کرّہ ارض پر آباد نسلِ اِنسانی
کے ایک ایک فردکی بے ثبات زندگی کا اِختصارنہ جانے کیوں خود ناپائیدار
اِنسانوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر اِنہیں گروہِ بدمست اور انبوہِ غفلت
شعاربنادیتا ہے۔!! ....فنا پذیرزندگی کی آخری سانس تک ....اِس حقیقت کے
باوجودبھی کہ.... اُس کے جسم و جاں کی قوتیں بہت جلد دم توڑدینے والی ہیں
......اور عنقریب اُس کی مختصر سی زندگی کے اختتام کا اعلان کرنے والی ہیں....کیوں
یہ اِنسان، اسبابِ زندگی اور مال و دولتِ دُنیا کومسلسل سمیٹنے میں اپنی
جان کھپاتا رہتا ہے۔!!....اُس کی زندگی کی یہ.... ناقابلِ تردید حقیقتِ بے
ثباتی.... کیوں اُسے خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کرپاتی۔!!.... اِس کا سبب
اِس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اِنسان اپنے خالق اور اُس کے احکامات سے
لاعلم رہ کریا لاتعلق ہو کر زندگی گزارتا ہے اور دنیاوی کھیل تماشے اُسے
حقیقتِ نفس الامری سے غافل رکھتے ہیں، لذّتیں اُس کی عقل پر حملہ آور ہو کر
اُس کی قوتِ ادراک کو یا تو مجروح کر دیتی ہیں یامفلوج کر کے اُس کی فکر ہی
کو اپاہج بنا دیتی ہیں۔اِس صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟
ایک ہی راستہ ہے جس پر چل کر اُسے منزل مل سکتی ہے اور وہ واحد راستہ ہے:
.... تعلق با اللہ کا راستہ.... اوریہ راستہ کتاب اللہ ہی سے ہو کر گزرتا
ہے ، اِسی روشن راہ سے گزر کر اُس کی سوچ کو صحیح رُخ میسر آ سکتا ہے اور
یہی روشن راہ اُس کی منزل کو بھی منور کر سکتی ہے، جس کا وہ دور ہی سے
نظارہ کر تے ہوئے سر تا پا نور بن کو اپنی منزلِ منور تک رسائی حاصل کر
سکتا ہے،چاہے اِ س کتاب سے اُس کی کوئی مذہبی وابستگی یا عقیدت ہو یا نہ ہو،
بہر حال اُسے اِسی راہ کو اختیار کرنا ہے۔ بصورتِ دیگراِس راہ کی بے خبری
کا یا لاتعلقی کا خمیازہ اُسے ضرور بھگتنا پڑے گا، جیسا کے آج ہم گمراہ
زمانے کی بے چینیوں کا روز ہی مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اِس دنیائے رنگ و بو میں ہماری سانسوں کا سفر جاری ہے۔ دُنیائے دوں میںدھوپ
بھی ہے اور چھاﺅں بھی۔لمحاتِ غم بھی میسرہیں اور خوشی کے پل بھی۔ زندگی کی
رنگا رنگی سے ہم مسلسل لطف اندوز ہو رہے ہیں۔لیکن ، ہمیں پسند ہو کہ
ناپسند،زندگی کو بہرصورت اپنے اندازسے گزرنا ہے اوریہ اپنے انداز سے گزرتی
جارہی ہے۔عصر جدید میں ہماری زندگی کو مصروف ترین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
کیوںکہ اِس کی رفتار بے حدتیز ہے، جیسے کوئی بہتا ہوا تندوتیز دریاہو۔ ہمیں
