ایک عجیب سی ہوا چلی ہے ‘ملک کے
کسی بھی حصے میں دہشت گر دانہ کارروائیاں ہوں ‘ان کا مجرم چاہے کو ئی بھی
ہو ‘اسی طرح چا ہے کسی نام نہاد گروپ نے اس کی ذمے داری قبول کی ہو یا نہ
کی ہو‘شک کی سوئی سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف گھومتی ہے اور تفتیشی
ایجنسیاں اندھا دھند مسلم علاقوں کا محاصر ہ کر کے پورے ملک میں خوف و ہراس
پھیلا دیتی ہیں ۔نہ صرف خوف و ہراس بلکہ دبے لفظوں میں انتہا پسندو ں کے
اشاروں پر انھیں ذہنی اور دماغی طور پر ٹارچر بھی کر تی ہیں ۔ اکثر سننے
میں آتا ہے ’’مسلمانوں نے ہمارا جینا مشکل کر رکھا ہے۔یہ کبھی اس ملک کے
وفادار نہیں رہے۔انھیں بھارت بھومی سے پریم نہیں ہے۔مہابھارت کو توڑنے کے
بعد بھی ان کو چین نہیں ملا۔آج بھی ان کا بس چلے تو ہندوستان کو پاکستان
بنا دیں۔ان کا مذہب انھیں آتنک سکھاتا ہے۔ان کے پیغمبر نے انھیں تلوار اٹھا
نے کا حکم دے کر سامنے آنے والے ہرغیر مسلم کو قتل کر نے کا حکم دیا
ہے۔‘‘یہ اور اس جیسے دل سوزاور جذبات کو ٹھیس لگانے والے فقرے بولے جاتے
ہیں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ‘انھیں خون کے آنسوں رونے
پر مجبور کیا جاتا ہے۔یہ تو صرف تعبیری انداز ہے ورنہ اپنے اپنے علاقے میں
الگ الگ اندازسے مسلمانوں کو ذہنی طور پر ستانے کی مذموم رسم انجام دی جاتی
ہے۔
حیدرآباد میں جوہوا عین ممکن ہے کہ اس کا تعلق ہندو دہشت گر دی سے ہو ‘اور
ایک دن آئے گا جب سچائی سامنے آئے گی اور گیروی رنگ میں رنگے کو ئی کر نل
پروہت سادھوی پر گیہ سنگھ ٹھاکر ‘ سوامی اسیمانندجیسے لو گ یا ان کے گر گے
منہ چھپائے نظر آئیں گے۔مگر آج پولیس دعوا کرتی ہے کہ وہاں سے ’’آر ڈی ایکس
‘‘ملی ہے اور آر ڈی ایکس انڈین مجاہدین جیسی نام نہاد تنظیمیں کرتی ہیں ۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ پولیس اس حقیقت کو بھول گئی کہ ’’کر نل پرو ہت ہی
وہ پہلا آدمی ہے جس نے بھگوا دہشت گر دو ں کے لیے فوج میں فرقہ پرستی کی
مذموم روایت چلا ئی اورآرمی کے دفاعی ذخیرے میں سے آر ڈی ایکس لاکر دی جسے
انتہا پسندو ں نے کئی مقامات پر آزمایااور مالیگاؤں ‘اجمیر اور جے پور کے
وہ مقامات چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دینے لگے کہ یہاں ہندوانتہا پسندو ں
نے کارروائی کی ہے۔مگر جب کسی کی آنکھوں میں جلن ہوتووہ سورج کی روشنی کیسے
دیکھ سکتاہے۔
میرا کسی نسانیت دشمن اور تباہی پھیلانے والی تنظیم سے کو ئی تعلق نہیں ہے
‘مجھے تو دکھ اس بات کا ہے کہ ہندوستان کی پولیس ‘حکمراں اور دیگر امن پسند
لوگ مجمع عام میں اکثر یہ سیکولر بیان دیتے ہو ئے نظر آتے ہیں کہ مسلمان
اور دہشت گر دی ایک نہیں ہیں اور مسلمان امن پرست ہیں وغیرہ۔مگر جو ں ہی
کہیں ایسا واقعہ رو نما ہوتا ہے ‘وہی لوگ نہ صرف اپنے باتوں سے پھرتے ہیں
بلکہ پولیس ان کے اشاروں پر ناچتے ہو ئے مسلم علاقوں پر دھاوا بول کر مسلم
نوجوانوں ‘بچو ں اور بزرگوں کو گر فتار کر لیتی ہے‘جدو جہد کر نے پر لااینڈ
آرڈر کے تحت انکاؤنٹر کر دیا جاتاہے۔پولیس کیسی’’ دہشت گر د‘‘ بن جاتی
ہے۔یہ کتنا دوغلا پن ہے ‘یہ کیسی منافقت ہے اور مسلمانوں کو بے وقوف بنانے
کا کتناسنگین سلسلہ ہے۔ہم نے اس ملک کو اپنا کہا ۔جاں سے بھی عزیز ہم اسے
سمجھتے ہیں ‘اگراس کی آبرو پر کو ئی حملہ کر تا ہے تو سب سے پہلے ہم ہی
اپنی گردن کٹاتے ہیں ‘یہی نہیں اس سے بھی زیادہ اگر ہمارا ملک ہم سے قربانی
مانگے تو دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے مگر ہماری قربانیوں کا یہ صلہ‘ہمارے نیک
جذبات کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ ہمارے احساسات کا اس طرح قتل بڑے دکھ کے
