بے روزگاری

ٍجمشید خٹک

ایک طرف دریائے کابل اور دوسری طرف پہاڑ اُس کے مابین میدانی علاقے میں جی ۔ٹی روڈ پر ہمارا گاؤں واقع ہے۔جی ۔ٹی روڈ پر پہاڑی نالوں کیلئے مختلف جگہوں پر پُل بنائے گئے ہیں۔گاؤں کے لوگ اکثر چہل قدمی کیلئے جی ۔ ٹی روڈ پر نکل آتے ہیں۔جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں پُل کے اُوپر بیٹھ کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے محظوظ ہو تے رہتے ہیں۔سڑک پر چلنے والے ٹریفک اور لوگوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔جہان دُنیا کے واقعات پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔ہر قسم کی گاڑی کو دیکھ کر اُ س کے بارے میں رائے زنی کرتے ہیں۔ اتنے میں ایک خوبصورت موٹر انتہائی تیز رفتاری سے گزر جاتی ہے۔موٹر میں معزز خاتون بیٹھی ہوتی ہے۔اور اُس کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا مرد شکل وصورت میں زیادہ خوبصورت نظر نہیں آتا۔گپ شپ میں مصروف ٹولہ موٹر کو دیکھنے کے بعد فوراً تبصر ہ کرتے ہیں۔

’’ شکل کو دیکھو اس کے کار کو دیکھو ‘‘۔وہ نہ اس آدمی کو جانتے ہیں۔نہ کوئی واسطہ ہے۔لیکن اس کو برداشت نہیں کرسکتے ۔یہ کیا ہے؟ یہ ذہن ، دل اور دماغ کے اندر سے نکلا ہوا بد نیتی کا اظہار ہے۔جو بلاواسطہ طور پر سے اُن کے زبان سے نکلتا ہے۔نہ اُس آدمی سے کوئی تعلق ہے۔دوستی ہے نہ دُشمنی ۔لیکن اس کے باوجود اس قسم کا تبصرہ کرنا ہمارے بد نیت ذہن کی عکاسی کرتا ہے ۔ذہنی طور پر ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے ۔کہ دوسرا آدمی بہتر کپڑے پہنے اچھی غذا کھائیں۔اور اچھی زندگی بسر کریں۔یہ منفی سوچ ہمارے معاشرے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔یہ سوچ منفی رجحانات کی عکاس ہے ۔یہ سوچ حسد اور ضد کو جنم دیتا ہے ۔حسد کی آگ میں پورا معاشرہ جل رہا ہے۔ہر آدمی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ دوڑ جاری ہے۔اس دور میں آگے نکلنے کی کوشش میں ہر جائز و ناجائز طریقے کو اپنایا جارہاہے۔جب تک یہ آگے نکلنے کی سوچ ذہن پر سوار ہے۔تو یہ سلسلہ جاری رہے گا۔سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔اگر سوچ میں تبدیلی آئے ۔تو ہو سکتا ہے ۔کہ تبدیل شدہ سوچ کے مطابق اس دوڑ میں کمی آئیگی۔ان اوٹ پٹانگ تبصروں کی ایک وجہ بے روز گاری بھی ہے ۔ اگر آبادی کے تمام افراد اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوں ۔تو فارغ بیٹھنے کی نوبت ہی نہیں آئیگی۔جب فارغ نہیں ہونگیں۔تو اُن کے پاس وقت کی کمی کے باعث تبصرے کرنے کا موقع نہیں ملیگا۔یہ واقعات اُن معاشروں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔جہاں بے روزگاری کے سائے سب سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔اُس سائے تلے لوگ وقت گزارنے کیلئے لوگوں کے بارے میں مختلف آراء پیش کرتے ہیں۔ہمارے دیہات میں تقریباً 50 فی صد آبادی بے روز گار ہے۔جبکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بے روز گار افراد کی شرح صرف 9 فی صد ہے ۔

