حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ نے
خواتین پر تشدد کے خلاف جس اعلامیہ کا اعلان کیا اس کی مسلم ممالک نے سخت
مخالفت جتائی کیونکہ حقوق نسواں کی آڑ میں اقوام متحدہ نے خواتین کو سر
بازار وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں جو خواتین کی عزت وعفت کیلئے
سم قاتل ہے ۔آزادی کے جھوٹے دعووں کے ساتھ خواتین کو کھلونا بنانے کا قانون
سخت مخالفت کے با وجود دوسرے روز آخر کا رمنظور کر ہی دیا گیا ۔جس سے مسلم
ممالک کو سخت تکلیف پہنچی ہے ۔کیونکہ ایک عورت شوہر کی اجازت کے بغیر ہر وہ
کام کر سکتی ہے جس کو با حیا دنیا گناہ تصور کر تی ہے ،جو براہ راست عورت
کو جنگلی جانوروں کی طرح شتر بے مہال کرنے کی ایک منظم سازش ہے ۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ ہر زمانے میں عورت کا استحصال کیا گیا ہے اور اس زمانے میں
قانون کا سہارا لیکر ترقی یافتہ اور روشن خیالی کی آڑ میں زبردست طریقے سے
استحصال کیا جا رہا ہے ۔اس معاملہ میں پوری دنیا متحد ہے کہ اسلام کے نظام
حیات اور قدرت کے قانون کی دھجیاں اڑائی جائیں ۔اس کیلئے وہ سب کرنے کو
تیار ہیں جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے ۔
اسلام دشمنی میں وہ اس قدر گر چکے ہیں کہ اپنی عزت و آبرو کا بھی انہیں
خیال نہیں ہے ۔آج حوا کی بیٹی کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اسے آزادی کے
جھوٹے نعروں کے درمیان ہوس کی بھینٹ چڑھانے کیلئے ہوس کے حریص اور بچاری
انہیں بے دردی سے استعمال کرنے کیلئے قانون بنا رہے ہیں ۔یہی حال ہندوستان
کا بھی ہے جس کی وجہ سے اس وقت ہندوستانی تہذیب میں بھی زبردست بگاڑ پیدا
ہو چکا ہے ۔ساری تہذیبی قدریں پامال ہو رہی ہیں ہر طرف نسوانیت سسک اور بلک
رہی ہے ۔حالانکہ آزادی کے وقت تک ہمارا تہذیبی شعور بے حد پختہ تھا اور
مغربی انداز معاشرت کی نقالی کو ہم اپنے لئے لغو تصور کرتے تھے لیکن افسوس
کہ وہ ساری روایات ملک آزاد ہونے کے بعد رخصت ہو گئیں ۔
چنانچہ مغربی تہذیب کا طوفان بد تمیزی بھی ہندوستان میں آگیا ،جس کی زد میں
ہمارا معاشرہ ،ہماری تعلیم گاہیں اور ہماری نئی نسلیں ہیں ۔اس طوفان کا رخ
ہر اس چیز کی طرف ہے جس کا تعلق اسلام کی روایات اور عقائد سے ہے ۔جس کے
نتیجے میں نئی نسل کو پرانی اور اسلامی تہذیبیں ناقابل اعتبار بلکہ قابل
نفرت لگنے لگی ہے ۔ہماری خانگی زندگی میں اسلامی اور جدید تہذیب کے درمیان
خلیج پیدا ہونے لگی ہے مغربی تہذیب کی یلغار اس قدر ہو رہی ہے کہ مہذب
گھرانے کے لوگ بھی قدیم اخلاقی پیمانوں کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرنے
لگے ہیں اور وہ دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے اپنی تہذیبی ثقافتی
اور اسلامی روایات کو بلائے طاق رکھنے میں ہی اپنی عافیت کا سامان زیست
تصور کر رہے ہیں ۔
دیگر قومیں اپنے اس تہذیبی و اخلاقی نقصان پر زیادہ فکر مند نہیں ہیں بلکہ
وہ تو مغربی سیلاب کے دھارے میں بہتے جا رہے ہیں اور اسے ہی ترقی کا زینہ
سمجھ رہے ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ اور مغربی آقا چاہتے ہیں ۔لیکن ملت
اسلامیہ کو اس طوفان کا رخ موڑنا ہی پڑے گا ۔بلکہ انکے لئے تو یہ ایک
بنیادی فریضہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔کیونکہ قرآن الکریم میں اﷲ تعالی
فرماتا ہے کہ ’’اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنے اہل وعیال کو آتش دوزخ
سے بچاؤ ‘‘اس لئے امت مسلمہ کو اس طوفان بد تمیزی و بے حیائی کا رخ موڑنا
ہی ہوگا یہ ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے ۔خدارا ہم سنجیدہ ہو جائیں نہیں تو آنے
والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی تعلیمات کے علمبردار بھی آج خود اسی
کلچر میں لت پت نظر آتے ہیں جس میں دیگر لوگ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ
یہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس اﷲ تعالی کی صحیح اور واضح برحق تعلیمات ہیں اور
یہی وہ اﷲ کے برگوزیدہ بندے میں جو علم رکھتے ہیں ،واضح ہدایات ،تعلیمات
اور سرخ روئی وکامیابی کی بشارتیں بھی جبکہ دوسروں کا معاملہ اس کے برخلاف
ہے وہ نہ علم رکھتے ہیں اور نہ ہی عمل اس لئے امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری
عائد ہو جاتی ہے کہ آج معاشرہ کی اصلاح کیلئے قوم کو بچانے کیلئے اٹھ کھڑے
ہوں یہی وقت کی آواز ہے ۔ |