ساتھ کہنا پڑ رہا ہے
کیا یہ نمرود کی خدائی ہے٭بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
ہاں !یہ نمرو د کی خدائی ہے ‘جس میں لاکھ بند گی کر تے رہیں کو ئی
ہمارابھلا نہیں ہوگا ‘بلکہ ہمیں ہر بار پریشان کیا جائے گا۔سر عام ستایا
جائے گا۔پوری دنیا میں بد نام کیا جائے گا۔ہمارے اندر خوف و ہراس پھیلا کر
ہمیں زندہ رہنے کے احساس سے محروم کیا جائے گا۔ ہمارے مذہب کی تو ہین کی جا
ئے گی ‘ہمارے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی جائے گی اور گستاخوں کو سیاسی
پناہ دیجائے گی ۔انھیں بار بار ہمارے مذہبی جذبوں سے کھیلنے کے لیے بلایا
جائے گا۔ہم لاکھ احتجاج کر یں گے مگر نمرود کی خدائی میں ہماری لاشوں پر چل
کر بھی مذموم حرکت انجام دی جا ئے گی۔ ہمارے نوجوانوں کو گر فتار کر کے
ہماری ترقی کی راہیں مسدود کی جائیں گی۔ہم سے کہا جاتا ہے کہ مسلمانو ں نے
اس دیش کے لیے کچھ نہیں کیا ‘حالانکہ ہمارے کارنامے ہندوستا ن کے سورج کی
پیشانی پر دمک رہے ہیں ۔ہم نے اس ملک کو وہ ا نمول ہیرے دیے ہیں جن کے عکس
سے چاند دمکتا ہے اورجلتے سورج کو ٹھنڈک ملتی ہے۔جہنم بھی اگر کبھی یہاں
آجائے تو گرمی سے نجات پاجائے۔ ہم اور بھی کچھ کر نے کا عزم رکھتے ہیں ‘ہم
اس ملک کو ‘اپنے وطن عزیز کواور بھی بہت کچھ دینا چاہتے ہیں لیکن
کیسے دیں‘ہمارے انجینئر‘ڈاکٹر ‘وکیل‘دانش ور اور نیک نام نمایندے ٹارگیٹ
کلنگ کے شکار ہو گئے یا جیلوں میں سڑ رہے ہیں یا پھر انھیں پھانسی کے پھندو
ں پر لٹکا دیاگیا۔ اگر یہ نہ ہو سکا تو ہماری دانشور سو سائٹیوں میں پولیس
کے ذریعے ریڈ مار کر انکاؤنٹروں کی وارداتیں کر دی جاتی ہیں ا ور وہ چراغ
گل ہوجاتے ہیں جن سے زمانے میں اجالے کی امید تھی ۔
آج کی تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ این آئی اے خفیہ ایجنسیوں نے گر فتاریوں کے
لیے سرگرمی دکھاتے ہو ئے مبینہ اور کھلے دہشت گر دو ں کے علاقوں میں چھاپہ
مارنے کے بجائے اعظم گڑھ‘دربھنگہ‘سمستی پور ‘بھٹکل‘کوکن‘ حیدرآباد‘
بنگلور‘ممبئی ‘ چنئی ‘دہلی‘ اورکلکتہ جیسے علاقوں کو یر غمال بنا لیا اور
وہاں پر چلنے پھر نے والے ہر مسلم نوجوان پر کڑی نظررکھی جارہی ہے‘بلکہ
دوچار کے پیچھے تو پولیس لگ بھی چکی ہے جنھیں مجرم نہ ہوتے ہو ئے بھی
’’دہشت گر د پولیس ‘‘ مجرم بنا دے گی۔(یہ ا ن کی چٹکی کا کھیل ہے)ابھی
ہمارے بے قصور مسلم نوجوان جیلوں میں کیا کم ہیں کہ اور اضافہ ہو جا ئے گا
۔کچھ بوڑھے ماں باپ کا اور آسر اچھن جا ئے گا ۔کسی امید بر آنے سے پہلے دم
توڑ جا ئے گی ۔کچھ چھوٹے چھوٹے بچوں کا بھا ئی یا پاپا پھر انھیں روتا
بلکتا چھوڑ جا ئے گا ۔کسی بیوی کا سہاگ پھر اس کے سامنے اجڑ جائے گا۔
احساس
ہم سے کہا جاتا ہے کہ مسلمانو ں نے اس دیش کے لیے کچھ نہیں کیا ‘حالانکہ
ہمارے کارنامے ہندوستا ن کے سورج کی پیشانی پر دمک رہے ہیں ۔ہم نے اس ملک
کو وہ ا نمول ہیرے دیے ہیں جن کے عکس سے چاند دمکتا ہے اورجلتے سورج کو
ٹھنڈک ملتی ہے۔جہنم بھی اگر کبھی یہاں آجائے تو گرمی سے نجات پاجائے۔ ہم
اور بھی کچھ کر نے کا عزم رکھتے ہیں ‘ہم اس ملک کو ‘اپنے وطن عزیز کو اور
بھی بہت کچھ دینا چاہتے ہیں لیکن کیسے دیں‘ہمارے انجینئر‘ڈاکٹر
‘وکیل‘دانش ور اور نیک نام نمایندے یا توٹارگیٹ کلنگ کے شکارہو گئے یا
جیلوں میں سڑ رہے ہیں یا پھر انھیں پھانسی کے پھندو ں پر لٹکا دیاگیا۔ اگر
یہ نہ ہو سکا تو پولیس کے ذریعے ہماری دانشور سو سا ئٹیو ں میں ریڈ مار کر
انکاؤنٹروں کی وارداتیں کر دی جاتی ہیں ا ور وہ چراغ گل ہوجاتے ہیں جن سے
زمانے میں اجالے کی امید تھی ۔ |