گھڑی کی سوئیاں، بجلی کا بحران، حل کیا ہے؟ وطن عزیز میں توانائی
کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور پورے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا
سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔حالانکہ کہ ابھی موسم گرما کا آغاز ہی ہے لیکن ابھی
سے بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
جب موسم گرما کی شدت ہوگی اور بجلی کا استعمال زیادہ ہوگا اس وقت کیا حال
ہوگا۔ارباب اختیار اس بحران کو حل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرتے رہتے
ہیں۔اور اسی سلسلے میں پندرہ اپریل سے پاکستان کے معیاری وقت کو ایک گھنٹہ
آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ فیصلہ گزشتہ سال بھی کیا گیا تھا۔اگرچہ
ہم اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکے تھے لیکن یہ بالکل مناسب فیصلہ ہے
اور ترقی یافتہ ممالک میں سورج کی روشنی کو استعمال میں لانے کے لیے ایسا
کیا جاتا ہے۔لیکن چونکہ ہمارے ملک میں یہ طریقہ کار بالکل نیا ہے اور عوام
ابھی اس کےعادی نہیں ہوئے ہیں اس لیے تھوڑی سی مشکلات پیش آتی ہیں۔اس حوالے
سے سب سے بڑا اعتراض تو یہ کیا جاتا ہے کہ اس سے نماز کے اوقات متاثر
ہوجاتے ہیں اور بہت پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔اگر دیکھا جائے تو یہ اعتراض
مناسب نہیں ہے۔ دیکھیں دین اسلام کوئی ساکت و جامد دین نہیں ہے۔بلکہ ہر دور
کے لیے ہے اور اللہ رب العالمین جو عالم الغیب ہے اس پاک رب کو پتا ہے کہ
کیا ہونے والا ہے اسی لیے اللہ نے ہمیں بتایا کہ سورج اور چاند سے
اپنےاوقات کا تعین کریں، یعنی چاند سے اپنی تاریخوں کا اور سورج سے اپنے
وقت کا تعین کریں۔تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گھڑی تو ایک سہولت ہے جس سے
اوقات کا درست ترین تعین کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ جبکہ نماز کے اوقات کا
تعلق گھڑی کے بجائے سورج سے ہوتا ہے۔ اسلیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس سے
نمازوں کے اوقات متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری بات اگر گزشتہ سال اس سے فائدہ نہ
اٹھایا جاسکا تو اس میں ہمارے عمومی مزاج کا قصور ہے کیوں کہ ہمارا مزاج اب
شام ڈھلے خریداری اور رات گئے جاکر سونا اور صبح دیر سے بیدار ہونا یہ
ہمارے معمولات ہوتے ہیں۔سوائے دودھ ، بیکری، یا ایسی دکانیں جہاں ناشتہ
تیار ہوتا ہے وہی دکانیں صبح سویرے کھلتی ہیں جبکہ دوسری دکانیں دس بجے تک
اور مارکیٹیں عموماَ گیارہ بجے تک کھلتی ہیں تو اب بتائیں کہ اس میں حکام
کا قصور ہے یا ہمارا؟ کس نے کہا ہے کہ شام ڈھلے مارکیٹ جائیں؟ کس نےکہا ہے
کہ سورج چڑھے تک سوتے رہیں؟ اب یہ تو عام سی باتیں ہیں جن پر لوگوں کو ویسے
ہی عمل کرنا چاہیے ان باتوں پر عمل کے لیے تو کوئی بھی حکومت کچھ نہیں
کرسکتی ہے۔اس کےلیے تو لوگوں کو خود ہی کوشش کرنی ہوگی۔اس لیے میرے خیال
میں یہ کہنا کہ گھڑیاں آگے کرنا کا فیصلہ درست نہیں ہے۔بالکل بے جا ہے۔
یہ تو گھڑی کا ایک گھنٹہ آگے کرنے کا مسئلہ تھا اب ہم زرا جائزہ لیتے ہیں
کہ بجلی بحران کیوں پیدا ہوا؟اس کے اسباب کیا ہیں ؟اور کیا ہم اس کو دور
نہیں کرسکتے ہیں؟؟
سابقہ دور حکومت میں عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے بجائے ان کو مصنوعی
خوشیاں فراہم کی گئیں اور عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی با آسانی فراہمی
کے بجائے وہ اشیاء جو کارآمد تو ہیں لیکن بنیادی ضرورت میں شمار نہیں ہوتی
ہیں انکو سستا کیا گیا۔بنیادی ضروریات یعنی آٹا، دال، چاول، گھی، اشیائے
خوردو نوش، صحت، تعلیم کو آسان اور سستا کرنے کے بجائے سودی نظام کو فروغ
دیتے ہوئے آسان اقساط کے نام پر عوام کو ڈی وی ڈی پلیئر، ٹی وی،اے سی،
اسپلٹ، مائیکرو اوون، اور دیگر جدید الیکٹرک آلات کو عام کیا گیا۔اور یہ
سلسلہ اتنا عام ہوا کہ کئی اداروں نے تو ایڈوانس کے بجائے براہ راست یہ
اشیاء اقساط پر فراہم کرنا شروع کی گئی۔ (یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ جو
