہ جب وہ ملک و قوم کیلئے لڑتا
ہے تو کبھی لغزش نہیں کھاتا۔اگلے جہان کی دائمی زندگی پر ایمان اتنا پختہ
ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں اس دنیا کی زندگی کی نسبت موت زیادہ عزیز ہوجاتی
ہے اور بہادری کا یہ اعلیٰ ترین اعزاز مسلح افواج کے اس فرد کو دیا جاتا ہے
جو زمین ،پانی اور ہوا میں دشمن کے خلاف انتہائی پُر خطر حالات میں اپنی
جان کی بازی لگاکر بہادری اور شجاعت کا بے مثال کا رنامہ کر دکھاتا ہے ۔یہ
قابلِ فخر اور ممتازاعزازات پانے والے ہماری مسلح افواج کے بہت سے شہدا
ءہیں ۔جنہیں میں خیراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور انشا اللہ تا حیات کرتا
رہونگا۔شہداءنے ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔اب ہمارا
بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کے ذریعے ہمیشہ انہیں نہ صرف یاد
رکھیں بلکہ اپنی مصروفیات میں سے ذرا سا وقت نکال کر شہداءکی یاد میں محافل
کا انعقاد کریں ۔حکومتِ وقت کا فرض بنتا ہے کہ پاک افواج کے شہداءکی سالانہ
برسیوں کا باقاعدہ اہتمام کرے۔مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک بھر میں
مختلف میوزیکل فنکشنز وغیرہ کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے مگر اِس اہم فریضہ
کی جانب کِسی کی بسیرت نہیں جاتی۔با وجود اِس کے کہ شہید اکا ملک وقوم پر
احسانِ عظیم ہوتا ہے
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
شہید کا جو لہو ہے وہ ملک کی زکواة ہے
|
|
گزشتہ دِنوں 20فروری 2013ءکو شہدائے کوہاٹ کی 10ویں برسی بھی خامشی سے ہی
گزر جاتی اگر سرفروشانِ پاکستان ویلفیر ٹرسٹ کے بانی و چیئر مین محمد رفیق
شہزاد نے فورسز کیڈٹ کالج اقبال ٹاﺅن کے پرنسپل ارشد اقبال کے تعاون سے
شہدائے کوہاٹ کی برسی کہ موقع پر ایک سمینارکا اہتمام فورسز کیڈٹ کالج کے
ہال میں کیا نہ ہوتا تو۔یاد رہے کہ مورخہ 20فروری 2003ءکوایک المناک فضائی
حادثے میں پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل مصحف علی میر اِن کی اہلیہ
کے علاوہ 15دیگر پاک فضائیہ کے جوان بھی شہید ہوگئے تھے۔مورخہ 22مئی2003ءکی
ایک اخباری رپورٹ میں شائع ہوا تھا کہ ”انکوائری بورڈ کے مطابق جہاز کے
پائلٹ نے کو ہاٹ ایئر بیس سے 10نائیکل میل پہلے اپنی بلندی ضرورت سے زیادہ
کم کر دی جِس کے باعث بادل کے ایک ٹکڑے سے گزرتے ہوئے جہاز ایک چوٹی سے
ٹکرا گیا ۔اِس حادثے میں کوئی زندہ نہیں بچ بچا“۔خبر کے مطابق حادثہ پائلٹ
کی غلطی کی وجہ سے پیش آیا تھا۔جبکہ شہزاد رفیق اپنی کتاب پروازِ شہباز میں
لکھتے ہیں کہ”ایئر مارشل مصحف علی میر اِن کی اہلیہ اور دیگر 15افسران بھی
اِسی پاک فضائیہ کے جہاز میں شہید ہوئے جسے دنیا بھر میں ایک معیاری فوکر
طیارہ سمجھا جاتا ہے اور یہ بے شمار خصوصات کا حامل ہونے کے ناطے ہر ملک کی
فضائیہ کے فلیٹ میں ضرور شامل ہوتا ہے ۔دنیا بھر میں ائیر چیف مارشل کے
ذاتی استعمال کے لیے ایف 27مخصوص کئے گئے ہیں ۔اس طیارہ کا سارا سسٹم فوکر
کی طرز پر ہوتا ہے ۔لائٹ ویٹ ہونے کے علاوہ F-27میں تین انجن ہوتے ہیں ۔ایک
انجن فیل ہونے کی صورت میں دوسرا اور دوسراخراب ہونے کی صورت میں تیسرا
انجن خود بہ خود اسٹارٹ ہوجاتا ہے۔اگر خدا نخواستہ تیسرا انجن بھی کام کرنا
چھوڑ دے تو اِس جہاز میں ایسا سسٹم نصب کیا گیا ہے کہ یہ گلائیڈ (بغیر انجن
) کے ہوامیں تیرتا ہوا 45کِلو میٹر تک جاسکتا ہے۔ماہرین اِس کی ایک خصوصیات
یہ بھی بتاتے ہیں کہ اِسے حساس اور نازک موقع پر بھی استعمال کیا جا سکتا
ہے کیونکہ یہ دشوار گزار راستوں اور تنگ ترین پٹی پر بھی آسانی سے اتارا
جاسکتا ہے“۔مندرجہ ذیل تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ایئرو پلینF-27کومورخہ 20
فروری2003کو کِسی سوچی سمجھی سکیم کے تحت نشانہ بنا یا گیا ۔مگر آج تک
حقائق پسِ پردہ ہی ہیں۔
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
سب کہاں لا کچھ لالہ و گل میں نمایا ں ہوگئیں
|
|
کِسی دانا کا قول ہے کہ زندگی قوم کیلئے وقف کر دو ہمیشہ زندہ رہو
گے۔شہداءکی یاد کی خوشبو سدا مہکتی رہے اِس عمل کیلئے حکومتِ وقت کے ساتھ
ساتھ عوام کو بھی میدانِ عمل میں گھوڑے دوڑانا ہوںگے ۔میں سرفروشانِ
پاکستان ویلفیئر ٹرسٹ کی تمام ٹیم اور فورسز کیڈٹ کالج کے پرنسپل کی عظمت
کو سلام کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شہدائے کوہاٹ کی 10برسی
کا ایک سیمینار کی صورت اپنے جزبات و احساسات کا اظہار کیا۔سیمینار کے
اختتام تک میری نگاہیں ہال کے دروازے پر ٹکی رہیں کہ شاید حکومتِ وقت کی
جانب سے بھی کِسی اہلِ قلب کی آمد ہو جائے ۔البتہ سیمینار کو وائس ایڈ
مرل(ر) جاوید اقبال ،ایئر وائس مارشل (ر) فاروق عمر اور برگیڈئیر (ر) عنایت
اللہ آرائیں کی شمولیت نے حسین ترین بنا دیا تھا۔بیگم وایئر چیف مارشل
مُصحف علی میراور دیگر 15شہدائے کوہاٹ کی عظمت کو ہمارا سلام جِن کی
موجودگی کی خوشبو سدا مہکتی رہے گی۔آخر میں رفیق شہزاد کے چند اشعار پیش
کرنا چاہونگا
مثالِ مطع تاباں ہیں فضائیہ کے شہید
پیامِ صبح درخشاں ہیں فضائیہ کے شہید
حریمِ ظلم کے اندر بچھے اندھیرے میں
چراغ بن کے فروزاں ہیں فضائیہ کے شہید
فضلِ حق و یقیں پر جو خوب لہرایا
وہی تو پرچم فشاں ہیں فضائیہ کے شہید
یقین کی راہ پہ رفیق وہ جان سے گزرے
وقارِ عظمتِ ایمان ہیں فضائیہ کے شہید |