امریکی جنگ سے افغانستان تاریخی،جغرافیہ اور معاشی حیثیت پر اثرات!

افغانستان کا سرکاری نام اسلامی سرکاری جمہوریہ افغانستان ہے اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان ، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میںترکمانستان ، ازبکستان اور تاجکستان واقع ہیں ۔

ارد گرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے اس کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں یہ افغانستان بالترتیب ایرانیوں،یونانیوں ،عربوں ،ترکوں، منگولوں ،برطانیوں،روسیوں اور آج کل امریکہ کے قبضے میں رہاہے ۔

مگر اس کے لوگ لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مذاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پراٹھارویں صدی کے وسط میںاحمد شاہ کے دور حکومت میںیہ ابھر اگرچہ بعد میں درانیکی سلطنت کے کافی حصے ارد گرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔

1919ءمیں انگریزوں سے اسے آزادی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد افغانستان صیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہے تھے ۔اور برطانیہ اس پر کبھی بھی مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا ۔آج افغانستان امریکہ قبضے میں ہے بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس افغانستان کو تبا ہ برباد کر رکھا ہے تمام امن و امان اور خوشحالی کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ اور اس کے کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے یہ تبائی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کھبی خنہ جنگی سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ۔اگرچہ افغانستان کے ساتھ تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگراس کے جغرافیہ حیثیت ایسے ہے کہ وہ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطی ٰ کے درمیان ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کے نسلی ، مذہبی اور ثقافتی رہا ہے اورجنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقوں نے ہمیشہ اس پرقبضہ یا اثر رکھنے کی کوشیش کی ہے ۔ افغانستان کو زیادہ رقبہ پتھریلہ اور پہاڑی علاقہ ہے ۔ اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں پر اپنا قبضہ اور زیاد ہ دیر تک اپنا دباؤ رکھنا مشکل رہا ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اور اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے تک امن ، فوری انصاف ، مساوات ، اور ترقی نصیب نہیں رہا ہے۔

میں نے کسی سے پوچھا کہ افغانستان کی تاریخ کیا ہے ؟ کب افغانستان وجود میں آیا ؟ کب اس کو دریافت کیا گیا ؟ کس نے اسے دریافت کیا ہے ؟ پہلا نسل کون اور کس کی ہے ؟ کیا افغانستان کی نصیب پیدائش سے ایسا ہی رہا ہے کہ کوئی ملک اٹھ کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشیش کرے ؟ اس ملک کے ساتھ ہی ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

تو کہنے لگا کہ افغانستان میں پہلے بھی پچاس ہزار سال پہلے بھی آبادی موجود تھی ۔ اور اس کے زراعت بھی دنیا کی اولین زراعت میں شامل ہے۔

سن 2000 قبل مسیح میں آریاو ں نے افغانستان کو تاراج کیا اور جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا ، اس کے بعد یہ عصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا ۔ 329 قبل مسیح میں اس کے کئی حصے ایرانیوں سے سکند ر اعظم نے چھین لیے جس میں بلغ شامل ہےمگر یونانیوں کا یہ قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔642 عیسوی تک یہ علاقہ وقتاَ فوقتا َ ہنو، منگولوں ، ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا ۔جس کے بعد اس علاقے کو مسلمانوں نے فتح کر لیا ۔ مسلمانوں کی اس فتح کی تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو سراسر غلط اور ایک جھوٹی تاریخ ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل ہیں اسلا م سے پہلے لوگ یہاں بدھ مت اور قبائلی مذہب کے پیروکار تھے۔