وقت ہی میسر نہیں کہ کبھی کچھ سوچیں ، کچھ سمجھیں، کہ یہ زندگی کیا ہے اور
کیوں ہے؟آنکھوں کے سامنے کمپیوٹر کے سکرین ہیں۔اپنے سامنے کھڑے ہوئے دوست
کی طرف دیکھنے کی تک ہمیںفرصت نہیں۔غلطی سے کسی کے چہرے سے نظریں ٹکراتی
بھی جاتی ہیں تو دفعتا موبائل کی گنٹھی بجتی ہے اور Excuse Meکے ساتھ غیر
موجود شخص کی آواز پر اِن کی توجہ مرکوز ہوجاتی ہے اور موجود شخص اپنا سا
منہ لے کر رہ جاتا ہے۔
فیس بک جس کا ہم نے ترجمہ کیا ہے:”کتابِ رُخِ زیبا“....اِس نے اِنسان کو
خیالی چہروں کی زیبائش کاگرویدہ تو بنا دیا ہے لیکن یہ جو ہزارہا چہرے
ہماری زندگی میں ایک وجود کے ساتھ ہمارے اطراف آئینوں سے زیادہ حیران و
پریشان متحرک نظر آتے ہیں، اِن سے ہمارا کوئی رابطہ باقی نہیں ۔اِس طرز عمل
کی بنیاد ایک خام خیالی ہے جوعصر حاضرکی دنیا کا وطیرہ ہے....خام خیالی یہ
کہ دنیوی زندگی میں وقت کی گردش ایک مقررہ مدّت کے بعد ہمیں ہلاک کر دیتی
ہے،نیز یہ کہ ہم جب اِس دُنیا میں زندگی لے کر آتے ہیں تو وقت کے گزرنے کے
ساتھ ہماری موت کے وقت کو بھی آنا ہوتا ہے، سو وہ آجاتا ہے، اِس سے زیادہ
زندگی کی کچھ حقیقت نہیں،اِس لیے دنیاوی زندگی کے خوب مزے لوٹو ، کیوں کہ
یہی سب کچھ ہے ۔ظن و تخمین پر مبنی اِس خام خیالی کا علم سے دور کا بھی
واسطہ نہیں ۔ لگتا ہے جیسے کچھ ایسی ہی ذہنیت کے لئے خالقِ کون و مکاںنے
اپنی آخری کتاب قرآنِ الحکیم کی سورہ جاثیہ(45)میں یہ اعلان فرما دیا ہے:”
اور(یہ حقیقت ناشناس) اِنسان یہ سوچتے ہیں کہ دنیا کی زندگی(کی حقیقت بس
اِتنی ہے کہ اِس)کے آگے کچھ نہیں، ہم(اُسی طرح) مرتے ہیں جس طرح ہم زندگی
لے کر آتے ہیں،اور کوئی اور نہیں صرف وقت ہمیں ہلاک کرتا ہے۔(حقیقت یہ ہے
کہ) انہیں اس چیز کا قطعی کوئی علم نہیں ہے، یہ صرف گمان اورظن و تخمین کر
رہے ہیں۔ “(24)
زندگی کی قدر و قیمت ہمیں کیسے معلوم ہوگی؟ظاہر ہے،حقیقتِ زندگی کا علم ہو
کہ قدر و قیمتِ زندگی کا علم،یہ علم ہمیں خالقِ زندگی اور خالقِ کائنات ہی
سے حاصل ہو سکتا ہے اور سورہ الحدید کی مذکورہ آیت میں زندگی اور ساز و
سامانِ زندگی کی اصل حقیقت کا علم نہایت واضح الفاظ میں ملتا ہے۔ وہی سازو
سامانِ زندگی جس کے حصول کے لیے انسان بگ ٹٹ دوڑ رہاہے۔ اگر ہم قرآن کی اِس
آیت سے حقیقی علم حاصل نہیں کریں گے تو ہم خلاءمیں ظن و تخمین کے تیر اِسی
طرح چلاتے رہ جائیں گے۔ دنیا ہی ہاتھ آئے گی ، نہ آخرت۔آئیے اِس راہ سے
گزرکر ہم بھی اپنی منزلوںکو پر نور کر لیتے ہیں:
سورہ الحدید کی آیت نمبر ۰۲ میں رب تعالی نے نہایت ہی واضح الفاظ میں دنیا
وی زندگی اور اِس کے ساز و سامان کی حقیقت کھول دی جس کے حصول کے لیے وہ دن