کمپنیاں اور ادارے اقساط پر سامان بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں ان کے معاہدے
کے مطابق کوئی چیز نہ بیچی جاتی ہے نہ خریدی جاتی ہے بلکہ ایک مقررہ رقم کے
عوض کرائے پر دی جاتی ہے یعنی اگر کبھی کوئی ادارہ اپنی فراہم کردہ کسی چیز
کو واپس لینا چاہے تو وہ اس کا مجاز ہے۔) اب چونکہ عوام کے لیے یہ ایک
سرپرائز تھا کہ وہ اشیاء جو کبھی دس بارہ ہزار یکمشت یا ڈھائی تین ہزار
روپے ماہانہ کی اقساط کے حساب سے ملتی تھی اب وہ پانج پانج ہزار یا آٹھ آٹھ
سو روپے ماہانہ قسط میں دستیاب ہیں تو عوام فوراً اس کی جانب لپک پڑے اور
ان الیکٹرک اشیاء کی اندھا دھند فراہمی سے بجلی کے استعمال میں ایک دم
اضافہ ہوگیا۔ دیکھیں ان اشیاء کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن یہ اشیاء بہرحال
بنیادی ضرورت نہیں ہیں۔ پھر آپ یہ دیکھیں کہ پہلے اگر ایک گھر میں ایک ٹی
وی ایک فرج ایک وی سی آر یا سی ڈی پلیئر ہوتا تھا اب ایک گھر میں اگر چار
بھائی رہتے ہیں تو اس گھر میں کم از کم چار ٹی وی اور دو فرج تو ہوتے
ہیں۔اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر دسویں گھر میں اسپلٹ،اے سی لگے ہوتے
ہیں۔حکومت نے عوام کو یہ اشیاء کو فراہم کردی لیکن اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی
پیداوار بڑھانے پر دھیان نہیں دیا گیا جس کا لازمی نتیجہ بجلی کے بحران کی
صورت میں نکلنا تھا اور وہ نکلا بھی۔
یہ بجلی کے بحران کی ایک وجہ تھی دوسری اہم بات جو سامنے آئی ہے کہ کراچی
میں کے ای ایس سی کی انتظامیہ نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے اپنے کئی پلانٹ
بند کیے ہوئے ہیں تاکہ ایندھن کی بچت کی جاسکے اور اس کا خمیازہ عوام کو
بھگتنا پڑ رہا ہے۔( یہ بھی ایک تماشہ ہے کہ بجلی ندارد لیکن نرخ بڑھتے
جارہے ہیں)۔
اس کے علاوہ حکومتی سطح پر بجلی کی کمی کا رونا تو رویا جاتا ہے لیکن
دارالحکومت سمیت کئی شہروں میں دن بھر اسٹریٹ لائیٹ کھلی رہتی ہیں، سرکاری
دفاتر میں بے دریغ بجلی کا استعمال کیا جاتا ہے اور سرکاری دفاتر میں جہاں
جہاں بھی اے سی کی سہولت فراہم کی گئی ہے وہاں سارا سارا دن اے سی چلتے
رہتے ہیں۔ یہ تو بجلی کے بحران کےکچھ اسباب تھے یقیناَ مندرجہ بالا وجوہات
کے علاوہ بھی کئی اور وجوہات بھی ہونگی لیکن فی الحال ہمارے ذہن میں یہی
ہیں
کچھ باتیں جن پر عمل کیا جائے تو ہم کافی حد تک بجلی کی بچت کر سکتے ہیں۔
حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آئندہ کوئی بھی سرکاری تقریب رات میں
منعقد نہ کی جائے بلکہ دن کی روشنی میں منعقد کی جائے تاکہ اس طرح بجلی کم
سے کم خرچ ہو۔ شہروں میں عموماَ شادی کی تقریبات رات گئے تک جاری رہتی ہیں
جس میں بے تحاشہ چراغاں کیا جاتا ہے اور لائیٹں جلائی جاتی ہیں ۔ اور شادی
ہالز بھی رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اس حوالے سے شادی ہالز کی انتظامیہ کو
پابند کیا جائے کہ وہ لازماَ شادی ہال کو رات گیارہ بجے تک بند کردیں اور
اس ضمن میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ آج کل یہ بھی اک رجحان بن گیا ہےکہ کرکٹ میچ وغیرہ بھی رات
کو منعقد کیے جاتے ہیں تو حکومت سطح پر اس بات کی کوشش کی جائے کہ کوئی بھی
کرکٹ میچ یا دوسرا کوئی ٹورنامنٹ نائٹ کے بجائے ڈے لائٹ میں کرایا جائے تو
اس سے بھی بجلی کی خاطر خواہ بچت کی جاسکتی ہے۔اگر حکومتی سطح پر یہ
اقدامات کیے جائیں گے تو میں نہیں سمجھتا کہ عوام بھی حکومت کا ساتھ نہ دیں۔
عوام کو بھی چاہیے کہ وہ بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری کا مظاہرہ
کریں۔اگر گھر میں بلب لگے ہیں تو ان کو انرجی سیور سے تبدیل کیا جائے، تمام
غیر ضروری آلات بجلی کو بند رکھا جائے۔آج کل ٹی وی کی نشریات چوبیس گھنٹے
جاری رہتی ہیں لیکن اس میں تمام پروگرامات نشر مکرر کے طور پر پیش کیے جاتے
ہیں اس لیے کوشش کریں کہ ٹی وی وغیرہ کا استعمال بھی کم کیا جائے۔
یہ ایک جائزہ اور کچھ تجاویز تھیں جو ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہیں اگر حکومت
اور عوام ان باتوں پر عمل کریں تو یقیناَ ہم بہت جلد بجلی کے اس بحران سے
نکل سکتے ہیں۔ |