امریکی گورے اور فریڈم آف انفارمیشن

کسی زمانے میں ایک امریکی سفارت کار نے پاکستانیوں کے بارے میں لکھا تھا کہ پاکستانیوں کی قیمت امریکہ کا ایک دورہ ہے جس کے بعد یہ سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اس بات کو آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف نے اپنی یاداشتوں میں بھی لکھا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب امریکی ڈالر پاکستان میں چالیس روپے کا ملتا تھا اب چونکہ ڈالر پاکستان کے ایک سو روپے کے بالکل قریب ہے تو وقت کی مناسبت سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی چند ہزار ڈالر کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں اتنی بڑی لمبی تمہید یقیناقارئین کیلئے بورنگ ہوگی لیکن گذشتہ دنوں پشاور یونیورسٹی کے سنٹرل لائبریری میں واقع لنکن ان ہال میں دو گھنٹوں پر مشتمل ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس سے اندازہ ہوگیا کہ اور تو اورہمارے تعلیمی ادارے بھی ڈالرز کیلئے بہت کچھ کرنے پر تیار ہوتے ہیں- 2006 ء میں پشاور یونیورسٹی کے حدودمیں واقع سنٹرل لائبریری میں بننے والا لنکن ان ہال امریکی ڈالروں کی مدد سے بننے والا واحد ہال ہے جس کا افتتاح وقتا فوقتا کیا جاتا ہے امریکی قونصل خانے پشاور میں تعینات امریکی بھی پاکستانیوں کا مزاج سمجھ گئے ہیں کہ ان کے سامنے قینچی اور فیتہ کاٹنے والی تصاویر کی بڑی ڈیمانڈ ہے اس لئے ان کے یہاں پر تعینات پی آر او اس طرح کے ڈرامے مقامی میڈیا کو لائن پر لانے کیلئے استعمال کرتی ہیں ویسے امریکی گوروں کو ہمارا مزاج سمجھانے والے ہمارے اپنے پاکستانی ہی ہیں اس طرح کی تقریبات میں آکر قونصلر حتی کہ سفارت کار بھی یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں یہاں آکر بڑی خوشی ہوئی کہ ہم یہاں پر آئے -اب اس میں صحافیوں کیلئے خبر کونسی ہے یہ صحافی ہی جانتے ہیں-

حال ہی میں لنکن ان ہال پشاور یونیورسٹی کیلئے سولہ ہزار کی فنڈ امریکی سفارت خانے نے ریلیز کردی جس میں پانچ ائیرکنڈیشنر سمیت وال ٹو وال کارپٹ اور رنگ و روغن کا کام کیا گیا کم و بیش سولہ لاکھ پاکستانی روپوں میں جتنا کام پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کیا ہے اس میں خرچ کتنا ہوا اور کہاں پر ہوا یہ تو انتظامیہ ہی جانتی ہے لیکن پشاور یونیورسٹی کے ایک ملازم جو اس وقت سیمینار میں شریک تھے کے بقول امریکی ڈالروں سے خریدے گئے ان ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈک بہت زیادہ ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ امریکی خیرات یعنی امداد سے یونیورسٹی کے کن کن لوگوں کا حال بہتر ہوا ہے لیکن اس سیمینار میں ایک ایسے پروفیسر کو بھی دیکھنے کا موقع ملا جو حال ہی میں امریکہ کا دورہ کرکے آئے تھے اور گوروں کے سامنے بچھے جاتے تھے ان کے آگے پیچھے ہونے کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جب نئی دلہن کسی گھر میں آتی ہے تو کس طرح گھر والے اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں خصوصا دلہا بس یہی حال ان صاحب کا بھی تھا فریڈم آف انفارمیشن کے موضوع پر ہونیوالے دو گھنٹے کے اس سیمینار میں شعبہ صحافت کے طالب علموں کو لایا گیا تھا اس موقع پر موجود پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رسول جان نے بیان دیا کہ ہم ابھی امریکی ادارے سے وابستہ ہے اور مزید بین الاقوامی اداروں سے تعاون کی امید رکھتے ہیں-یقینا ان کا مقصد امریکی ڈالر یعنی امداد ہوگا اور ان کی خواہش ہوگی کہ فرانک پونڈ اور یورو کے ممالک بھی پشاور یونیورسٹی کی امداد کرے تو اس سے طالب علموں کی حالت بہتر ہو یا نہ وہاں یونیورسٹی کے مخصوص لوگوں کا جن کا کام جی حضوری کرنا ہے کام چلتا رہے گا-