رات ایک کر رہا ہے:” اچھی طرح جان لو کہ بے شک یہ حیاتِ دُنیوی محض دل
لبھانے کی شے( اور سامانِ) لھو ولعب ہے اور(ایک ) رونقِ عارضی(سے عبارت) ہے۔
اور مال و اسباب او ر اِنسانی وسائل کی کثرت کو لے کر ایک دوسرے پر فخر
جتانے کے سوا یہاں کچھ بھی نہیں۔ دُنیوی زندگی کی مثال تو ایسی ہے، جیسے
آسمان سے نازل ہونے والی بارش جو(برستی ہے تو) زمین کوشادابی بخشتی ہے(اور
یہ سرسبرو شاداب زمین)باشندگانِ زمین کو بڑی خوشنما معلوم ہوتی ہے۔ پھر تم
دیکھتے ہو کہ(اِس زمین پر اُگنے والی) کھیتی دھیرے دھیرے پروان چڑھ رہی ہے،
پھر وہ فصل کی صورت میں (پک کر)تیار ہو رہی ہے۔ لیکن(اِسی ہری بھری زمین پر)
ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب وہ زرد پڑجاتی ہے اور( ساری کی ساری سر سبز و
شادابی) چورا چورا ہو کر رہ جاتی ہے اور اچھی طرح سمجھ لو کہ آخرت کی ابدی
زندگی میں صرف دو ہی چیزیں باقی رہ جائیںگی: ”عذابِ شدید “یا پھر اللہ کی
جانب سے” مغفرت و رضوانِ اِلٰہی“۔ اور دنیا کی یہ زندگی(اور اِس میں موجود
جملہ) اشیائے صَرف،متاعِ غرور اور سامانِ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ “(20)
بڑی عجیب بات ہے کہ ہم اپنی عقل و فہم اور عقل ِ عام کی دولت کا اِستعمال
سائنسی اکتشافات کے میدانوں میں توبڑے طمطراق سے کرتے رہتے ہیں اور یہ ثابت
کرتے رہتے ہیں کہ ہم اپنے آباءو اجداد سے کچھ زیادہ ہی عقلمند ہیں۔لیکن
کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ ایسی آیتوں کا تجزیہ کریں اور اپنی زندگی کو
اِلٰہی ہدایت کے تابع بنا دیں۔ سورة الحدید کی مذکورہ آیت میں تو ہم نے یہ
دیکھا کہ دنیاوی اسباب کی حقیقت کیا ہے۔اب ذرا ہم ترقی یافتہ سائنس کی
بھاشا میں بھی معلوم کریں کہ دنیا کی حقیقت اور اِس کی اصل کا معاملہ کیا
ہے !!
اگر ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اِنسان اِس زمین پر بسنے والی ایک اہم مخلوق ہے،
جسے اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے تو، یہ کوئی نئی بات نہیںہوگی۔ ظاہر ہے
کہ ہم خود ہی اس دنیا کی سب سے قیمتی شئے قرار پائیں گے بلکہ ہم تو قیمتی
مخلوق ہیںہی۔ظاہر ہے اگر ہم ہی نہ ہوں تو پھر یہ دنیا کس کام کی!! فرض کیا
جائے کہ ہمارے پاس یہ جو پانچ حواسِ خمسہ ہیں جو ہمارے اشرف المخلوقات ہونے
کا سبب بنتے ہیں،اگر پانچ نہ ہو کرتین ہوتے یا دو ہوتے تو کیا پھر بھی ہم
اشرف المخلوقات کے زمرے میں شامل رہتے؟شاید نہیں۔تو پھر اِن پانچ کے پانچ
حواس کی عطا کا مقصد کیا ہے؟کیا اِس عنایت کا مقصد اِس کے سوا اور کچھ ہو