ترقیافتہ ممالک اور ہمارے ملک میں ایک بنیادی فرق یہ ہے۔کہ ترقیافتہ ممالک میں تقریباً ہر مرد ، عورت ،لڑکا ، لڑکی برسرروزگار ہے ۔صبح سویرے کام پر چلے جاتے ہیں۔شام کو واپس گھر پہنچتے ہیں۔اُ ن کے پاس اس قسم کی فضول باتوں کا وقت ہی نہیں ہوتا۔اس لیے اُ ن کی سوچ کا محور محنت اور کام پر مرکوز ہوتا ہے۔لندن کا واقعہ ہے ۔کہ ساری رات برف باری ہوتی رہی۔صبح سویرے تک سفید چادر نے ساری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ایک سولہ سال کا طالب علم اس برفانی یخ تیز ہوا میں اخبار تقسیم کررہا تھا۔پیچھے اُس کا والد موٹر کار میں اُس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔یہ ماجرا کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔کہ ایک طرف اُس کا بیٹا چند سکوں کی خاطر اس ناموافق موسم میں گھروں میں اخبارات بانٹ رہا ہے ۔جبکہ اُس کا باپ گاڑی میں اُس کے پیچھے پیچھے آرہا ہے ۔جب اُن سے پوچھا گیا۔کہ ایسا کیوں ہے؟پتہ چلا کہ والد اپنے بیٹے کو پیسے کمانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تربیت دے رہا ہے ۔جب طالب علم نے اخبار بانٹنے ختم کردئیے۔تو والد کی گاڑی میں بیٹھ کر گھر آگیا۔اس سارے واقعے کا مقصد یہ تھا۔کہ طالب علم کو محنت کی عظمت اور خود کمانے کا ڈھنگ سیکھایا جائے۔یورپ میں اٹھارہ سال کی عمر کے بعد طلباء اور طالبات اپنے اپنے کاموں پر لگ جاتے ہیں۔والدین کے سہارے زندگی گزارنے کو اپنی انا کے خلاف سمجھتے ہیں۔اس لئے گھر کے تمام افراد بر سر روزگار ہوتے ہیں۔اور اپنی اپنی جمع پونجی رکھتے ہیں۔

میری سفارت خانے میں تعیناتی کے دوران ایک مترجم کی آسامی کے لئے مقامی اخبار میں اشتہار دیا گیا۔اُس اشتہار کے جواب میں کئی درخواستیں موصول ہوئی۔چھانٹی کے بعد پانچ درخواست کنندگان کو انٹرویو کیلئے بلایا گیا۔انٹرویو کے دوران ایک درخواست کنندہ سے جب سوال کیا گیا۔کہ اس وقت اُس کا کیا جاب ہے ۔اُس نے بتایا ’’ کہ اپنے والد کے دو سو فلیٹوں کا نگراں ہے ‘‘۔جب ہم نے یہ بات سنی ۔ تو حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ۔اُمیدوار کو بتایا کہ یہاں تو اتنی تنخواہ نہیں ہے۔جب ک وہ ایک دولت مند شخص کے بیٹے ہیں ۔جو دوسو فلیٹوں کا مالک ہے۔اُس نے برجستہ جواب دیا ۔کہ وہ ساری جائیداد اُس کے باپ کی ہے ۔اور باپ کی وفات کے بعد وہ اُس کا مالک بنے گا۔فی الحال وہ خود نوکری کرے گا۔تا کہ وہ تجربہ حاصل کر لے ۔ اور خود دولت جمع کر سکے۔اگر اُس کو ورثے میں جائیداد ملے ۔ تو وہ تجربہ کار ہوکر اُس کو سنبھال سکے۔جبکہ خود اعتمادی ، پلاننگ اور مستقبل کے بارے میں کوئی اس قسم کی سوچ رکھتاہو۔تو وہ کیسے ترقی نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس اگر ہمارے معاشرے کا کوئی فرد اتنی جائیداد کے مالک کا بیٹا ہو کر اتنی قلیل آمدنی پر نوکری کیلئے تیار ہوگا۔ہر گزنہیں ۔اور یہی ہماری پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے ۔

ہمارے ہاں خاص کر دیہات میں آدھی آبادی (خواتین) تو صرف گھر کا کا م کاج میں مصروف ہوتی ہیں۔جبکہ نوجوانوں کو روزگار نہیں ملتا۔بوڑھے ویسے ہی محنت مزدوری نہیں کرسکتے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے ۔کہ ایک کنبے کے سات سے آٹھ افراد میں سے ایک یا دو پیسے کماتے ہیں۔سارے کنبے کی ذمہ داری ایک یا دو کمانے والوں پر پڑتی ہے۔اس قلیل آمدنی سے بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔نہ صحیح تعلیم کا بندوبست ممکن ہوسکتا ہے ۔نہ علاج معالجہ کیلئے پیسے دستیاب ہوتے ہیں۔یہ صدیوں سے سلسلہ چلا آرہا ہوتا ہے۔کھولو کے بیل کی طرح گو ل چکر میں سفر جاری رہتا ہے۔تعلیم نہ ہونے کیو جہ سے نہ ذہنی معیار بلند ہوتا ہے۔اس لئے سڑک کے کنارے بیٹھ کر اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں۔ دوسروں کی خوشحالی کو دیکھ کر کوستے رہتے ہیں ۔ حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔نہ خود اچھے کپڑے پہن سکتے ہیں۔نہ دوسروں کے کپڑوں کوبرداشت کرسکتے ہیں۔نتیجہ کیا ہوتا ہے۔کہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔آئندہ نسلوں کیلئے خاطر خواہ تعلیم ، صحت ، بودوباش کا کوئی ورثہ نہیں چھوڑتے ۔تنگ دستی میں پیدا ہوا۔جوان ہوا۔ اور کسمپرسی کی حالت میں اﷲ کو پیارا ہوگیا۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24949 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.