ہمارے لئے بحیثیت صحافی دکھ کی بات یہ ہے کہ امریکی گورے شائد اتنے برے بھی نہیں جتنا ہمارے ہاں کے دیسی گورے یعنی ہماری طرح کے لوگ جو آج کل ڈالروں کے عوض ملازم بنے ہیں وہ بھی سب کچھ چھپا کر کرنے کے عادی ہیں اور تو اور وقت کی پابندی جو ہم پاکستانیوں میں بھی نہیں اسی وجہ سے اب دیسی گورے ان گوروں کے سامنے ہمیں بھی ذلیل کرواتے ہیں یعنی وقت سوا گیارہ بجے دیا جاتا ہے اور پھر ان کی آمد بھی پونے گیارہ بجے ہوتی ہیں پوچھنے پر بتایا گیا کہ گورے تو وقت پرآتے ہیں لیکن پاکستانیوں کو پہلے لانے کی ہدایت بھی دیسی گوری نے ہی دیا ہے -کچھ دن قبل امریکی سفارت کار نے پشاور عجائب گھر کا دورہ کیا بعد میں وہاں پر موجود صحافیوں نے ان سے بات چیت کی کوشش کی تو قونصل خانے میں تعینات دیسی گوری یعنی اصلی گوروں کے سامنے جارو لگانے والے دیسی گوروں نے صحافیوں کو کہہ دیا کہ بات کرنی ہے تو صرف عجائب گھر پر کرلو ورنہ کسی اور بات کی ضرورت نہیں سفارت کار نے اس موقع پر آکر کہا کہ ہمیں یہاں پر خوشی ہوئی بحیثیت صحافی ہم ان کی خوشی کو چاٹنے سے رہے کیونکہ کوئی خبریت تو نہیں تھی لیکن بعدمیں پتہ چلا کہ چند مخصوص صحافیوںکو جو شائد ان کے دیسی گوروں کے گڈ لسٹ میں شامل تھے کو بلا کر انہیں بریفنگ دی گئی یعنی کچھ چھپا کر کام کرنے کی ان کی بھی عادت ہے-

ایسے میں گذشتہ روز لنکن ان ہال میں فریڈم آف انفارمیشن پر تقریر تو امریکی گورے نے بہت زبردست کرلی موصوف سمیت ہمارے چند صحافی جو اس ورکشاپ میں تقریریں اچھی کررہے تھے کا کہنا تھا کہ ہمیں معلومات کی فراہمی کویقینی بنانا ہوگا لیکن جب ہم نے امریکی قونصلر جنرل سے بات کی کوشش کی تو دیسی گوری نے جواب دیا کہ "نہیں جناب اس سے زیادہ بات چیت نہیں ہوگی" یعنی ہمارے لئے فریڈم آف انفارمیشن کا لیکچر اور ان کے اپنے اوپر یہ قانون لاگو نہیں-خیر ہم تو گلہ کرنے سے رہے کیونکہ مے و نوش کرنے والے صحافی ہی ان کے گڈبک میں شامل ہیں اللہ کا شکر ہے کہ ابھی بھی بہت سارے سرپھرے ان چیزوں سے دور ہیں اور انکی طرح ہمیں گوروں کے گڈ بک میں شامل ہونے کا بھی کوئی شوق نہیں ہاںان کیلئے یہی مشورہ ہے کہ فریڈم آف انفارمیشن کا قانون اگر یہ گورے اپنے اوپر بھی لاگو کرے تو اس سے بہت کچھ سامنے آجائیگا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498160 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More