سکتا ہے کہ ہم ان حواس سے کام لے کر اس کارخانہ دنیا کو دیکھیں، پرکھیں،
اِس پرسوچیں، سمجھیں اور پھر اس کی صحیح پوزیشن مقرر کریں۔ کیونکہ ہمارے
مشاہدات کے تجزیہ کے لیے رب تعالےٰ نے ہمیں عقل کی دولت سے نوازا ہے اور
اِس کے تجزیہ کردہ حقائق کو مذکورہ آیت میں موجود حقیقت سے جوڑنے کی ہم
کوشش کریں ،اور پھر اِس کی روشنی میں ہم اپنی زندگی کا وہی ایجنڈا مقرر
کریں جو رب کو مطلوب ہے۔ظاہر ہے ہم اگر ایسا نہیں کریںگے تو اُس تاجر کی
طرح گھاٹا اُٹھائیں گے جو اشیائے تجارت کی قیمت لگانے میں ناکام رہ
گیا۔آئیے ہم پہلے اپنے حواسِ خمسہ کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کن مصروفیات میں
اپنے آپ کو مصروف رکھتی ہیں اور الٰہی احکامات سے اِن کا کیا تعلق ہو نا
چاہیے۔ اگر اِن کا کوئی سروکار نہیں ہے تو یہ کیا رخ اِختیار کرتے ہیں ؟صاحبانِ
حواسِ خمسہ کسی ایک حس سے محروم رہ جاتے تو کس طرح حضرتِ اِنسان ایک جانور
کی زندگی گزارنے پر مجبورہوتے۔!!
ہم جانتے ہیں کہ پانچ قوتیں....حواسِ خمسہ.... اِنسان کے لیے سرمایہ کی
حیثیت رکھتی ہیں: حسِ بصیرت ، حسِ سماعت، حسِ شامہ، حسِ ذائقہ اور حسِ لمسہ
۔یعنی دیکھنے کی حس، سننے کی حس، سونگھنے کی حس، چکھنے کی حس، احساس کرنے
کی حس.... آئیے اِن کی حقیقت معلوم کریں کہ یہ کیا ہیں!!!
۱)....ہم اپنی آنکھ سے کسی شئے کو دیکھتے ہیں تو نور کے پروٹونس اس شئے سے
نکل کر ہماری آنکھ کے عدسے یا” ریٹنا“سے ٹکرا تے ہیں۔پھر منعطف ہو کرمنحرف
ہوجاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک معکوس (اُلٹی)تصویر بنتی ہے اورآنکھ
کے گولے کے پچھلے حصے پر چلی جاتی ہے۔یہ تصویر وہاں سے برقی سگنل کی صورت
میں یعنی نیورون کے ذریعے ، مرکز ِوژن یعنی بصارت تک پہنچائی جاتی ہے۔یہ
برقی سگنل ایک صاف تصویرکی شکل میں دماغ کے پچھلے حصے میں پہنچتی ہیں۔ حیرت
کی بات ہے کہ دماغ کے اندرون میں قطعی روشنی نہیں ہوتی، یہ تاریکی میں ڈوبا
ہوا ہوتا ہے۔جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم کسی شئے کو دیکھ رہے ہیں، تو اِس کا
مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اس شئے کے برقی سگنل کا اپنے دماغ میں ادراک کررہے
ہوتے ہیں۔ایک چھوٹی سی سوئی سے لے کر ایک عظیم پہاڑ یا وسیع آسمان
یاTitanic جہازکی تصویرہمارے دماغ کے چند مکعب سنٹی میٹرحصہ میں بنتی
ہے۔کتنی دلچسپ بات ہے کہ اس جھلملاتی اور دل لبھاتی دنیا کی ہر شئے کو ہم
اپنے دماغ کے نہایت ہی چھوٹے سے تاریک حصے میں صرف محسوس کررہے ہوتے
ہیں،جیسے کسی ٹی وی اسکرین پر فلم یا کمپیوٹر سکرین پر دکھائی دینے والے