افغانستان دنیا کاغریب ترین ممالک میں شامل ہے اسکی بنیا دی وجہ روس اور امریکہ کی کشمکش اور اس علاقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں ، افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے ۔ہمیشہ کبھی روسی جنگ میں اور آ جکل امریکہ کے ساتھ جنگ میں ہے اسے کبھی معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی ہے۔افغانستا ن کی خاصی آبادی اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ایران کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس آناشروع ہو گئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی ہی معیشت کو تباہ کر دیا ہے ۔ اور نئی نسل کو پڑھنے لکھنے تعلیم حاصل کر کے جدید دور میں ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم حاصل کر کے جدید دور میں جدید ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے نہیں موقع ہی نہیں ملا جس کی زمہ داریاں روس اور امریکہ کے سر جاتے ہیں جس کی قبضہ کی خواہش کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہوا ہے کہ نئی نسل کو لکھنے پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ہی کم ملا ہے ۔ افغانستان میں جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی تو ان کو جنگ نے کافی زیادہ مصروف رکھا ۔

مجبوراََ اسلحہ ہی انکا کاروبار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی۔ ایک بڑی تعداد تعداد سمگلنگ سے بھی وابستہ ہوئی ۔

بہت معمولی تعداد پوست کے علاوہ دوسری اجناس کی کاشت کاری کر کے اپنا زندگی گزار رہے ہیں۔

ایشائی ترقی بینک کے مطابق2001ء کے بد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں کوئی قبل اعتماد اعداد و شمارے نہیں ملتے ہیں ۔ البتہ افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے ۔ مثلاََ 2005ء میں دبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکاکولا کا ایک پلانٹ افغانستان میں لگایا ہے ۔ افغانستان کو ابھی غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور 2006ءمیں زر مبادلہ کی بیرونی زخائر صرف پچاس کروڑ امریکہ ڈالر کے لگ پھگ تھے ۔

افراد زر افغانستان کا ایک بنیای مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہی ہے۔ مگر اب بھی حالات بہتر نہیں ہوئے ہیں2003 ءکے بعد تقریباََ14 نئے بینک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر ملکی بینک بھی شامل ہیں قابل کی ترقی لے لیے بھی نو عرب روپے مہیا کیے گئے ہیں عجیب بات ہے امریکہ ایک طرف افغانستان کو تباہ بھی کر رہا ہے تو دسری جانب پیسے فراہم کر کے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے ۔امریکہ کی حالیہ جنگ کی وجہ سے افغانستان معاشی اور معاشرتی نقصان میں چلا گیا ہے افغانستان کے ساتھ امریکہ کی جنگ میں طالبان کو فتح مل چکا ہے ۔ روسی طاقت بھی افغانستان کے ساتھ لڑتے لڑتے خود ٹوٹ کر ٹکڑا ٹکرا ہو گیا ہے ۔

اب امریکہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ جنگ کر کے روس ثانی بن چکا ہے ۔ گزشتہ سال کی اختتام میں امریکہ کے ہی 20 ریاستوں نے امریکہ سے آ زادی مانگ کر امریکہ کوحیران کر دیا تھا اس کا مطلب ہے امریکہ بہت جلد بھکرنے والا ہے ۔ چار کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی امریکہ افغانستا ن پر قبضہ اور طالبان کو شکست نہیں سکا ہے بلکہ خود اپنی شرمندگی سے اپنی ہارظاہر کر ہاہے۔

امریکہ نے افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست تسلیم تو نہیں کی ہے مگر ماہرین کو لگتاہے کہ امریکہ نے دل میں شکست تسلیم کی ہے اب اپنی فوج واپس بلانے کی بار بار سوچ رہا ہے۔ طالبان نے اپنے دورحکومت میں افغانستا ن کو جتنا امن اور انصاف دیاہے ایسی مثال امریکہ کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔طالبان نے افغانستا ن کو بچانے کا عہد کیا ہے ۔امریکہ کا افغانستان میں جنگ اور قبضہ مکمل طور پر ناکام ہو چکاہے ۔امریکہ کی اس جنگ سے افغانستان کا تاریخی،جغرافیہ اور معاشی حیثیت پر کافی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ جس کی زمہ دراری صدر حامد کرزئی اور امریکہ کے سر جاتا ہے۔
(ختم شدہ)
Asif Yaseen
About the Author: Asif Yaseen Read More Articles by Asif Yaseen: 31 Articles with 27508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.