ہندوستان میں آئے دن کوئی نا
کوئی نیا قانون اور منصوبہ بنتا ہے ۔نئے فیصلہ صادر ہوتے ،کمیٹیاں بنتیں
اور اس کو لیکر بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں اور ان سب کے مقصد کے طور پر کہا
جا تا ہے کہ اس سے جمہوریت مزید صحت مند،توانا اور مضبوط ہوگا ۔لیکن جب
واقعتااور صحیح معنوں میں صدق دلی سے ان فیصلوں ،منصوبوں اور قوانین پر عمل
آوری اور صدق دلی سے نفاذکی بات کی جاتی ہے تو سارے کے سارے منصوبے دھرے رہ
جاتے ہیں ،کوئی قانون کام نہیں آتا بلکہ الٹے اس کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں
اور تمام قسم کی یقین دہانیوں کے باوجود وہ قانون اور وہ منصوبہ محض کاغذ
کے فائلوں تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے اورپھرچھا جاتی ہے وہی خاموشی،سناٹا
اور سکوت تاآنکہ الیکشن کا موقع دوبارہ نہ آ جائے ۔اس کے قریب آتے ہی ایک
مرتبہ پھر ایسے منصوبوں کی باز گشت سنائی دی جانے لگتی ہے اور عوام کو سبز
باغ دکھانے کا عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے ۔اور اس عوام میں سب سے بھولی
بھالی اور ان کے اس دام میں آ جانے والے سب سے زیادہ اقلیت ہی ہوتے ہیں اس
لئے ان کے ساتھ ایسا کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے ۔
ابھی حال ہی میں حکومت نے ایک ایسے ہی فیصلہ کو حقیقی روپ دینے کی بات کہی
ہے ۔اور یہ فیصلہ ہے انھیں دی جانے والی قرض میں اضافہ یعنی اس سے متعلقہ
افراد کو اب سے پہلے 5لاکھ روپئے لون دیا جاتا تھا لیکن اب اس رقم کو بڑھا
کر 10لاکھ روپئے تک کر دیا گیا ہے ،اسکی شرح سود بھی دیگر بینکوں یا
کمپنیوں کی طرح نہ ہوکر محض 2فیصد شرح سودکے بطور رکھی گئی ہے ۔خبر کے
مطابق یہ فیصلہ وزارت برائے اقلیتی امور کی ایک داخلہ میٹنگ میں لیا گیا ہے
۔اس سے قبل اقلیتی حلقہ سے وابستہ چھوٹے تاجروں اور صنعت کاروں کو قومی
اقلیتی ترقیاتی و مالیاتی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی)کی جانب سے انتہائی
کم شرح پر لون دیا جاتا تھا ۔جس کے تحت قر ض دینے کی حد پانچ لاکھ روپئے تک
تھی مگر اب اسے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔وزارت کے اس فیصلہ سے چھوٹے
تاجروں کو کم شرح پر دینے کی حد 10لاکھ کر دی گئی ہے ۔
این ایم ڈی ایف سی کے مطابق اب تک اقلیتی تاجروں کو 4فیصد سالانہ شرح سود
پر پانچ لاکھ روپئے تک کا قرض دیا جاتا تھا جبکہ دیگر سرکاری قرضوں میں شرح
سود 8سے لیکر 10فیصد تک ہوتا ہے ۔وزارت کے بقول اس لون کا مقصد اقلیتی حلقہ
سے وابستہ تاجروں کو فائدہ پہنچانا ہے تاکہ وہ خود کفیل ہوں اور اپنی مدد
آپ کرنے کے اہل ہو سکیں ۔وزارت کے ذرائع کے مطابق قرض کی حد بڑھانے کے ساتھ
اعلی تعلیم کے حصول کے خواہشمند مسلم نوجوانوں کو 2فیصد شرح سود پر 20لاکھ
روپئے تک کا تعلیمی لون دینے کی راہ کو ہموار کیا گیا ہے ۔بقول وزارت اس سے
اعلی تعلیم کے حصول کے خواہشمند نوجوانوں کو سہولت ملے گی اور جن کے پاس