حروف یا تصاویر۔رہی اشیاءکے مختلف رنگوں کی بات تو یہ نور کے مختلف موجی
طولWave length کی وجہ سے دکھائی دیتے ہیں۔اگر ریٹنا میں معمولی سابھی نقص
پیدا ہوجائے تورنگوں کے اندھے پن کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے اور سرخ رنگ ،
نیلا اور نیلا رنگ سبز دکھائی دینے لگتا ہے۔ابتداءمیں یہ تصور کیاجاتا تھا
کہ رنگ کو محسوس کرنا ایک حقیقت ہے۔لیکن سائنسی ترقی اب کسی اور بات کی
گواہی دیتی ہے، یعنی رنگوں کی نوعیت صرف محسوس کرنے والے شخص کے حواس پر
منحصر ہوتے ہےں۔سوال یہ ہے کہ آنکھوں کو کیا ہم نے ڈیزائین دیا ہے یا اس
میں بصارت کیا ہم نے ڈالی ہے؟ کیا اس میں کوئی ایک چیز بھی ہمارے پاس نہ
ہوتی، تو ہم کیا اسے بناکر اپنی آنکھوں میں فٹ لیتے؟
۲)....آنکھوں ہی کی طرح ہمارے کانوں کا معاملہ ہے۔ آواز کے سگنل بیرونی کان
سے ہوتے ہوئے اندرونی کان کے پردے تک پہنچتے ہیں۔ جو آواز کی لہروں کو برقی
لہروں میں تبدیل کردیتاہے۔ دماغ کے پچھلے حصے میں مرکزِ سماعت ہوتا ہے
جہاںآواز کوبرقی لہروں کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے۔ آواز کی دنیا سے سگنل
وصول کرنے والے دماغ میں حیرت انگیز طور پر مکمل خاموشی چھائی رہتی ہے۔
سوال یہ کہ کانوں کے کام، اسکے حصے کیا ہم نے ڈیزائن دیے ہے؟ ظاہر ہے اِس
کا جواب بھی ہمیشہ کی طرح ہوگا.... نہیں.... مطلق نہیں....!!
۳)....آنکھوں کے اور کانوں کے بیچ ایک خوبصورت سی ناک اپنے دو نتھنوں کے
ساتھ دعوتِ غور و فکر دیتی ہے۔مہکتے گلاب کی خوشبو ناک کے مشام میں پہنچتی
ہے اور برقی لہروں کی شکل میں دماغ میں محسوس کی جاتی ہے۔ دراصل ہم خوشبو
کے سالمات کوبراہِ راست محسوس نہیں کرتے، بلکہ صرف اس کے خیال یا برقی نبض
کو محسوس کرتے ہیں۔ کیا ناک اور اِس کے مشام ہماری اپنی تخلیق ہیں؟ کیااِس
کے ڈیزائن میں ہمارا یا ہمارے مشورے کا بھی عمل دخل ہے؟کیاکوئی ایسی تجویز
ہماری ہی تھی کہ جس کے نتیجے میں اِس حس کا وجود عمل میں آیا؟۔نہیں بلکہ ہر
گز نہیں۔ ہم تو آج خود ہی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہیں کہ ہمارے جسم میں
یہ کیسے کیسے ذیلی نظام ہیں ، جن کا انکشاف آج کی سائنسی ترقی کے نتیجے میں
ہمارے سامنے حیران کن تفصیلات لارہا ہے جسے ہمارے خالق نے تخلیق فرمایا ہے۔
۴)....اب دو جبڑوں اور خوبصورت دانتوں کے درمیان دیکھیے ، ایک نرم سی شئے
ہے، جسے ہم سب ”زبان“ کہتے ہیں....! اس کے ذریعے مختلف ذائقوں کو، دماغ میں
برقی لہروں کی شکل میں محسوس کیا جاتا ہے۔انسانی زبان، ذائقے کا وہ آلہ ہے
جس کا متبادل آج تک دریافت نہیں کیا جاسکا ہے، نہ کوئی ایسی مشین ایجاد کی
