یہ شخص اپنے گھر سے تقریباً
20کلومیٹر دور ایک ادارے میں ملازم ہے ۔روزانہ یہ شخص 20کلومیٹر کا سفر
2حصوں میں دو گاڑیوں پر سوار ہو کر طے کرتا ہے ۔پہلی گاڑی اسے اس کے آبائی
گھر سے لے کر مین لاری اڈے تک پہنچاتی ہے جہاں یہ دوسری گاڑی میں سوار ہو
کر پندرہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے دہاڑی لگاتا ہے ۔اس کی یہ روٹین پچھلے دس
سال سے جاری ہے اور لگاتار جاری ہے ۔موسم کی شدت و حِدت اس پر تب اثر نہیں
کرتی کہ اس نے دہاڑی لگا کر اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ دال دلیا بنانا ہوتا
ہے لہٰذا اس کے زندگی میں چھٹی کا باب ہی ختم ہو چکا ہے ۔موسم کی شدت و
حِدت کو پس پشت ڈال کر بیوی بچوں کے لیے رز ق حلال کمانے والا یہ شخص پچھلے
دو ماہ سے بازو اور ٹانگ کی ہڈی تڑوا کر بستر پر پڑا ہے اس کی تیمارداری کے
لیے آنے والے افراد بھی اب نہیں آتے کیوں کہ اس کے بازہ اور ٹانگ کی ہڈی کو
ٹوٹے دو ماہ گزر چکے ہیں ۔یہ خود بھی اپنی اس لاچاری سے عاجز آچکا ہے اور
اس سے نجات کا طلب گار ہے ساتھ ساتھ اسے گھر کے حالات بھی ذہنی اذیت پہنچا
رہے ہیں ۔
اس کی داستان بھی کیا عجیب داستان ہے کہ جسے سن کر سمجھ نہیں آتی کہ قصور
وار قدرت ہے ، حکومت وقت ہے ، ہمارا سسٹم ہے ، عوام ہیں یا یہ شخص خود ہے
۔اس کو یہ حادثہ کیوں ، کیسے اور کب پیش آیا یہ راقم الحروف درج کر کے
قارئین کو بھی مذکورہ بالا سوالات کی گتھی میں الجھانا چاہتا ہے ۔ممکن ہے
قارئین کے پاس ان سوالات کے جواب نہ ہوں مگراس شخص کی کہانی میں قارئین کے
لیے ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے کہانی ملاحظہ کریں :
یکم جنوری نماز فجر کے بعد یہ شخص موٹر سائیکل پر سوار ہو کر اپنے مطلوبہ
سٹیشن کی طرف روا ں دواں تھا۔ابھی اس نے پانچ کلومیٹر کا سفر بھی طے نہیں
کیا ہوگا کہ سامنے سے آتی ہوئی تیز رفتار ویگن سے جا ٹکرا یا ۔ہیلمٹ اس کے
سر سے کسک کر دور جا گرا موٹر سائیکل اس کے کنٹرول سے نکل کر سڑک کے ساتھ
والی دیوار سے ٹکرا یا اور خود یہ بیچ سڑک قلابازیاں کھاتے ہوئے فٹ پاتھ سے
ٹکرایااور شدید زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا جہاں ایکسرے رپورٹ نے اسے اس
کی ٹانگ اور بازو میں فریکچر کا پروانہ تھما دیا ۔
تیمار داری کے دوران جب میں نے اس شخص کو نصیحتی طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ
موٹر سائیکل لے کر جانے کی کیا ضرورت تھی جب کہ جنوری کے شروع ایام میں ملک
کے کونے کونے میں سردی شدید ترین ہونے کے ساتھ ساتھ دھند بھی ایسی تھی کہ
ساتھ کھڑا شخص نظر نہیں آتا تھا ۔اس شدیدترین موسم میں صبح سویرے موٹر
سائیکل چلانا تو دور کی بات موٹر سائیکل کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا
ہے ۔یہ نصیحتی طعنہ صرف میرا نہیں تھا بلکہ ہر اس شخص نے اسے یہ طعنہ دیا
جس نے اس کی رودادسنی۔لیکن اس شخص کے پاس بھی اس طعنے کا خوب جواب موجود
تھا جسے یہ دے کر میرے سمیت بے شمار اشخاص کو چپ کروا چکا تھا۔
اس شخص کو بھی اس بات کا علم ہے کہ ان ایام میں سردی شدید حد کو چھو رہی
تھی دھند بھی شدید تھی اور اس شدید ترین سردی اور دھند میں روزانہ صبح
سویرے بیس کلومیٹر کا سفر موٹر سائیکل تو دور کی بات ،گاڑی میں طے کرنا بھی
مشکل ہوتاہے۔درج کی گئی حقیقت اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ ان ایام میں
مسئلہ یہ تھا کہ ملک کے بیشتر حصوں میں سی این جی کی بندش تھی اور پبلک
ٹرانسپورٹ تقریباً ناپید تھی ایک دو جو گاڑیاں میسر تھی ان کے لیے سواریاں
اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ دھکم پیل کے بعد بھی گاڑی میں جگہ ملنا جوئے شیر
لانے کے مترادف تھا۔جو سواریاں باقی رہ جاتی وہ پریشانی کے ساتھ ساتھ شدید
اضطراب کا شکار رہتی ۔ ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے دفاتر میں حاضری بھی کم
ہوتی اور جو ملازمین دفاتر پہنچتے تھے وہ لیٹ ہونے کی وجہ سے مزید
پریشانیوں کا شکار بھی ہوتے ۔سی این جی کی بندش ہونے کے ساتھ ساتھ دفاتر کی
بندش تو نہیں ہوئی تھی کہ معاملہ پریشانی کی حد کو نہ چھوتا ۔ساتھ ساتھ
دفاتر کے باس بھی ایک دو دن لیٹ آنے والے ملازمین کے ساتھ تعاون کرتے رہے
لیکن روز معمول میں لیٹ آنے والے ملازمین باس حضرات کے لیے بھی وجہ پریشانی
تھے جس کی وجہ سے بیشتر افراد کو متبادل ذرائع کا استعمال کرنا پڑا ۔جس کی
جتنی رسائی تھی اس نے اتنا بڑا متبادل ذریعہ استعمال کیا۔انہی متبادل ذرائع
میں ایک ذریعہ موٹر سائیکل بھی ہے جس کی وجہ سے یہ شخص ہڈیاں تڑوا کر بستر
پر پڑا ہے ۔
ان متبادل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے نہ سردی دیکھی جاتی ہے نہ گرمی ، نہ
بارش نہ دھند۔جب یہ متبادل ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں تو حادثات ہونا عام
سی بات ہے ان حادثات میں زیادہ تر انہی افراد کو پریشانیوں کا سامنا کرنا
پڑتا ہے جو معاشی و معاشرتی طور پر پسے ہوتے ہیں جن کے پاس کوئی خا ص ذریعہ
نہیں ہوتا ہے ۔یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں’’ چھوٹے ‘‘لوگ کہاجاتا
ہے جو’’بڑوں ‘‘ کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ
بڑوں کے عتاب کا نشانہ بننے والے ان لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں مگر ایسا
نہیں ہے یہ ’’چھوٹے ‘‘لوگ اکثریت میں ہیں اور اگر یہ ’’چھوٹے ‘‘لوگ ملک کے
باگ دوڑ کے لیے مخلص افراد کا چناؤ کریں اور ذاتی مفادات کے بجائے اجتماعی
مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں تو یقیناً ان ’’چھوٹے ‘‘لوگوں کو وہ
اہمیت ملے جن کا انہیں ادراک نہیں۔ |