اپنے تعلیمی سلسلہ کو بڑھانے کے لئے مالی ذرائع نہیں ہوتے انھیں اس کے
ذریعہ اپنے خوابوں کی تکمیل میں مدد مل سکے گی ۔
اس سلسلہ میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امورکے رحمان خان نے میڈیا سے گفتگو
میں کہا ہے کہ اس کے بعد ہمارا اگلا منصوبہ اقلیتوں کو مالی امداد کے علاوہ
روزگار سے وابستہ ترقی کے بارے میں بھی سوچنا ہے ۔ان کے بقول ریاستی سطح پر
بھی بینکوں میں پیش آنے والی مشکلات سے نجات دلانے کے لئے وزارت کی جانب سے
کوشش کی جارہی ہے ۔اور بینکوں کے نام بھی سر کلر جاری کیا جائے گا کہ قرض
دینے کے عمل میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کے عصبیت سے کام
نہ لیں ۔ان کے مطابق اس تعلق سے ایم ایم اے نے وزارت مالیات کو ایک پروجیکٹ
بھیجا بھی ہے جس میں اقلیتوں کی اقتصادی ترقی کی بابت خاص پروگرام کو نشان
زد کیا گیا ہے ۔تاکہ انھیں مالیاتی پروڈکشن اور قرضوں کے لئے سود سے آزاد
سہولیات دستیاب ہو سکیں ۔کے رحمان خان کے مطابق ان کی وزارت نے اقلیتوں کی
تعلیم سے جڑے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل سے اقلیتی وزارت کو منتقل کرنے
کی درخواست بھی ہائی کمان کو پہنچا دی دی ہے ۔خبروں کے مطابق ایم ایم اے کے
نئے اپ ڈیٹ میں ابتدائی سطح پر اس پر رضا مندی بھی مل رہی ہے۔جس سے امید
کیا جا رہا ہے کہ تعلیم سے وابستہ امور کو وزارت برائے اقلیتی امور کو سونپ
دیا جائے ۔
دریں اثنا لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک اس سال پہلے جب کہ ایم ایم اے کی جانب
سے اقلیتوں خاص کر مسلم تاجروں کے لئے قرض کی حد بڑھا دی گئی ہے ۔مانا جا
رہا ہے کہ اس سے یو پی اے اقلیتوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہ رہی ہے ۔یہ خوش
نودی انھیں ملتی ہے یا نہیں یہ تو ایک الگ بات ہے لیکن این ایم ایف ڈی سی
کی حالیہ کارکردگیوں پر مسلم دانشور تجزیہ نگاروں کی جانب سے کئی سنگین
سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں ۔اس بابت گفتگو کرتے ہوئے یونائٹیڈ مسلم آف
انڈیا کے کنوینر ڈاکٹر سید احمد کہتے ہیں کہ یہ الیکشن 2014کی تیاری کے لئے
مسلمانوں کو محض خوش کرنے کا ایک عمل بھرہے ان کے بقول اس سے قبل بھی اس
قسم کے بیانات آتے رہے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔تاہم ان تمام
کے باوجود ڈاکٹر سید احمد کا کہنا ہے کہ یہ ایک خوش آئند قدم ہے ،مسلمانوں
کو اس کااستقبال کرنا چاہئے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے ۔
اسی طرح ایک اور دانشور ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ اب تک کا
ریکارڈ تشفی بخش نہیں رہا ہے اسی لئے اسے بھی ہم ایک فراڈ ہی تصور کرتے ہیں
۔ان کا کہنا ہے مسلمان اس سے اس لئے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے کہ اسلام میں
سود حرام ہے ۔ان کے بقول بہت سے مسلمان اسی سبب اس طرح کی سہولیات سے فائدہ
اٹھانے میں تکلف محسوس کرتے ہیں ۔اگر حکومت اتنی ہی مسلمانوں کی خیر خواہ