جا سکی ہے جو ذائقے کا پیمانہ بن سکے۔
۵)....اسی طرح جب ہم کسی شئے کوچھو تے ہیں، تو اس حس کے اِشارے برقی لہروں
کی شکل میں دماغ کے اندرون میںپہنچائے جاتے ہیں۔
جیساکہ عرض کیا گیا،سماعت ہو یا بصارت، ذائقہ ہو یا احساسِ بویا چھونے کا
احساس.... ان سب کااحساس دماغ میں پہنچنے والے برقی سگنلوں کا رہینِ منت
ہے۔اگرچہ حواسِ خمسہ ادنیٰ و اعلیٰ ہر قسم کے اِنسان کو عطا ہوئے ہیں،لیکن
سائنس کہتی ہے کہ ہر شخص کی سطحِ دانش ہی اُس کی سطح ِ احساس کو متعین کرتی
ہے۔پھر اُس کی سطح ِ دانش بھی اِس حقیقت پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کن نظریات
پر ایمان رکھتاہے۔اگر دنیا پرست ہے تو یہ سارے حواسِ خمسہ اِس کے مقصدِ
دنیاپرستی کے حصول ہی میں اُس کی معاونت کریں گے۔ اگر خدا پرست ہے تو یہی
حواسِ خمسہ اِسے آخرت کے بارے میں فکر مند بنائیں گے۔لیکن اِن دونوں قسم کے
اِنسانوں میں یہ بات مشترک ہوگی کہ جن چیزوں کے درمیان رہ کر یہ اپنی زندگی
گزاریں گے وہ پرچھائیاں Illusionsہوں گی۔البتہ دونوں قسم کے اِنسانوں کے
رویوں میں یہ فرق ضرورہوگا کہ اول الذکر اِس دنیا کی پرچھائیوں کوپرچھائیاں
نہیں سمجھے گا بلکہ اِن ہی کو سب کچھ سمجھ کر زندگی میں سرگرم عمل رہے
گا،دنیاکی نعمتیں ہی اُس کا اصل مطمحِ نظر ہوں گی، دنیا کے ساز و سامان ہی
اُس کے لیے سب کچھ ہوں گے۔ مگر موخر الذکر اِن سے معاملہ تو ضرور کرے گا
لیکن اِنہیں پرچھائیاں ہی سمجھ کر معاملہ کرے گا ، اِن کے پیچھے دوڑنے میں
اپنی زندگی گزارنے کے بجائے وہ اپنی حقیقت کا ادراک کرے گا، کائنات کے وجود
اور اِس کے خالق کے بارے میں وہ حقیقی سوچ کا حامل ہوگا۔اُس کی سماعت حق
آشنا ہوگی، اُس کی بصارت مادیتّ کی شان وشوکت سے غیر متاثر رہے گی،اُس کی
ناک کے مشام ہوں کہ اُس کی زبان کا ذائقہ یا چھوکر محسوس کرنے کی صلاحیت،
اُسے کبھی راہِ راست سے گمراہ نہیں ہونے دیں گے اور ابدی زندگی کی کامیابی
پر مستقلاً اُس کی نظر ہوگی۔وہ قرآن کی سورہ نور (24)میں موجود اِس حقیقت
آفریں اعلان پر صدق اللہ کی آواز بلند کرے گا:” اور جو لوگ حقائق کا انکار
کرتے ہیں، انکی تگ و دو اور اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے صحرا کی دھوپ میں
سراب، پیاسا اسے پانی سمجھے گا۔ کافی دقتوں کے بعد سراب تک پہنچے گا تاکہ
اسے وہاں پانی یا اس طرح کی کوئی شئے تو حاصل نہ ہو، اور وہیں وہ اللہ کو
پائے جو اسے وفات دے کر اس کا حساب ہی پورا کردے!! یاد رکھو اللہ حساب میں
بھی بہت تیز رفتارہے۔ “(39)
دنیا پر ایک نگاہ ڈالیے تو افسوس اور شرمندگی کے برہنہ رقص نظر آئیںگے، بد
بخت آدمی دنیا کی مادی پر چھائیوں کے حصول کی سمت نہ صرف تیز رفتاری سے
دوڑتا نظر آئے گا بلکہ ہرحد کو پھلانگتا نظر آئے گا۔ اِن شرم ناک حرکتوں
پرکوئی تکلف ہی ہوگا نہ گریز۔دراصل اِنسان کن اشیاءکا دیوانہ پایا گیا
ہے....؟رب تعالےٰ کا شکر کہ ہماری کسی ریسرچ کے بغیرہی اُس نے خود یہ لِسٹ
ہمیں مہیا کر رکھی ہے: سورہ آل عمران(۳)میں واضح الفاظ میں یہ لسٹ موجود
ہے:” انسانوں کے لئے (چند چیزیں ایسی ہیں جو)اپنی طرف کھینچنے اور لبھانے
والی بنادی گئی، اس کی اپنی من مانیاں اور خواہشات نفس،عورتوں، بیٹوں،
وسائل انسانی کی شدید محبت میں مبتلا رہنا ، اور سونے چاندی کے ڈھیر سارے
خزانے اور نشان زدہ گھوڑے یا سواریاں اورریوڑ، مویشی اورقیمتی زمینات یا
زرخیز زمینیں۔ مگر یہ سب بھی صرف اور صرف دنیا کی زندگی کے روزمرہ کے
استعمال کی اشیاءسے زیادہ کچھ نہیں۔ جبکہ اللہ کے پاس تمہاری اگلی زندگی کے
لئے کئی گنا بہترین ساز و سامان اور عیش و آرام تیار ہے۔ “ (14)
یہ جو اِلٰہی لسٹ ہمارے سامنے ہے، کیا اس کے علاوہ بھی مزیدکچھ چاہیے
اِنسان کو؟آج ہماری لسٹ میں مال و دولت، آرام دہ عالیشان گاڑیاں، اعلیٰ
درجے کے فرنیچرس والے بنگلے اور محلات ،شاندار نمبر پلیٹوں سے مزین کاریں ،
بینک بیلنس اور یہ خزانے، اولاد اور خدام کاہمارا منتظر مجمع شامل ہے تو
نوعیت کے اعتبار سے اِس میں کیا کچھ زائد ہے ، جو مندرجہ بالیٰ آیت میں
بیان نہیں کیا گیا ہو....!!!یہی تو وہ چیزیں ہیںجو بالآخر ”ثُمَّ یَکُونُ
حُطَامًا“کے منظرکا حصہ بننے والی ہیں۔اِس لیے کہ اِن کی حقیقت تو بس اِتنی
ہی تھی۔ یعنی یہ کہ چند محدود عکس، کچھ پر چھائیاں، چند پیکر اور کچھ
سایے....اِمتحان کے یہی تو وہ پرچے ہیں جو ہمارے ہاتھ میں تھما دیے گیے
ہیں۔تمام تر جانکار ی کے ساتھ ، پھر بھی ہم وہ سمجھتے ہیں جو ہماری خواہشات
ہمیں سمجھاتی ہیں اور وہ نہیں سمجھتے جسے ہمارا مالک مسلسل سمجھا رہا
ہے۔سچی بات وہی ہے جو سورہ مریم (19) میں کہی گئی ہے:” اور یہ انسان جن جن
چیزوں اور اموال کو کہتا ہے کہ یہ میرے ہیں، ان سب کے اصلی مالک اور وارث
تو ہم ہوجائیں گے !! اور وہ بیچارہ آئے گا ہمارے پاس خالی ہاتھ اور اکیلا۔
“(80)
ایک ایک کرکے ہم میں سے ہر کوئی موت کے دروازے پر قدم رکھنے والا ہے۔
پھرہمارے جمع شدہ مال اور ہماری دولت کی پرچھائیوں کا کون وارث ہوگا۔ظاہر
ہے وہی مالک اور خالق اِن کا وارث ہوگا، جس نے ان تمام چیزوں کے ساتھ خود
ہم کوتخلیق کا جامہ پہنایا ہے۔یہ بات ہم نہیں خود رب تعالےٰ نے اِس کی خبر
ہمیں سورہ مریم(19) میں دی ہے:” بیشک ہم ، ہاں ہم ہی اصلی وارث ہیں زمین