ہے تو وہ بغیر سود کے رقم مہیا کرائے یا پھر فائل چارچیز کے نام پر پیسے لے
نا کہ سود کی شکل میں ۔
کئی دانشوروں نے این ایم اف ڈی سی کے سسٹم اور قرض دینے کے شرائط پر بھی
تنقید کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ انھیں شرائط کے سبب مشکل ہی نہیں بلکہ
ناممکن ہو جاتا ہے ۔اور دیگر اقلیتیں تو ممکن ہے اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہوں
لیکن مسلمان فائدہ نہیں اٹھا پاتے ۔کئی دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ
حکومت خود تو یہ رقم فراہم کرتی نہیں بلکہ بینکوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ
انھیں قرض مہیا کرائے اور عموما دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بینک کے افسران و
ذمہ داران مسلمانوں کو قرض دینے یا اس قسم کی کسی بھی سہولت انھیں فراہم
کرنے میں آنا کانی کرتے اورمسلمانوں کے ساتھ عصبیت کا رویہ اپناتے ہیں ۔اس
قسم کے کئی مقدمات اخبارات کے ذریعہ بھی منظر عام پر آتے رہے ہیں ۔کئی
جگہوں پر بینک افسران کے ذریعہ مسلمانوں کو ذلیل کرنے اور قرض لینے کے نام
پر مذاق بھی اڑائے جانے کی اطلاعات ہیں ۔حالانکہ متعدد مسلم تنظیموں نے اس
جانب حکومت کے اعلی ذمہ داران کو توجہ بھی دلانے کی کوشش کی ہے جن میں بقول
سید قاسم رسول الیاس جماعت اسلامی ہند بھی شامل ہے لیکن حکومتی سطح پر اس
معاملہ کو لیکراس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔اس سے اقلیتوں کے مسائل
گھٹنے کے بجائے بڑھتے ہی رہے ۔ایسے میں وزارت کو محض قرض کی حد بھر بڑھا
دینے سے معاملہ کا حل ممکن نہیں ہے بلکہ اس قرض کو مفاد عامہ کے لئے مفید
اور کار آمد بنانے کے لئے بھی حکومت کو اقدامات کر نے ہونگے ۔
اور جیسا کہ بعض دانشوروں نے کہا ہے سود کی وجہ سے بہتیرے مسلمان ایسے
سہولیات سے فائدہ اٹھا پانے سے قاصر ہیں تو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت
ہے کہ اس کا کیا متبادل ہو سکتا ہے ۔اسے اور بھی آسان اور سہل کیسے بنایا
جا سکتا ہے ۔اس قسم کی کسی بھی سہولت کی اطلاعات چند گنے چنے اخبارات میں
دئے جاتے ہیں ۔اس کی وجہ سے بھی عام طبقہ کی رسائی ایسی سہولیات تک نہیں ہو
پاتی تو حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینا ہوگا ۔جو اخبارات مسلمان علاقوں
میں پڑھے جاتے ہیں ان اخبارات میں اشتہارات دینے ہونگے ۔سمپوزیم اور سیمنار
منعقد کرانے ہونگے ،مسلم دانشوران اور سماجی کارکنان کے درمیان کاونسلنگ
کرنی ہوگی اور انھیں بتا نا ہوگا کہ وہ عام لوگوں کو بیدار کریں کہ وہ
حکومتی اسکیم سے فائدہ اٹھائیں ۔بیداری کے لئے مہم چھیڑنی پڑے گی ۔سسٹم کو
مزید منظم اور سیاسی دباؤ سے پرے ہٹ کر ایک مضبوط تقاضہ اور ضرورت کے تحت
کام کو آگے بڑھانا ہو گا اگر ایسا ہوتا ہے تبھی حکومت کی کوئی بھی اسکیم
کامیاب ہو سکتی ہے بصورت دیگر وہی ڈھاک کے تین پات والی بات ہوگی اور اس کا
کوئی بھی حل نہیں نکل سکے گا ۔ |