کے، اور اسکے سارے خزانوں کے۔اور ہماری ہی طرف ساری انسانیت کو لوٹ کر آنا
ہے۔ “(40)
واضح رہے کہ یہ دلرباپرچھائیاں ، یہ دلکش پیکر اور یہ پر کشش مال ودولت
ہماری اپنی نہیں ،نہ ہم نے ان کی تخلیق کی۔یہ اُسی نے ہم کو دی ہیں،جن کے
ہم ٹرسٹی تو ضرور ہوسکتے ہیں،لیکن مالک کبھی نہیں ہو سکتے۔ اصلی مالک تو
وہی ہوگا جس نے اِنہیں پیدا کیااور ہمیں عطا کیا۔ ساری دنیا کے لوگ فنا
ہوجائیں گے تو اصل وارث تو رب العزت ہی ہونگے۔ پھریہ سب ہمیں اگر اس نے دیا
بھی ہے تو ہمیشہ کے لئے کہاں دیا تھا اور یہ بھی کہ صرف ہمارے اکیلے کے لئے
بھی نہیں دیا تھا کہ دنیا کی ساری دولت ہمارے دامن میں ہم سمیٹ لیں۔!!یہی
تو مزاج ہے انسانوں کا کہ وہ ہر شے کو اپنی پاکٹ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ
جوآکسیجن جو ساری دنیا کے انسانوں کو دنیا کے ہر مقام پر میسر ہے اگر
انسانوں کے حوالے کی جاتی تو نہ جانے کتنے لوگ موت کی آغوش میں چلے جاتے۔
شاید اِسی خودغرضانہ مزاج کی بنا پر اِس Vitalضرورت کی شے اور ایسی دوسری
اشیاءکو رب تعالےٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ورنہ اِسے بھی ہم اپنی ذاتی ملکیت
میں شامل کر لیتے۔قرآن سورہ بنی اسرائیل (17) میں اِس حقیقت کی طرف بالکل
واضح الفاظ میں اِشارہ کرتا ہے:” آپ کہئے، اے انسانو! اگر تمہیں مالک
بنادیا جاتا میرے رب کی رحمت کے خزانوں کا، تو ضرور تم اسے خرچ اور ختم
ہوجانے کے ڈر سے اپنے پاس روکے رکھتے، کسی کو کچھ نہ دیتے۔ بیشک انسان دل
کا کنجوس ہوتا ہے۔ “(100)
”مغفرة من اللہ اور رضوان “کا کبھی ہمیں خیال بھی آتا ہے؟کب تک نعمت ہائے
خداوندی کو ہم اپنی عیاشیوں کے خادم بنائے رکھیں گے؟....کیا کبھی ہم
دُنیاکی اِن پرچھائیوں کی فریب کاری سے بچنے کی کسی شعوری کوشش کے خواہش
مند بھی ہیں؟ رسمی سجدوں میں مصروف ریاکار لوگ کیا کبھی اپنے غرور و تکبر
کی کلائی کو مروڑ کر اِسے رب تعالےٰ کے حضورسجدہ ریز کروانے کی جرات اپنے
اندر پیدا کر سکیں گے؟ہم تو صرف دُعاہی کر سکتے ہیں:رَبَّنَا تَقَبَّل
مِنَّا اِنَّکَ اَ نتَ السَّمِیعُ العَلِیمُ وتُب عَلینَااِنَّکَ اَنتَ
التَّوَّابالرَّحِیمُ ۔ رَبَّنَا لَا تُزِ غ قُلُوبَنَا بَعدَ اِذ ھَدَ
یتَنَا وَھَب لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحمَةً اِنَّکَ اَنتَ الوَھَّابُ ۔
وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیرِ خَلقِہ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ
وَاَصحَابِہ اَجمَعِینَ بِرَحمَتِکَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔ |